تحریر : رضوان اللہ پشاوری
اقوام عالم کے تاریخ پر اگر نذر دہوڑایاجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں وہی قومیں خوشحال اور ترقی یافتہ نظر آتی ہیں جن میں اتحاد اور یک جہتی کا جذبہ پایا جاتا ہے یعنی قومی ترقی و خوشحالی کے لیے اولین شرط اتحادو اخوت وبھائی چارہ ہے،مسلمانو ں پر ایک دوسرے کی جا ن ، مال،عزت وآبرو کی حفاظت بلا امتیا ز فرض ہے اور مذکورہ امور میں کوتاہی کرنا حرام ہے ،اسی قانون کا نام شریعت نے ”اخوت وبھائی چارہ”رکھاہے ،جبکہ اس کی ضد عصبیت ہے او روہ مسلمانوں کا قو می ،لسانی ،صوبائی یا خاندانی بنیادوں پر باہمی تناظر اور دشمنی کا نام ہے ۔ حضرت ابوالحسن علی ندوی نے اخوت کی دوقسمیں لکھیں ہیں ،اول یہ کہ پوری نسل انسانی ایک آدم کی اولاد ہے اور حضور اکرم ۖنے حجة الوداع کے خطبہ میں ایسے معجزانہ الفاظ میں اس پر مہر لگادی کہ اس سے زیادہ اسلامی مساوات کا کوئی منشور نہیں ہوسکتا ۔آپۖنے فرمایا کہ تمہارااب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے ،ثانی قسم یہ کہ چھٹی صدی عیسوی میں ایک نئی اخوت کی بنیاد ڈالی گئی ،اس اخوت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاعقیدہ ،نوع انسانی کے ہمدردی کا جذبہ ،عدل و مساوا ت کے اصول اور انسانوں کی خدمت کے عزم وارادہ پر تھی۔
قرآن کریم میں اخوت کوواضح انداز میں بیان کیا گیا ہے ،اہل ایمان کی دو گروہوں کے مابین جنگ کی صورت میں ہماری ذمہ داری قرآن کریم کی آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں اگرکسی قسم کا اختلاف پید اہوجائے تو مسلمانوں میں اہل فہم وارباب حل وعقد پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مخالفت کو ختم کروانے کے لیے پوری جد وجہد کریں اور آپس میں صلح کروادیں ۔باہمی اخوت ومحبت کا جو رشتہ جذبات میں مغلوب ہوگیا اس کو زندہ کیا جائے ،اسی لیے اگلی آیت میں تاکیداً فرمایا ”انما المؤمنون اخوة ” اور ساتھ ہی وہ بنیا د واساس بھی ظاہر کردی گئی جس پر اخوت کی عظیم عمارت قائم ہوسکتی ہے اور وہ ہے اللہ کا خوف ،تومعلوم ہو ا کہ کھبی اگربھائیوں کی لڑائی ہوجائے تو اپنے دونوں بھائیوں میں اصلاح کردیاکرو کیونکہ دونوں گروہ بہر حال تمہارے بھائی ہیں ،آپ ۖ کے ارشادات مبارکہ کابھی ایک بڑا ذخیرہ اس بارے میں منقول ہے
آپ ۖ نے فرمایا کہ باہمی محبت اور تعلق میں اہل ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر ایک عضو بیمار ہوجائے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے آپ ۖ نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے شہر کے باشندوں کے باہم تعلقات کی طرف توجہ دی ۔آپۖ نے محسوس فرمایا تھا کہ مہاجرین مکہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت نہ ہو نے پائے اور ساتھ ساتھ مہاجرین ہجرت کی وجہ سے دل شکستہ نہ ہو ،چنانچہ آپۖ نے تمام مہاجرین وانصار کو جمع کرکے اخوت کا وعظ فرمایا او ر مسلمانوں کے اندر مواخاة قائم کرکے نہایت خوشگوار معاشرہ تشکیل فرمایا ۔اس عہد مواخاة کو انصار نے اس خلوص کے سے نبھایا کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی ۔تمام مہاجرین کو حقیقی بھائی سمجھا اور بے دریغ مال واسباب ان کے سپر د کیا بعض انصار نے اپنے دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کر مہاجر بھائی سے اس کے نکاح کے لیے تیا ر ہوئے ۔مہاجرین نے بھی نہایت ہمت کے ساتھ مزدوریاں کیں اور اپنے پاؤ ں پر کھڑے ہوگئے۔
اب کہا ایثار واخوت ہو مدینے جیسی اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے پاکستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ تنہا اس ملک میں وحدت کے علمبردار ہوبلکہ اس وقت پوری دنیا کے سیاسی نقشے میں اسلامی وحدت کے ہم دعویدار ہیں اور اس کے لئے کوشاں ہیں۔اگر ہم وحد ت سے دستبردار ہوجائیں گے تو ہمار املک بھی لسانی ،تہذیبی جھگڑوں اور پرانی اور علاقائی تہذیبوں کے احیا ء کے فتنوں سے بھر جا ئے گا مثلًا یہ جذبہ کہ مسلمانو ں کی آمد سے پہلے قدیم تہذیب کو زندہ کیا جائے تو پھر اس وطن کا خداہی محافظ ہے ،اس سے انکا ر نہیں کہ اب ا س قسم کے کئی فتنے ملک کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔اس لئے اس ملک کے مختلف عناصر ترکیبی کو جو چیز مربوط کرتی ہے ،وہ ہے وحدت ایمانی ،وحدت عقیدہ اوراخوت ،اگر نئی وحدتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو ذلت مقدر ہوگی جیسے کہ اقبا ل نے پہلے خبردارکیا ۔بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانیاسلامی اخوت کاتقاضہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک جیسے حقوق دے جائے حتٰی کہ غیر مسلم اقلیتو ں کے حقوق کی صرف تحفظ کی جا ئے بلکہ ایک ایسا پر امن معاشرہ تشکیل دی جا ئے جو پوری عالم کے لئے اپنی مثال آپ ہو۔
اسیی طرح سیاسی یا مذہبی مواخاة بھی کی جائے تاکہ ترتمام جماعتیں اپنی سیاسی او ر مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ،لیڈر بننے کی شوق میں امت کو مزید تقسیم نہ کیا جائے ،اس سے تعصب اور تفرقہ وجود میں آئے گا ۔کسی نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جماعت بناکر امت کو تقسیم کیا اور کسی نے مذہب کے نام پر وحدت کی طرف بلانے کے لئے ایک امیر المؤمنین کا انتخاب کیا اور باقی سب مسلما ن اس کے ماتحت ہو ں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اسلام اجتماعی زندگی کا نام ہے ۔جمہوریت کا نہیں جمعیت کا نام ہے تاریخ کو دیکھا جائے تو ہٹلر (Hitller) نے ایک باطل مقصد کے لئے تمام عیسائی دنیا کو جمع کیا اور اس میں کسی حد تک کا میا ب بھی ہوئے ۔یوں مسلمانو ں کو اس وقت ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو صحیح رخ متعین کرنے کے بعد ملت اسلامیہ میں اخوت پید اکرکے ایک مثالی حکومت قائم کرے جمہوریت کو چھو ڑ کر خلافت کا راستہ اپنایا جائے ،جمہوریت میں افراد کی گنتی تو کی جاتی ہے لیکن تولا نہیں جاتا ۔ایک عالم اور شریف آدمی ووٹ کے اعتبار سے شرابی کے برابر ہے ۔جمہوریت ہی کی وجہ سے آج تمام عالم کے مسلمان کئی جماعتوں میں بٹ گئے ہیں ،خلافت کے قیام سے خلافت عثمانیہ کی طرح سب مسلمان ایک جسم کے مانند ہوجائیں گے اور اس کے لئے اساس ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جیسا کہ سورة النور میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
فروعی اختلافات کی بجائے اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھا جائے فروعی مسائل کو بنیاد بناکر اختلافات نہ کیا جائے ۔اگر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں تو وہ تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اپنے اصول وقواعد کی بنیا د پر اور اجتہاد کی قوت پر ۔اگر حضرات ائمہ کر ام کی سیرت پر نظر ڈالا جائے تو اس فروعی اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کے دلدادے تھے اور ایک دوسرے کی حد درجہ کی عزت کرتے تھے ۔آج ہماری حالت اگر بدلے گی تو ہمیں خود ہی اس کے لئے محنت کرنی پڑی گی ۔ خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیا ل جس کو اپنی حالت بدلنے کی موجودہ دور کا یہ اہم ترین موضوع اب تک ہماری مکمل توجہ کا طلب گار ہے اور اس موضوع پر مشتمل اور سنجیدہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور شاہدیہی وجہ ہے کہ آج ملت اسلامیہ لسانی مساوات کاشکار ہے ۔ہمارے جن مسلمان بھائیوں میں یہ Virus سرایت کر چکا ہے ان کی اصلاح کرنا بھی بلامبالغہ ہمار فرض ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی ادائیگی کرنے والا بنادے ۔( اٰمین)
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہے سب کانبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآ ن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
تحریر : رضوان اللہ پشاوری