اسلام آباد: مولانا سمیع الحق قتل کیس میں جائے واردات سے اہم شواہد مل گئے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق راولپنڈی میں اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم نے ترہ امرال اور گرد نواح کے علاقے میں چار افراد سے پوچھ گچھ کی ہے۔جائے واردات سے 3 بال، چادر اور قمیض سمیت خون کے دھبوں کے نمونے، ڈی این اے کے لیے فارنزک ڈپارٹمنٹ کو ارسال کر دئیے گئے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق تین میں سے کوئی ایک بال قتل میں ملوث ملزم کا بھی ہو سکتا ہے اور ڈی این اے رپورٹ ملنے سے تحقیقات میں پیش رفت کا امکان ہے۔مولانا سمیع الحق کے موبائل فون پر 6 بج کر 5 منٹ سے 6.10 تک 5 منٹ تک کال کا ریکارڈ ملا ہے۔کیس میں مجموعی طور پر 18افراد کے ابتدائی بیان ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔جن میں مولانا کے ساتھی احمد شاہ اور نجی اپستال کے میڈیکل آفیسر بھی شامل ہیں۔پولیس نے کہا ہے کہ مولانا کے قریبی ہر شخص تک پہنچ کر تفتیش میں مدد لی جائے گی۔واضح رہے معروف عالم دین، مذہبی اسکالر اور جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان گھر میں ہی قاتلانہ حملے میں شہید کردیا گیا۔ ملزمان نے مولانا سمیع الحق پر چاقوؤں سے حملہ کیا۔ حملے کے وقت مولانا سمیع الحق اکیلے ہی گھر میں موجود تھے۔ملازم کا کہنا ہے کہ میں باہر گیا تھا، جونہی میں گھر واپس آیا تو مولانا سمیع الحق خون میں لت پت تھے۔ ان کو اسپتال لے جایا گیا تووہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
یاد رہے مولانا سمیع الحق جمعیت علماء اسلام (س)، دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ اور جامعہ حقانیہ کے مہتمم تھے۔ ان کی عمر 81 برس تھی۔مولانا سمیع الحق 18 دسمبر، 1937ء کو اکوڑہ خٹک میں پید ا ہوئے۔مولانا سمیع الحق 1988 سے دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ ہیں جہاں سے ہزاروں طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ دارالعلوم حقانیہ کو 1990 کی دہائی میں افغان جہاد کی نرسری تصور کیا جاتا تھا۔ وہ مذہبی اسکالر، عالم اور سیاست دان تھے وہ متعدد مرتبہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مولانا سمیع الحق کے طالبان اور ملا محمد عمر کے ساتھ قریبی تعلقات تھے انہیں طالبان کے حوالے سے ایک بااثرشخصیت سمجھا جاتا تھا۔مولانا سمیع الحق دار العلوم حقانیہ کے مہتمم اور سربراہ بھی تھے۔ دار العلوم حقانیہ ایک دینی درس گاہ ہے جو دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جمعیت علما اسلام کے سمیع الحق گروپ کے امیر تھے۔