ممتاز ماہر تعلیم، جامعہ کراچی کے سابق شیخ الجامعہ اور قائم گنج (اترپردیش) کے علمی وادبی خانوادے کے چشم وچراغ ڈاکٹرمحمود حسین مرحوم کہا کرتے تھے کہ علم کے چار مآخذ ہوا کرتے ہیں۔یعنی ابجد، ہندسہ، عکس وترتیب اور آہنگ۔ان مآخذوں کی تشریح وہ یوں کیا کرتے تھے کہ ابجد تحریر وتقریرمیں الفاظ اور جملوں کا استعمال کے ہنرکو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ہندسہ اعدادوشمار کی بنیادہے،جو ریاضی سے متعلق مضامین کی ترویج کا ذریعہ ہے۔ عکس وترتیب مصوری وخطاطی کوجنم دیتی ہے، جب کہ آہنگ رقص وموسیقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچے کے ذہنی میلان کا اندازہ اوائل عمر میںتین چارمرحلوں پر ذہانت کا جائزہ آئی کیو ٹیسٹ لینا چاہیے، تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ وہ فطری طورپرکس شعبہ کے لیے اس دنیا میں آیا ہے۔پھر اسی شعبے میں اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین بچوں پر اپنی خواہشات تھونپنے کے بجائے انھیں ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ذہنی میلان کے شعبہ میں اسے قسمت آزمائی کا موقع دینا چاہیے۔ اس طرح بچے نہ صرف اپنے مخصوص شعبے میں بلند مقام حاصل کرتے ہیں بلکہ ملک و معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد اور اہل خانہ کے لیے باعث فخر بن جاتے ہیں۔
ولی باصفا حضرت شاہ ولایتؒ کے قدموں سے منور اترپردیش کے ایک مردم خیزقصبہ امروہہ(جو اب ضلع ہے)میں جہاں علم و ادب کے ایک سے بڑھ کر ایک چراغ روشن ہوئے۔ وہیں ایک بے مثل مصور، نابغہ روز گار خطاط اور صاحب طرز شاعر صادقین کا جنم بھی ہوا، جو ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کے بیان کردہ علم کے تیسرے مآخذ عکس و ترتیب کی منہ بولتی تفسیر تھے۔ انھوں نے مصوری کو ایک نئی شناخت، خطاطی کوایک نیا اسلوب اور شاعری کی صنف رباعی کو ایک نئی طرز عطا کی۔ان کی شاعری تو لازمی طورپر اردو شناس حلقوں تک محدود رہی۔ لیکن مصوری اور خطاطی نے نہ صرف انھیں عالمی سطح پر قبولیت کے بام عروج پر پہنچادیا، بلکہ پاکستان کو بھی ایک نئی شناخت دی ۔
صادقین ایک قلندر صفت انسان تھے۔ جو نام و نمود اور شہرت سے بے نیاز اپنے تخلیقی کاموں کی دھن میں مگن رہا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مصوری اور خطاطی وہ کسی مالی منفعت کے لیے نہیں، بلکہ اپنے ذہن میں کلبلاتے تصورات اور خیالات کو تصویری شکل دیتے ہیں، جب کہ خطاطی رضائے الٰہی کی خاطر کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دیگر مصوروں کی طرح کبھی اپنی تخلیق کردہ مصوری اور خطاطی پرکبھی دستخط نہیں کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی تخلیقات کی چربہ سازی اور سرقہ قدرے آسان ہوگیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ ہر بلند پایہ شاعر، کہانی کار اور مقالہ نگارکی تخلیقات کا سرقہ عام ہے، اسی طرح نامور مصوروں اور خطاطوں کی تخلیقات کی چوری، ان کی جعلی نقول کی تیاری اور نئی تصاویر اور خطاطی کو ان کے نام سے موسوم کرکے بھاری معاوضوں کا حصول بھی عام ہوچکا ہے۔
صادقین مرحوم 10فروری 1987کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی تخلیقات کے سرقے اور جعلی مصوری اور خطاطی کے علاوہ بعض نئی تصاویراور خطاطی ان کے نام سے منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ اس سلسلے میں پہلی نمائش کلفٹن کراچی کی آرٹس گیلری میں دسمبر 1990 میں منعقد ہوئی۔ اس نمائش پر انگریزی ماہنامے نیوزلائن میں امبر خیری کا مضمون جعلی چیز کے نام سے فروری 1991میں شایع ہوا۔ جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی آرٹس مارکیٹ میں دھوکا دہی کا کاروبار تیزی کے ساتھ پنپ رہا ہے۔ جس کی مثال انھوں نے متذکرہ بالانمائش کو قراردیا۔ اسی مضمون نگار نے صادقین مرحوم کے شاگرد اور نائب انور کا انٹرویو لیا، جس نے اعتراف کیا کہ نمائش میں پیش کی جانے والے صادقین کے بیشتر فن پارے جعلی اور متنازع تھے۔
جعل ساز کس قدر دیدہ دلیر ہیں، اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ 2007 میں آئی کون کے زیر اہتمام نیویارک میں مصوری اور خطاطی کی نمائش ہوئی۔ جس میں صادقین کے نام سے بھی فن پارے رکھے گئے۔ ان میں بیشتر فن پارے یا تو جعلی تھے یا نئے فن پارے کے نام سے بھاری قیمت پر فروخت کیے گئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ جون2013کو لاہور میں پیش آیا۔ ایک مقامی ہوٹل میں معروف مصوروں اور خطاطوں کی تخلیقات نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ایک انگریزی روزنامہ نے اپنی 14جنوری2014کی اشاعت میں اس نمائش کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اخبار کے مطابق اہم شخصیات کو اس نمائش کے منتظمین نے ’’ ماموں‘‘ بنا دیا۔ سابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب خالد لطیف کا کہنا تھا کہ جب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ نمائش میں صادقین کی تخلیقات کے جعلی نمونے رکھے گئے تھے، تو وہ سکتے میں آگئے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ نمائش کے منتظمین کا سرغنہ نمائش ختم ہوتے ہی بیرون ملک فرارہوگیا۔
حالیہ برسوں کے دوران لاہور سے مصوری اور خطاطی پر تین کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ان میں صادقین مرحوم سمیت نامور فنکاروں کے اہم اور مقبول فن پاروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ مگر ان میں صادقین کے نام سے شامل کیے گئے فن پاروں کی اکثریت جعلی ہے۔ کچھ صادقین کے نام سے موسوم نئے فن پارے بھی شامل ہیں،جوان کے بھتیجے سلطان احمد کے مطابق صادقین کے انتقال کے بعد بنائے گئے تھے۔ ان کتابوں میں یوں توکئی جعلی خطاطیاں ہیں، لیکن سورۃ رحمان کے32فریم قطعی جعلی ہیں، جن کی شناخت اصل فریموں کو دیکھ کر باآسانی کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ نمائش چند روز چلتی ہے، جس میں فن سے لگاؤ رکھنے والے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ فنکار کا شہ پارہ سمجھ کر جعلی تصویر یا خطاطی کے نمونے کو بھاری معاوضہ دے کر خرید لیتے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ اپنے گھر میں سجا دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کو مرتے دم تک یہ ادراک نہیں ہوتاکہ تصویر یا خطاطی کا فریم جو انھوں نے پسندیدہ فنکار کی چاہت میں بھاری قیمت ادا کر کے اپنے گھر میں سجا رکھا ہے، وہ جعلی ہے۔ اگر معلوم ہوجائے تو سوائے سر پیٹنے کے اور کوئی چارا نہیں ہوتا۔ لیکن کتاب میں شایع ہونے والا مواد دستاویزی شکل اختیار کرتے ہوئے تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس لیے کتابوں میں بغیر تحقیق ایسے متنازع ، چربہ اور جعلی تصاویر اور خطاطیوں کا شامل کیا جانا، حد درجہ غیر ذمے داری ہے۔ جس سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرناچاہیے۔
کل صادقین مرحوم کی 30 ویں برسی ہے۔ اس موقعے پر ہم صاحبان حل وعقد سے یہ التماس کرنا چاہیں گے، کہ وہ ان سمیت تمام مرحوم فنکاروں کے شہ پاروں کی نمائش کی اجازت دینے سے قبل کم از کم یہ اطمینان ضرور کرلیا کریں کہ اس میں رکھے جانے والے فن پارے واقعتاً ان فنکاروں کے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح کتابوں کی اشاعت سے قبل اگر یہ بات یقینی بنالی جائے کہ اس میں شامل مواد سرقہ یا چربہ نہیں ہے، تو اس طرح عوام کو دھوکا دہی سے خاصی حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ کمپیوٹر کا ایک سافٹ وئیرمتعارف ہواہے،جس کے ذریعہ تحقیقی مقالے کے ادبی سرقہ ادبی سرقہ ہونے کو جانچناآسان ہوگیا ہے۔ اگر ایسا ہی کوئی انتظام مصوری اور خطاطی کے بارے میں دریافت ہوجائے، تو فنکاروں اور فن نواز حلقوں کے ساتھ ہونے والی دھوکا دہی کا قلع قمع ممکن ہے۔