تحریر : عفت بھٹی
غضب خدا کا پاکستان کا اعلان کیا ہوا سب کے دل ہی بدل گئے بانو بوا جلدی جلدی سامان گٹھڑی میں باندھتے بڑبڑائیں۔ اماں ہم پاکستان جا رہے ناں۔ سولہ سالہ کبری نے فرط اشتیاق سے پو چھا۔شش چپ کسی کو مت بتانا۔ بوا نے ادھر ادھر دیکھا ۔اماں شیتل کو بھی نہیں؟ کبری نے حیرت سے پوچھا۔ہاں اسے بھی نہیں۔ماں بیٹی کی گفتگو جاری تھی کے باہر شور کی صدا بلند ہوئی دھاڑ سے دروازہ کھلا اور سلیم میاں انور اور ننھی صغری کی انگلی تھامے بوکھلائے ہوئے اندر آے اور چٹخنی چڑھا دی آپا جلدی کرو بچوں کو لے کے پچھلے دروازے سے نکلو میں پیچھے آتا ہوں ۔لیکن بھیا۔بوا روہانسی ہو گئیں۔آپا بلوائی پہنچنے والے جاؤ زندگی رہی توملاقات ہو گئ۔شام چھ بجے پاکستان کی ٹرین چھوٹے گی اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔سلیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
انہوں نے نظر بھر کے بہن اور بچوں کو دیکھا اتنے میں شدت سے دروازہ دھڑدھڑایا گیا اور نعروں کی آوازوں کے ساتھ ہی دروازہ توڑا جانے لگا۔بھاگو آپا۔سلیم نے دروازے کے آگے سامان گھسیٹ کے لگاتے ھوئے چلا کے کہا۔بانو بوا نے بچوں کو سمیٹ کے گلی کی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔اسی لمحے دروازہ چرچرانے کی آواز آئی۔ اور دروازہ ٹوٹ گیا۔سلیم اندر کمرے کی طرف بھاگا اور کنڈی لگا لی اور پچھلی کھڑکی سے باہر کود گیا ابھی چند قدم ہی اٹھا پایا تھا کہ ایک کرپان کا وار ہوا مسلے آ تجھے پاکستان پہنچاؤں ۔شدید زخمی حالت میں وہ پشت کے بل گر گیاایک اور نفرت انگیز وار ہوا اور کرپان دل کے پار ہو گئی سامنے موہن داس کھڑا تھااس وقت سلیم کی زبان پہ کلمہ طیبہ کے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کے ادا ہوئے اور اس نے اپنی جان آفرین کے سپرد کر دی۔
بوا نے انور کو گود میں اٹھا رکھا تھا اور آٹھ سالہ صغری کبری کا ہاتھ تھامے پھوپھی اماں کے ہمقدم رہنے کے لیے بھاگ رہی تھی دور سے اسٹیشن دکھائی دیا بوا کی جان میں جان آئی۔اسی لمحے جے کالی کی صدائیں آنے لگیں انتہا پسند ہندوؤں کا ایک جتھا تلواریں اور ترشول لہراتا آ رہا تھا ۔بوا نے جلدی سے خود کو اور بچوں کو دیوار کی آڑ میں کرلیا دل تھا کہ مانو پسلیاں توڑ کے باہر آ رہا تھا۔جتھا گذر گیا اس نے اسٹیشن کی طرف قدم بڑھائے ٹرین آچکی تھی ہر طرف خوف اور افراتفری کا سا سماں تھا۔ٹرین نے اسٹیشن چھوڑا تو بوا کی منتظر آنکھیں بھر آئیں بھیا زیر لب ایک لفظ اللہ میرے بھائی کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔بعض دعائیں قبولیت کا درجہ پانے سے قاصر ہوتیں۔
ٹرین کی رفتار بڑھ گئی تھی ننھا انور سو گیا تھا۔صغری بھی کبری کی گود سو رہی تھی بتیاں گل کر دی گئیں بیشتر مسافر لٹی پٹی حالت میں تھے کئی تو زخمی بھی تھے۔ٹرین کے جھٹکوں نے لوری کا کام دیا اور بانو بوا کی بھی آنکھ لگ گئی۔یکلخت چیخ و پکار سے بوا کی آنکھ کھل گئی بلوائیوں نے ٹرین پہ ہلہ بو دیا تھا اور ہر طرف آہ وبکا تھی۔بانو نے انور اور صغری کو اندھیرے سے فائدہ اٹھا کے سیٹ کے نیچے گھسا دیا اور چپ رہنے کی تلقین کی۔اتنے میں بلوائی ان کے ڈبے تک آ پہنچے وہاں موجود مردوں نے بھی مقابلے کی ٹھانی وہ گھمسان کارن پڑا کہ الامان و حفیظ۔کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی کبری ماں کے پیچھے چھپی سسک رہی تھی ایک کی نظر اس پہ پڑی اس نے دوسرے کو آنکھوں میں اشارہ کیا۔اس نے بڑھ کے کبری کی کلائی تھام کے اپنی طرف کھنچا۔بانو بوا کی تو جان لبوں پہ آئی وہ زخمی شیرنی کی طرح ان پہ جھپٹیں۔
بلوائی نے انہیں زور سے دھکا دیاوہ سیٹوں سے ٹکرائیں سیٹ کی نیچے انور اور صغری نی روناشروع کر دیا ۔بانو بوا پھر اٹھیں اور اس درندے پہ جھپٹیں جو کبری کی عزت تار تار کرنے کے درپے تھا وہ اسے گھسیٹ کے دروازے کی طرف لے جا رہا تھا اس وقت ٹرین دریا کے پل سے گذر رہی تھی۔بوا نے ایک فیصلہ کیا اور کبری کو زور سے ٹرین سے نیچے دھکا دے دیا بلوائی اور کبری دونوں نیچے جا گرے بلوائی کے ساتھی نے جھانک کے دیکھا تو اس کاساتھی پل سے اٹک گیا جب کہ کبری چھپاکے کے ساتھ دریا میں جا گری۔وہ غصے سے پلٹا سالی مسلی کہتے ہوئے بانو بوا کو پیٹنا شروع کر دیا ۔صغری روتی ہوئی پھوپھی سے لپٹ گئی بلوائی نے زور سے خنجر کا وار کیاننھی سی جان وہیں ساکت ہو گئی۔بوا پہلے ہی بے ہوش تھی۔
اتنے میں مسلم لیگ کے نوجوان کارکن آ پہنچے اور بلوائیوں نے راہ فرار اختیار کی۔بوا کو جب ہوش آیا توانکی مال متاع میں انور ہی بچاتھا مگر خدا کی شکر گزار تھیں کہ وہ پاکستان کی سر زمین پہ تھیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے شکرانے کے اور ان کی کہانی سن کر میں شرمندگی سے نظر نہیں ملا پا رہی تھی کہ ہم ان کی اتنی قربانیوں کی قدر نہ کرپائے ۔اور آج آزاد ملک کے مالک ہوتے ہوئے بھی ہمارا نظام اور حکومت ان خون کی ہولی کھیلنے والوں پہ قابو پانے سے قاصر ہے۔؟؟؟۔۔
تحریر : عفت بھٹی