تحریر : ایم آر ملک
دھاندلی کی راکھ پر جشن منانے والے فاتح نہیں شکست خوردہ ہوا کرتے ہیں ۔نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ایک اکثریت مایوس ہے مگر مایوسی گناہ کے زمرے میں آتی ہے اور کونسے منصف وہ منصف جو کسی آمر کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُس کے ہر غیر آئینی اقدام کو آئینی اقدام دینے پر تلے رہے پھر 34سالہ عدلیہ کی تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ رائے ونڈ کے حکمرانوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آیا ۔عوامی رد ِ عمل یہ ہے کہ سٹیٹس کو کی وہ ساری قوتیں عمران کے خلاف متحد ہو چکیں اور انسان دشمن نظام جو ان کی بد معاشی کا محافظ ہے اسے بچانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے ڈٹ چکی ہیں کہ اسی میں اُن کی بقا ہے عمران نے انصاف کے جس مندر کا دروازہ کھٹکھٹایا اُس کے تقدس کا بھرم تو اُسی روز ٹوٹ گیا تھا جس روز اڈیالہ جیل سے بھٹو کی ارتھی نکلی ۔ بعد ازاں نسیم حسن جیسے ننگ ِ انصاف نے بھی اس فیصلہ کو غلط ماننے پر اکتفا کیا ایک ایسی عدالت جس کے دروازے سے بدنام زمانہ منی لانڈرنگ کیس کی سر غنہ ایان علی تین ماہ بعد جرم ِ بے گناہی کی کلین چٹ لیکر باہر نکلی۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے فرنگی کی عدالت میں کھڑے ہوکر ایک بار کہا تھا ” عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی طولانی ہے تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے ،ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے سچا انسان تھا ”سیاست کے میدان نئی اُڑان بھرنے کیلئے انصاف کے دیوتا کا جو کردار رہا عوام آج اُس پر تھو تھو کرتے ہیں۔ اُس نے انصاف کی سب سے بڑی عدالت کو ”شریفوں کا اڈہ ”بنائے رکھااور اُس کے صاحبزادے ڈان ارسلان کی کمپنی کا ہیڈ آفس اس سابق چیف جسٹس کی قیام گاہ تھا۔میرے ایک لکھاری دوست کے بقول” ہمارے معاشرے میں موصوف کے تابناک ماضی کی شاندار لافانی کہانیاں رقص کرتی ہیں توہین عدالت کی تلوار سے جو گردن ِ زنی کا شوق پورا کرتا رہا۔
اب سیاست کے میدان میں موصوف کو یہ بتانا پڑے گا کہ کہ اُس نے 2013کے انتخابات میں فرائض ادا کرنے والے آر او صاحبان کو الیکشن کمیشن کے ماتحت کرنے کے بجائے ایک حکم پر اپنے ماتحت کرکے انتخابات میں کس کو فائدہ پہنچایا ” انصاف کے اس دیوتا کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاریخ کی انوکھی مراعات ملیں جس میں 6000سی سی کار ،4689لیٹر مفت پٹرول 33لاکھ کی اس گاڑی کی مرمت کیلئے ہزاروں روپے کے علاوہ 21سکیورٹی گارڈز کی فوج ظفر موج موصوف کیلئے مختص ہے اس انصاف کے دیوتا کے دور تعیناتی میں 2008سے2012تک 14000دہشت گردوں کے مقدمات پیش ہوئے جن کو ضمانتوں پر رہا کر دیا گیا ۔صرف سوات میں 500خطرناک دہشت گرد تھے جن کے مقدمے تین خصوصی عدالتوں میں پیش ہوئے اور صرف15کو بمشکل سزا ملی جبکہ باقیوں کو ضمانتوں پر رہا کردیا گیا ۔یہ وہ دہشت گرد تھے جنہوں نے پاک فوج کے خلاف باقاعدہ محاذ کھولا ،جوانوں کے گلے کاٹے مگر دہشت گردوں کا سہولت کا ر آج نئی پارٹی بنا کر میدان سیاست میں اُتر رہا ہے۔
جس روز جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آئی ایک دوست نے بڑا تبصرہ کیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ تو شائع نہ ہو سکی ،کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری جس کو ایان علی کے سر پرستوں نے مروایا اور کامران فیصل کے قتل کی فائلیں ہمیشہ کیلئے عدلیہ کے” نظریہ ضرورت ”کے نیچے دب گئیں ۔جو عدالتی نظام تین ماہ تک ایان علی پر فرد جرم نہ لگا سکا وہ الیکشن میں دھاندلی کیا ڈھونڈتا؟ کہیں بک گئی یہاں منصفی ،کہیں سوئے دار چلی خودی کہیں زر خریدوں کے فیصلے ،کہیں اندھی بہری عدالتیں ریمنڈ ڈیوس نے بھر ے بازار میں پاکستانی شہریوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیامگر سموسوں اور پکوڑوں پر سو موٹو ایکشن لینے والے افتخار چوہدری کا انصاف سویا رہا ۔پنجاب جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی نے بدنام زمانہ سی آئی اے امریکہ کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پر غیر قانونی اسلحہ کی دفعہ اس لئے نہ لگائی کہ اُس کی رہائی میں یہ دفعہ آڑے نہ آجائے۔
خود منصفوں کی تحریر 2013کے الیکشن پر کراس کا نشان لگاتی ہے کہ {an election could be organized in an unfair manner but may still represent the over all mandate and vice versa}یعنی” ایک الیکشن کا انعقاد غیر شفاف ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ لوگوں کے مینڈیٹ کی عکاسی کرتا ہے” عمران کی ان باتوں سے اتفاق کئے بنا چارہ نہیں کہ ‘ ‘میاں صاحب نے کہا وہ جیت گئے ،میاں صاحب آپ ہارے کب ہیں ؟اصغر خان کیس سپریم کورٹ میں پڑا ہے آئی ایس آئی چیف کہتا ہے کہ ہم نے 1990میں نواز شریف کو پیسے دیئے ،مہران بنک کو پیسے دیئے کیس ابھی تک عدالت میں ہے اور آپ جیت گئے ،اسحاق ڈار نے حلف نامہ لکھ کر دیا کہ اُس نے آپ کیلئے منی لانڈرنگ کی پھر بھی آپ جیت جاتے ہیں مشرف دور میں حدیبیہ پیپر مل ،ہائی جیک کیس ،ٹیکس چوری کیس پھر این آر او ہو جاتا ہے میاں صاحب سعودی عرب چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
سعودیہ سے شہزادہ آکر بتاتا ہے کہ معاہدہ ہوا تھا مگر آپ جیت جاتے ہیں پھر آپ ساڑھے تین ارب کے ڈیفالٹر ہوتے ہیں ڈیفالٹر الیکشن نہیں لڑ سکتا لیکن آپ کو کوئی روک نہیں سکتا اور آپ جیت جاتے ہیں،اربوں کے اثاثے ملک سے باہر پڑے ہیں ایک جمہوری ملک میں ڈیکلیئر نہیں مگر میاں صاحب آپ جیت جاتے ہیں ”ہمیں اُس نظام کا تیا پانچہ کرنا ہوگا جس نظام کے تحت عمران چار حلقوں میں انصاف کی خاطر انصاف کی ہر دہلیز پر پہنچا مگر ہر دروازے پر دستک کے بعد اُسے اپنی ہی آواز سنائی دی ۔جس ملک میں ادارے کرپشن کی نذر ہوکر بکنے لگیں ،تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہو جائیں ،صحافی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ لکھنے کی جزا پاکر عہدوں پر بٹھائے جانے لگیں اُس ملک میں محب ِ وطن لوگوں کی خاموشی جُرم تصور ہوتی ہے۔
تحریر : ایم آر ملک