تحریر: عرفان طاہر
اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں ماضی اختیا ر سے با ہر ہوتا ہے ، مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے حال کا لمحہ اتنا اہم ہے کہ اس کے زریعے ماضی بھی درست ہوسکتا ہے،اور مستقبل بھی ،حال میں توبہ کر کے نیک بن جاتا ہے ،آنے وا لے اندیشے، حال میں توبہ کرنے سے بہتر ہو سکتے ہیں۔ بلا شبہ سورہ دہر میں اللہ رب العزت نے خو د کو زمانے سے تعبیر کیا ہے اس لیے زمانے کو برا بھلا کہنے والا درحقیقت اصلیت اور داناءی سے بے خبر ہے ۔مسءلہ کشمیر اسقدر آسان اور مشکل نہیں ہے جتنا کہ اس سے وابستہ افراد نے اسے بنادیا اس کے حل کو ناقابل حل بنا نے وا لے بھی وہی لوگ ہیں جو مدتوں اس کے عملی حل کے خواب دیکھتے ہو ءے شب و روز دکھاءی دیتے ہیں ۔ بقول شا عر خدا نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جسے نہ ہو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ، بین الا قوامی تنا ظر میں دیکھا جا ءے تو اس بات میں کسی حدتک صداقت ہوسکتی ہے کہ امریکہ اور دوسری معاشی قوتیں محضاپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خا طر اس مسءلہ کشمیر کو طویل سے طویل بنا نے میں اپنی تمام تر منفی صلاحیتیں بروءے کا ر لا نے میں مبتلا ہیں امریکہ بہا در اوریو رپین ممالک اپنے اسلحہ کی فیکٹریاں اور کارخا نے چلانے کے لیے کشمیر میں ظلم و تشدد عسکریت اور انتہاپسندی کو فروغ دینے میں ملوثہیں اور اسی طرح سے امریکہ بھارت کو مضبوط اس لیے بنانا چا ہتا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوءی مضبوط معشیت اور قوت اسےایک آنکھ نہیں بہاتی ہے۔
اور اسی طرح چین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ قرابت اور دوستی کا اسی لیے خواہاں ہے کہ اسے بھارت کو قابو میں لانا ہے دانشور یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا جب سے ترقی کی منازلطے کرنے لگی ہے تو اسی دن سے گلوبل ویلیج کے قیام کے بعد طاقت کے عدم تعاون کی وجوہات کی بناء پر بھیخاصی خرابیاں رونما ہورہی ہیں بین الاقوامی سطح پر ہیجنگل کا قانون نافذ کیا جا رہا ہے طا قت ور طاقت کےنشے میں ڈوب کر کمزور کو نقصان پہنچا نے میں مبتلاء جبکہ کمزور دن بدن پستی اور تنزلی کی طرف بڑھتا ہوادکھاءی دیتا ہے۔ مختلف بین الا قوامی قوتوں کی خفیہ سرگرمیوں اور باطنی منفی سا زشوں کے تحت ہر قدم پرافرا تفری اور بد امنی کی فضاء قاءم ہوتی دکھاءی دیتی ہے وہ سریا ، شام ، عراق ، افغانسان اور دیگر ممالک ہوں انہی سازشوں کا ایک بڑا حصہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی میں حاءل دکھاءی دیتا ہے تحریک اذادی کشمیر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا نے والی قوت خود کشمیری قوم اور انکی متزلزل سوچ ، افکا ر اور نظریا ت ہیں ۔ ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جا ءے تو مذہب ،قومیت ، وطن ، ثقافت اور روایات کے زیر اثر اس ریاستکو کبھی تو بھارت نے اپنے اٹوٹ انگ کا نام دیا تو کبھی پاکستان نے اپنی شہ رگ سے تعبیر کیا لیکن درحقیقت یہ ریاست نہ تو پاکستان کا حصہ دکھاءی دی اور نہ ہی کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ عملی سطح پر وہاںپر بسنے والے حقیقی کشمیری ازل سے لیکر ابد تک محرومی و مجبوری ، مایوسی اور ظلم و جبر کی چکی میںپستے ہو ءے دکھاءی دیتے ہیں اور اسی طرح حقیقت کے آءینہ میں جھانک کر دیکھا جا ءے تو یہ دو ممالک جو جمہو ریت اور انسانیت کے مضبوط دعویدار ہیں یہ مسءلہ کشمیر ان کے درمیانایک فساد کی جڑ دکھاءی دے رہا ہے۔
فتح و کامرانی کسے نصیب ہو لیکن کمشیری مفلسی اور درد کی ایک عملی تصویر بنے ہو ءے ہیں ۔ جو لو گ چند مفادات چا ہے وہ ذاتی ہوں یا سیاسی کے پیش نظر منظر عام پرنہ دکھاءی دینے والی قوتوں کے کہے سنے پر چلتے ہوءےکبھی الحاق کے نعرے لگاتے رہے توکبھی خود مختاری کےان کی متضار اور مخالف سوچ نے نہ صرف اس مسءلہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا بلکہ کشمیری قوم کو بھی بین الاقوامی سطح پر ان کے ملک کی طرح انہیں بھی متنازعہ بنا کر چحوڑ دیا ہر کوءی ان کے ساتھ بیرون خانہ اپنے مفادات اور پسند نہ پسند کے باعث اظہاریکجہتی کرتا ہوادکھاءی تو دیتا ہے لیکن پرخلوص کوءی نہیں کیونکہ ہر ایک اس بات سے باخبر ہے کہ ہر کشمیری خود بھی وہ چا ہے جموں و کشمیر میں ہو یابیرونی دنیا میں پرخلوص ہے اور نہ ہی پر امید ،محض خانہ پوری کےلیے اقوام متحدہ ، جنیوا ، امریکہ برطانیہ ، او آءی سی اور ہر پلیٹ فارم پر ایک مدہماور باریک سی نا پید آواز اٹھا دی جاتی ہے جس کا نہ تو کوءی تاحال حاصل ہے اور نہ ہی کوءی فاءدہ بلکہ دوسری چند قوتوں کے کہے پر کشمیری قوم کو مختلفنظریات ، خیالات اور احساسات فروخت کرنے والے آج کی اس با عمل اور ترقی یافتہ دنیا میں شرمندہ و شرمساردکھاءی دیتے ہیں ۔ کیونکہ آج کے باخبر اور با ہوش و حواس دور کے انسان نے انہیں جانچ لیا ہے۔
ان کی طویل بے حاصل تگ ودو اور جستجو کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے آج الحاق کی بات کرنے والا ہو یا تقسیم در تقسیم فارمولے پیش کرنے والا ہر کوءی نءی دنیا اور نسل نو کے سامنے شرمندہ و ناکام دکھاءی دیتا ہے کیونکہ وہ جس سوچ اور تخیلات کو کسی کے کہنے پر تشہیر کرنے میں لگا ہوا تھا ایک مخصوص آرام اور مزے کے لیے اسکی اصلیت نءے دور کے کشمیری کے سامنے کھل کر آگءی ہےنادم ہے وہ سوچ اور نظریات جن کا آج دنیا کی نظر میںنام محض منافقت اور بددیانتی ہے آج پڑھے لکھے معا شرے اور سوجھ بوجھ کے حامل معاشرے میں بسنے والاکوءی بھی شخص اس کا ساتھ دینے یا اس کے درد کا احساسکرنے کے لیے ہر گز تیا ر نہ ہے ۔مسءلہ کشمیر کاپرامنحل اور نقطہ اتحاد آج کے اس کامیاب و کامران معاشرےمیں یہی ایک ہے کہ کشمیری قوم اپنے قوت بازو پر انحصار کرنا شروع کردے اور دوسروں کی سوچ اور نظریات کو پروان چڑھانا اور ان پر لاءحہ عمل اختیا ر کرنا چحوڑ دیں ، چھوڑ دیں وہ نظریہ وہ جنوں ، اور وہ طریقہ جس نے ان کو مایوسی اور محرومی کے علاوہ کچھنہیں دیا ہے بلکہ ان کی مسلسل بربادی و تباہی اور پستی و تنزلی کا باعث بنا ہوا ہے جن نظریا ت نے انہیں پوری دنیا کے سامنے شرمندہ و نادم رکھ چھوڑاہے اور ایک تماشا اور منفی اکاءی بنے بیٹھے ہیں جسطرح ایک حقیقی قوم اور معاشرے کی صورت سکاٹ لینڈ کےبسنے والے عوام نے ریفرنڈم کا پر امن اور با وقار راستہ اپنایا اور اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اپنی امنگوں اور خواہشات کو عملی جامہ پہنایا اسی طرحسے کشمیری قوم بھی خود داری اور خود انحصاری کا ثبوتدیتے ہو ءے تمام وقتی اور کمزور نظریات اور فارمولوں کو پس پشت ڈال کر محض ایک ریفرنڈم کے نام پر متحد ومتفق ہوجاءیں کیونکہ اسی میں انکی کامیابی و کامرانی اور مفادات کا حتمی حل مضمر ہے۔
اگر سکاٹ لینڈ کی عوام بھی کشمیری سیاستدانوں کی طرح دوسروں پر انحصارکرتے ہو ءے کوءی بھی خرابی کا راستہ اختیار کرتے توآج شرمندگی کی ایک تصویر دکھاءی دیتے ان کے پاسکھلے آپشن موجود تھے وہ بھی یورپین یونین یا کسی اورکے ساتھ الحاق اور وابستگی کا ارادہ شو کرسکتے تھے انکی خواہشات میں بھی خود مختار ریاست کا جذبہ بیدار تھا لیکن ایک زندہ قوم اور مہذب معاشرے کا فرد ہونےکے ناطے انہوں نے پر امن اور پر وقار طریقہ سے محضریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا کیوں کہ پہلی بنیا د استصواب راءے اور اپنی خواہشات کے اظہا ر کا طریقہ اور اصول یہی تھا پھر وہ کامیاب ریفرنڈم کے بعد اگر نتاءج موجودہ حالات کے برعکس ہوتے تو کوءیاور فیصلہ اور راستہ اختیا ر کرنے پر مجبور ہوتے لیکن ان کی خواہشات کا احترام بھی ہوا اور انہیں آزادی اظہار کا موقع بھی میسر آیا اور جس میں وہ سرخروہی کے بعدآج بھی ایک مضبوط اور مو ءثر زندگیگزار رہے ہیں ہمیں ماضی سے سیکھنے کی عادت نہیں توکم از حال کو ہی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تاکہ دل میں موجود ہر حسرت اور خواہش کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اگر تو ہم واقع میں ہی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ مخلص اور اپنے اشرف المخلوق ہونے کے معترف ہیں تو پحر ہمیں وہی راستہ اور نظریہ اپنانا ہوگا جس پرکسی قوم کسی معاشرے کو کوءی اعتراز نہیں ہوگا ہر کوءی بلا تفریق ہما ری مدد و معاونت کرنے پر رضا منداور قاءم دکھاءی دے گا۔
جب تک پو ری کشمیری قوم خودself determination اور ریفرنڈم کے لیے تیا ر نہیںکرے گی ایک اس ایک نقطہ اتحاد کو نہیں اپناءے گیذلالت و شرمندگی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ہمارا مقدر بنی رہے گی جس طرح عظیم برطانیہ نے بڑا بھاءی ہونے کے ناطے سکاٹ لینڈ کی عوام کو ریفرنڈم کا حق دیا اور انکی فطری آزادی اور احساسات کا احترام کیا اسی طرحبھارت اور پاکستان کو اور کچھ نہیں تو محض بڑا بھاءیہونے کے ناطے ہی کشمیری کو قوم کو حق خودارادیت کا فطری موقع مہیا کرنا چا ہیے تاکہ یہ گھمبیر ترین مسءلہ جس کی آڑ میں بہت سے ممالک ایشیای کو تباہ وبربادی کے منہ میں دھکیلنے اور تاریکیوں میں رکھنےکے ناپاک منصوبے بناتے رہتے ہیں ہر کوءی اپنی ناپاکجسارت پر ناکام اور نادم ہوجاءے اور اس ایک نقطہ اتحاد کو کشمیری قوم کو اپنا نے کا فاءدہ یہ بھی ہوگاکہ ہر کوءی چا ہے وہ انکا دشمن ہو یا دوست انکیبات کم از کم سننے کا حوصلہ رکھے گا اور انکی خواہشات کا احترام بین الاقوامی سطح پر ہونے لگے گاتمام مہذب معاشرے انسانیت اور انسانی حقوق کا پرچارکرنےوا لے افراد انکا ساتھ دینے لگیں گے اور انکیآزادی و خود مختتاری کا دیرینہ نامکمل خواب آخر شرمندہ تعبیر ہوہی جاءے گا۔انشاء اللہ
تحریر: عرفان طاہر