تحریر : شاہد شکیل
غلامی کسی وڈیرے ،ساہوکار،جاگیردار ،زمین دار یا بااثر افراد کی ہی نہیں بلکہ خواہشات اور نفس پر قابو نہ پانے کی صورت میں مادہ پرستی ،مثلاً مال ودو لت،شہرت وغیرہ کے حصول کیلئے ہر غیر قانونی و ناجائز حربہ استعمال کرنے سے انسانوں کو غلام بنایا جا سکتا ہے،آج کے دور میں آزادی کے نام پر دنیا بھر میں لوگ غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،کوئی بیوی کا غلام کوئی مالک کا غلام کوئی سیاسی لیڈر کا غلام کوئی مال ودولت کا غلام کوئی نفس کا غلام کوئی جھوٹی شان و شوکت کا غلام اور کوئی خواہشات کا غلام ،بظاہر ساری دنیا آزاد ہے لیکن کہیں نہ کہیں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔وطن عزیز انگریزوں سے آزاد تو ہو گیا لیکن آج بھی غلامی کی بیڑیاں پہنے ہوئے ہے اور یہ بیڑیاں انگریزو ں نے نہیں بلکہ خواہشات کے غلاموں اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے کئی دہائیوں سے عوام کے پیروں میں نہیں بلکہ سانسوں کی لڑیوں میں باندھ دی ہیں ،ملکی آزادی کے نام پر غلامی کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے کہ ایک آزاد قوم غلامی کے کیچڑ میں گردن تک دھنس چکی ہے،قوم خوش ہے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں۔
لیکن صرف ایک ہی دن ،چودہ اگست ۔پندرہ اگست کا سورج طلوع ہوتے ہی پھر غلام،یہ غلامی نہیں تو اور کیا ہے غربت کے گہرے سمندر میں ڈوبی عوام پانی کی بوند بوند کو ترس گئی ،سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں جہاں آنے والے دس سالوں میں چند انچ کا سمارٹ فون دنیا کی شکل بدل دے گا وہیں وطن عزیز میں طالب علم ہزاروں سال پرانے طریقے سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے موم بتی اور دیئے جلا رہے ہیں یا سڑکوں پر سٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑھتے ہیں، توانائی ، صحت ،زراعت،کنسٹرکشن، ٹرانسپورٹ ، تحفظ، حقوق، انصاف اور دیگر عام معاملات میں سہولت پیدا کرنے کی بجائے مزید تنگی اور سختی کر دی گئی ہے ،ایسے میں اگر کوئی اس نام نہاد آزادی کا غلام جرم نہیں کرے گا تو کیا پروفیسر بنے گا۔دیارِ غیر میں کئی عشروں سے مقیم پاکستانی میڈیا پر نیوز دیکھتے ہیں تو پریشان ہونے کے علاوہ شدید الجھن میں مبتلا ہو کر کبھی ہم وطنوں سے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہیں یا تنہائی میسر ہو تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ پچاس سال قبل جب روزی کمانے کی غرض سے پردیس جانے کی ٹھانی اسوقت تو ایسی حالت نہیں تھی۔
یا چالیس سال ،تیس سال ،بیس سال اور حتیٰ کہ دس سال پہلے بھی جرائم کی بھرمار اور لاقانونیت نہیں تھی جتنی آج ہے اور روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب موسم گرما میں لوگ بے خوف وخطر اپنے گھروں کی چھتوں ،صحن کے علاوہ گلی کوچوں میں بھی چارپائی ڈال کر سویا کرتے تھے تب بھی یہی پاکستان تھا اور آج بھی وہی پاکستان ہے کہ انتہائی طاقتور قفل لگانے کے باوجود چور، ڈاکو اور لٹیرے گھروں میں گھس کر بے گناہوں کو بے دردی سے قتل بھی کرتے ہیں اور ڈکیتی بھی۔ چالیس پچاس سال قبل ہر محلے گلی کوچے میں ایک واچ مین چوکیدار ہوا کرتا جو ماہانہ سو دو سو روپیہ لے کر ساری رات جاگتا اور جاگتے رہو کا نعرہ لگاتا ، آج سیکیورٹی گارڈ جدید اسلحہ سے لیس بارونق شہروں اور گلی کوچوں میں دن رات گشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی چوری ہوتی ہے قتل ہوتے ہیں دن دیہاڑے عورتوں اور بچوں کو اغواء کیا جاتا ہے۔
یہ سب دیکھ سن کر اکثر لوگ سوچتے ہیں کیا ملک میں جنگ جاری ہے لیکن کس سے جنگ ہو رہی ہے بھارت سے، اسرائیل سے ،امریکا سے ،کس سے؟۔انسانی سوچ لامحدود ہے اس لئے یہ بھی لوگ سوچتے ہیں کہ جنہیں ہم اپنا دشمن کہتے ہیں ان سے جنگ نہیں ہو رہی تو کون ہمارا دشمن ہے ؟باہر والا دشمن نہیں تو آخر ہمارا دشمن ہے کون؟ اگر ملک میں خوشحالی کا دورہو،تعلیم عام ہو ،روزگار ہو، صحت کا نظام ہو،انسانی حقوق ہوں،سیکیورٹی ادارے یعنی پولیس ،پولیس ہو اور اپنے ہم وطن کو انسان سمجھے ، قوانین کا احترام ہو ،عزت محفوظ ہو ، انصاف ہو ، تو کوئی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ،اگر یہ تمام بنیادی چیزیں کسی بھی ریاست میں ناپید ہوں تو ایک خواب لگتا ہے کہ ایک ریاست مکمل ریاست ہو۔الیکٹرونک میڈیا پر کیچڑ اچھالنا عقلمندی نہیں کیونکہ آج کل جو وارداتیں ہو رہی ہیں یہی کرائمز پچاس سال پہلے بھی تھے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت اخبارات کے چند رپورٹرز بڑے شہروں میں رپورٹنگ کرتے تھے اور زیادہ تر پولیس تھانے یا کچہریوں سے جرائم پر مبنی مواد اکٹھا کرتے اور شام تک اخبار کے دفتر پہنچا دیا کرتے اور دوسرے دن اخبار کے کسی کونے میں خبر شائع ہو جاتی۔
جبکہ آج کسی رپورٹر کو کہیں آنے جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی موبائل فونز پر گھر بیٹھے بٹھائے جھوٹ اور سچ کے پلندے ناشتے کی ٹیبل پر خود بخود پہنچ جاتے ہیں ،آج کی طرح ماضی میں بھی لوگ اپنی عزت کی خاطر منہ کو بند رکھتے تھے ، ایک تو ملکی آبادی کم تھی اور دوسرا صلح صفائی سے معاملات حل کر لئے جاتے جبکہ آج الیکٹرونک میڈیا شہروں دیہاتوں کے علاوہ پنڈ نمبر فلاں اور چَک نمبر فلاں کے ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں چوہا بھی مر جائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے تو ایسے شرمناک واقعات و معالات مثلاً اسلام آباد میں قحبہ خانہ یا گزشتہ دنوں معصوم بچوں کا ریپ اور ویڈیوز سکینڈل تو کسی سے پوشیدہ رہ نہیں سکتا ۔سوال یہ ہے کہ میڈیا اپنا فرض ذمہ داری سے نبھا رہا ہے یا عوام کو مزید بگاڑنے کی سازش ہو رہی ہے۔
جب میڈیا نہیں تھا تو تمام جرائم پیشہ افراد چھپ کر جرم کرتے تھے اور گرفتاریاں بھی ہوتیں، آج میڈیا کا نمائندہ ملک کے کونے کونے میں ہے جرائم بھی ہوتے ہیں میڈیا لائیو کوریج بھی کرتا ہے مجرم گرفتار بھی ہوتے ہیں لیکن چند گھنٹوں ،دنوں اور ہفتوں میں سب کے سامنے بری ہو جاتے ہیں ۔ جیسے تاریخ کے اوراق میں تبدیلی نہیں لا ئی جاسکتی ایسے ہی مذاہب میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں کیا جا سکتا لیکن سیاست ، جرائم ،تعلیم ،صحت اور بالخصوص انسانی حقوق میں جب تک دنیا قائم ہے خوب سے خوب تر اور ترقی کرنے کے ہزاروں آپشن موجود ہیں ،چونکہ میرا سبجیکٹ ہسٹری ،مذاہب اور سیاست یا جرائم نہیں ہے اس لئے کبھی ان حساس موضوعات پر تحریر کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن حساس موضوع پر تحریر نہ کرنا بے حسی ہے۔
پاکستان میں سیاست دانوں نے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں کہ نوے فیصد افراد اپنی موجودہ زندگی سے بیزار ہونے سے جرائم یا کرپشن کی طرف راغب ہو چکے ہیں، دنیا ترقی کر رہی ہے لیکن کس کام میں ؟ مذاہب کے نام پر مسلمانوں کو بانٹنے میں ؟ سیاست کے نام پر عوام کو لوٹنے میں؟ انٹر ٹینمنٹ کے نام پر انتشار پھیلانے میں؟معصوم بچوں کا ریپ کرنے اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر دکھانے میں ؟۔دنیا ان بے ہودہ اور گھناؤنے اعمال سے ترقی نہیں کر رہی بلکہ انسانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے کوشاں ہے جبکہ وطنِ عزیز کو ایک اسلامی ریاست ،نیو کلیئر پاورز ،تعلیم یافتہ افراد ،قدرتی معدنیات کے خزانے ہونے کے باوجود جمہوری مسافروں نے بھکاری ملک بنا دیا ہے۔آزادی کا جشن منانے کا حق ہر قوم کو ہوتا ہے لیکن دیکھا یا سنا تو یہ ہے کہ جن ریاستوں میں عوام اوپر تحریر کردہ سہولیات سے مستفید ہوں ،سکون ہو، انسانی حقوق ہوں۔
قانون اور انصاف ہو وہ قوم بڑے طمطراق سے جشن مناتی ہے ،ہر آزاد قوم کا حق ہے کہ وہ آزادی کا جشن منائے ہمارے ملک میں سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہم آزاد بھی ہیں غلام بھی ، ہم بھی آزادی کا جشن منائیں گے، اور کچھ منائیں یا نہ منائیں جشن تو منا سکتے ہیں۔ کالم کے اختتام پر چند رائیٹر حضرات سے گزارش ہے کہ محض سنی سنائی باتوں یا میڈیا کی ہر سچی جھوٹی خبر پر اکتفا کرنے کی بجائے حقائق کو پیش نظر رکھ کر تحریر فرمائیں ۔مثلاً ایک صاحب نے تحریر کیا کہ وہ ایک شام یورپ کے کسی شہر میں سیر تفریح کر رہے تھے اور ہر گلی کونے اور نکڑ پر نوجوان طبقہ بوس وکنار میں مشغول تھا اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
ایک صاحب نے تحریر کیا مغربی ممالک کی ماؤں کو علم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کے کتنے باپ ہیں ،تحریر کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ آپ لاکھوں مسلمان ماؤں کی بھی توہین کر رہے ہیں جو مغرب میں کئی سالوں سے مقیم ہیں بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی تحریر کرنے سے کوئی مہان رائیٹر نہیں بن سکتا۔ایک معروف رائیٹر کا کہنا ہے للو پنجو لکھاریوں کو اردو بولنی نہیں آتی تو لکھیں گے کیااور اردو زبان کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔ریاست میں کچھ ہو نہ ہو کم سے کم آزادی تو ہے؟۔
تحریر : شاہد شکیل