تحریر: ڈاکٹر احسان باری
کچھ لو گوں کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست میں چوہے بلی کا کھیل شروع ہو چکا ہے دیگر افراد کہتے ہیںکہ جنگل میں مورناچا کس نے دیکھاکی طرح پُتلیوں کا تماشا ہورہا ہے جس کی ڈوریاں کسی اورکے ہاتھ میں ہیں۔یہودیوں نے جب مسلمانوں پر بھرپور وار کرنے کی پلاننگ کی تھی تو وہ دنیائے اسلام اور پھر پوری دنیا کی معیشت پر مکمل قبضہ کرنا ٹھہرا تھا۔امریکی صدارتی انتخاب کا بڑا دھوم دھڑکا ہے مگر تمام ہی صدارتی امیدواروں پریہودی بھرپور انویسٹمنٹ کر رہے ہیں۔
تقریباً سبھی امیدواروں کا بڑا خرچہ وہی اٹھائے ہوئے ہیںکہ جو بھی جیت جائے گا وہ اس کو جدھر ہانکنا چاہیں گے وہ ادھر ہی مڑ جائے گا۔یعنی انھی کی جھولی میں آگرے گا۔امیدواروں کی طرف سے بڑے وعدے وعید کیے جارہے ہیں اور مسلمانوں کا تو ناطقہ بند کرنے کا ارادہ ٹرمپ رکھتا ہے مگر ہو گا وہی جو سب کا قادر مطلق خدا وند قدوس چاہے گایہودی پالیسی واضح ہے کہ ہر ملک میں ان کے ہاتھ کا بندہ ہی منتخب ہویا کسی دوسرے ذریعے سے قابض رہے جو مہرہ عوام کی نظروں سے گر جائے فوراًدوسرا یا تیسرا مہرہ آگے کردیا جائے ۔سود در سود کاروبار،بنکنگ سسٹم،انشورنس و انعامی سکیمیں ،ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا بھاری قرضے دے کر ترقی پذیر اقوام کی گردنوں کو دبو چناسبھی انھی کی مخصوص پلاننگ کا حصہ ہیں۔چونکہ سرمایہ کے بعد میڈیا کا رول بھی دنیا بھر میں اولین حیثیت اختیار کرچکا ہے اس لیے تمام بڑے اخبارات و رسائل،ٹی وی نیٹ ورکس ،انٹرنیٹ ودیگر ذرائع ابلاغ پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔
تاکہ اپنے مقصد کی ترویج کے لیے ہی خبریںترسیل ہو کر نشر ہوں اور مخالفین کی خبریں خصوصاً اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا بلیک آئوٹ رہے۔ہماری پاکستانی سیاسی ایلیٹ نا قابل اعتبار ہے جس کا قبلہ ہی دنوں میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔بھاڑے کے ٹٹوبھی بار برداری کرتے ہوئے چوں چراں نہیں کرتے مگر ہمارے راہنمایان چونکہ زیادہ تر انہی جاگیردارطبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔جنھیں انگریز جاتے ہوئے”مخصوص بیٹے “سمجھ کر نواز گیا۔بنک لوٹنے والے اور مخصوص سرمایہ داروں نے بڑی پارٹیوں کو گھیر ہی نہیں بلکہ یرغمال بنا رکھا ہے۔وہ خود گرین کارڈ ہولڈر ہیں اور ان کی اولادیںبیرون ممالک کاروبار کرتیں اور وہیںکی شہری ہیںتو ان میں ملک سے محبت کہاں سے آئے گی عبدالقادر ملا،پروفیسر غلام اعظم ،صلاح الدین چوہدری مطیع الرحمان نظامی جیسے معتبرافراد جن میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ان کی اموات پران سیاستدانوں کو دکھ کیونکر ہو گا؟9/11 کے موقع پر کمانڈو جنرل کو امریکہ نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا مخالف اب یہی بات مودی کا دم بھرنے والے میاں صاحب اور لندن میں یہودی سابقہ سالے کی الیکشنی مہم چلانے والے عمران پر کیوں نہ عائد ہو گی کہ آپ پاکستان کے حامیوں کے دکھ درد کے ساتھی ہیں یا پھر اس بھارت کے جس کی شہ پر ہندوئوں کی راج دلاری خبیث باطنہ حسینہ محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام کر رہی ہے ان کے حق میں آواز نہ اٹھا کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیرت کا مادہ عنقاہو چکا۔یہ صرف نعرے باز اور اقتدار کے بھوکے ہیں۔ قربانیوں ،ولولوںکے چشمے ان سے پھوٹیں گے ایں خیال است ومحال است و جنوں۔سید ابو الاعلیٰ مودودی الشاہ احمد نوارنی،مولانا مفتی محمود ،ذوالفقار علی بھٹو ،خان عبدالولی خان قاضی حسین احمد ،پروفیسر عبدالغفور احمدو دیگر اہم شخصیات اس جہان فانی سے رخصت ہوچکیں۔
اب ان کی طرح کا کوئی دینی و سیاسی راہنمااور آغا شورش یا علامہ احسان الٰہی ظہیرکے پائے کے مقرر کہاں؟انتہائی باشعور ہونے کے باوجود وہ اپنی پارٹی کے اہم ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاتے تھے ۔مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔میاں صاحب کسی ساتھی حتیٰ کہ افواج سے بھی مشاورت کیے بغیر مسلمانوں اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارتی وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں جا دھمکے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی۔ پھر اپنی مخصوص خاندانی تقریب میں بغیر کسی پاسپورٹ کے سینکڑوں بھارتیوں کو بمعہ مودی کے بلا بھیجا اور اسلامی اقدا ر کے مطابق گھریلو خواتین کاہندو بنیوں سے پردہ تک نہ کروایا۔عمران خان نے تو تمام حدیں ہی پھلانگ ڈالیں پاکستانی نثراد مسلمان صادق خان کے مقابلہ میں یہودی کی الیکشن مہم چلائی۔
ایسے کارنامے کرنے پران دونوں کے بارے میںاسلامی شریعت کیا کہتی ہے؟علمائے اکرام ہی بہتر بتا سکتے ہیں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔اگر عمرا ن خان ایسی کمپین لندن میںچلانے سے قبل اپنے پارٹی راہنمائوں سے مشورہ کرتے تو وہ کبھی انھیں ان دنوں لندن ہی نہ جانے دیتے۔نواز صاحب کو بھی دو نوںمواقع پر فو ج یا پارٹی قطعی اجازت نہ دیتی”پرائی جنجے احمق نچے” کا کردار کیا ان دونوں کا کوئی قابل تحسین کارنامہ ہے”ہرگز ہرگز نہیں” امریکی ،اسرائیلی ،بھارتی تکون مسلسل پاکستان دشمنی پر اتری ہوئی ہے اور اب سعودیوں سے بھی دست پنجہ ہو جانا چاہتی ہے۔امریکہ” بہادر”افغانی القاعدہ و طالبان کو ختم کرچکا اب سعودیہ میں ان کی تلاش میں جارہا ہے۔
الکفرملتاًواحدہ کی طرح ان تینوں کو عالم اسلام کا کوئی ملک بھی نہیں بھاتاتمام اسلامی ملک آپس میں دست و گریبان رہیں اور وہ دور کھڑے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا دیکھ کر شیطانی ہنسی ہنستے رہیں ۔ہمارے راہنمایان اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے ان کے کسی ایکشن پر کوئی رد عمل دینا گوارا ہی نہیں کرتے۔سمجھتے ہیں کہ سامراجیوں کے خلاف کوئی بات اشار تاً بھی کی تو پھراقتدار جاتا رہے گا یا پھر اقتدار کسی دوسرے کو بھی مل نہیں سکے گا۔یہ راہنماذات کے خول میں بند اور خود ستائی ،خود پسندی جیسے موذی مرض کے مریض ہیں اور لسانی ،طبقاتی ،علاقائی ،نسلی اور فرقہ وارانہ نفرتوں اور عصبیتوں کے پر چارک ہیںعمرانی کارکنوں کو ہر وقت مشرف کے وزیر خزانہ ترین جنہوں نے 9کروڑ 96لاکھ کاقرضہ ہضم کرکے معاف بھی کروالیا تھا ،موسم کے مطابق پارٹیاں تبدیل کرنے والے قریشی اور آفشور کمپنیوں کے مالک علیم خان وغیرہ کو فرشتہ ثابت کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔اور ن لیگی میاں صاحبان کو دودھ دھلا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
کیونکہ سبھی جغادری سیاستدان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے نظر آتے ہیں اس لیے مشرف دور کی طرح غالباً ان سبھی کرپٹ لیڈروں کے لیے ایک اور این آر او کر نا پڑے گا۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ پانامہ والے ہمارے راہنمائوں کی طرف سے ٹیکس بچانے کی جعل سازی کرنے کی بنیاد پر ان کی تمام رقوم بحق سرکار ضبط کرلیںاور یہ سبھی انگوٹھا چوستے رہیں۔ پانامہ لیکس کے پاکستانی سبھی ملزمان”مٹی پائو”پرو گرام چاہتے ہیں۔انھیں مقتدر رہنے دو و گرنہ جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔سیاست نہ ہوئی کوئی بیمار گدھی ہوئی جس پر بھار لادا گیا تو یہ مرجائے گی۔ہماری مائوں بہنوں بیٹیوں کی پاکستان بنانے پر لاکھوں قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی خد ا کی غیرت ضرور جوش میں آئے گی ۔لٹیروں کی انجمنیںگہری کھائیوں میں مدفون ہوں گی ۔رات کی کوکھ سے صبح ضرور جنم لے گی اور نبی اکرم ۖ کے دین کا پھریرا عالم اسلام پر لہراتا ہی رہے گا۔
تحریر: ڈاکٹر احسان باری