تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بھارت کے شہر گڑ گائوں میں پردیپ سنگھ کا ڈرائنگ روم پر دیپ سنگھ کی آہوں اور سسکیوں سے ماتم کدہ بنا ہوا تھا، وہ جو کبھی جوانی میں طاقت ا اختیار کا آہنی مجسمہ تھا اب ندامت پچھتاوے اور شرمندگی کی وجہ سے زاروقطار رو رہا تھا، ایک طرف ندامت کا سمندر تھا جس میں بوڑھا پردیپ سنگھ غرق تھا اُس کی آنکھوں سے اشک ندامت کا سیلاب جاری تھا، قیام پاکستان کے وقت چشم فلک نے تاریخ کے ہولنک ترین مناظر دیکھے جب ظالموں نے انسانی حدود سے نکل کر درندگی وحشت اور سفاکی کے وہ بدترین مظاہرے کئے کہ انسانیت نے اپنا منہ چھپا لیا۔
نفرت درندگی وحشت ظلم اور غصے کے سیلاب نے لاکھوں لوگوں کے چراغ گل کردیے جبر تشدد ظلم و بربریت کی داستان کے جو باب ادھورے تھے وہ تاریخ کے سینے پر ثبت کر دیے گئے۔ایسے ایسے درد ناک مناظر تھے کہ ایک لمحے کے لیے ظلم کے بانی بھی لرز اُٹھے، ظلم و بربریت کا ایسا ہولناک باب تاریخ کے سینے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہوا کہ تاریخ اپنے دامن پر قیامت تک کے لیے شرمندہ ہوگئی، ظالموں نے نوجوان بوڑھوں عورتوں نوجوان لڑکیوں اور معصوم بچوں پر ایسے ایسے شرم ناک حملے اور ظالم کئے لاکھوں لوگوں کو شہید کردیا گیا اور نوجوان لڑکیوں کو زندہ اٹھا لیا گیا، ظلم کی ایسی اندوہناک داستان پوری دنیا کے دریائوں اور سمندروں کا پانی بھی قیامت تک اِس ظلم کی سیاھی کو نہیں دھوسکتا، پردیپ سنگھ کی آواز کیا تھی ایک چیخ تھی جس سے ہماری سماعتوں میں گہرے شگاف پڑ گئے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے نبض کائنات تھم سی گئی ہو ساعتیں ناگوار اور لمحات بوجھل تھے نامعلوم سی ادا سی عجیب سی سوگواری۔ ہم خاموش سنگی مجسموں کی طرح ساکت تھے پردیپ سنگھ کے الفاظ کیا تھے ایک زلزلہ تھا جس نے دل کو زیروز بر کر دیا تھا۔
بوڑھا سکھ کافی رونے کے بعد مخاطب ہوا آپ یقینًا یہ سوچ رہے ہونگے کہ میں اتنا زیادہ شرمندہ اور پچھتا کیوں رہا ہوں، مجھے اپنے خاندان اور بڑوں کی قتل و غارت کا اتنا زیادہ پچھتاوا کیوں ہے’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں نے آنے والے سکھوں کا قتل تمام اور لوٹ مار شروع کر رکھی ہے، یہ میرا کزن دلاور سنگھ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ راولپنڈی کے واپس رہتا تھا ہمیں یہ بتایا گیا کہ اِن کو لوٹ مار کے بعد قتل کردیا گیا ہے، جب کہ ایسا نہیں تھا دلاور سنگھ اور اِس کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا یہ آپ کو خود دلاور سنگھ بتاتا ہے۔اب دلاور سنگھ نے بولنا شروع کیا کہ میں پانچ سال کا تھا ‘میرا بھائی 8 سال کا اور اُس سے بڑی بہنیں15 اور 16 سال کی تھیں، اب جب پاکستان بن گیاتو لاکھوں لوگوں کی طرح ہم بھی بہت پریشان ہوئے کہ کس طرح اپنا کاروبار اور مکان جائیداد چھوڑ کر ہندوستان جائیں یہ افواہیں بھی آرہی تھیں کہ ہندستان جانے والوں کا قتل عام کیا جارہاہے اور روپیہ پیسہ بھی لوٹ لیا جاتا ہے۔
طرح طرح کی خوفناک اور دل کو ہلا دینے والی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں اب جب ہم نے ہندستان آنے کا ارادہ کیا تو ہمارے پڑوس میں رہنے والے خاندان کے سربراہ حاجی کریم صاحب نے پہلے اپنے گھر میں پناہ دی کہ حالات بہتر ہوں تو ہم بھارت کا سفر شروع کر سکیں، جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو حاجی کریم صاحب نے کہا کہ ابھی بھی راستے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے اِس لیے حاجی کریم صاحب اور اُن کے دو نوجوان بھائی ہمارے ساتھ ہماری حفاظت کے لیے چل پڑے۔میرے والد صاحب نے بہت کہاکہ ہم چلے جائیںگے لیکن حاجی صاحب نہیں مانے کہ آپ کے ساتھ تین خواتین بھی ہیں اِس لیے خطرہ زیادہ ہے، لہٰذا حاجی صاحب ہمارے ساتھ بارڈر تک آئے سارا رستہ ہمارا خیال رکھا’ راستے میںکھانے پینے کا خصوصی خیال رکھا’ میری ماں اور بہنوں کو اپنی بہن اور بیٹیاں کہہ کر پکارتے رہے آخر کار ایک لمبے سفر کے بعد جب ہم بارڈر پر آکر اپنے لوگوں سے ملے جو یہ سمجھ چکے تھے کہ ہم کو لوٹ مار کے بعد قتل کر دیا گیا ہے اور ہماری عورتوں کو اٹھا لیا گیا لیکن جب ہم نے آکر اِن کو حاجی کریم صاحب کی جانثاری محبت اور ایثار قربانی کی غیر معمولی داستان سنائی تو ہمارے رشتہ داروں نے یہاں جو قتل و غارت شروع کر رکھی تھی فوری ختم کی اور اپنے عمل پر شرمندہ اور تائب بھی ہوئے۔
ہمارے یہاں کے خاندان والے اُس دن سے آج تک اپنے کئے پر شرمندہ ہیں کہ ہم نے خواہ مخواہ معصوم مہاجرین پر ظلم کیا، ہندو جو پہلے دن سے مکار اور عیار ہے اُس نے سکھوں کو اِس ظلم عظیم پر اکسایا لیکن اب سکھ یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ ساری کی ساری ہندوئوں کی سازش تھی، میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ جتنا عرصہ بھی زندہ رہے روزانہ حاجی کریم کے لیے دعا کرتے رہے جب بھی کوئی پاکستان سے آتا تو حاجی کریم صاحب اور اس کے خاندان کو یاد کر تے، اُن کے لیے تحائف بھی بھیجتے یہاں آکر جب میری ماں کو پتہ چلا کہ مسلمانوں پر قیامت سے پہلے قیامت نازل ہو گئی تھی، میرے ماں باپ اِس ظلم کا مداوہ کرنا چاہتے تھے آخر انہیںاِس کا موقع مل گیا ہندوستان سے جو لاکھوں آزادی کے مسافر پاکستان کے لیے چلے اُن میں سے لاکھوں کو شہید کر دیا گیا اور نوجوان لڑکیوں کو اُٹھا لیا گیا۔اِسی قتل و غارت کے دوران ہمارے گائوں میں ایک پانچ سالہ مسلمان لڑکی بھی ملی جس کا پورا خاندان آزادی کی بھینٹ چڑگیا اِس کا خاندان بھی اُن لاکھوں شہیدوں میں سے ایک تھاجن کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔
میرے ماں باپ نے فوری یہ فیصلہ کیا کہ اِس مسلمان بچی کو وہ پورے احترام کے ساتھ اُس کے مذہب پر پالیںگے، لہذا اُس بچی کو جس کا نام جنت بی بی رکھا گیا میرے ماں باپ گھر لے آئے پہلے تو پتہ کرایا کہ اِس کا کوئی مل جائے لیکن یہی پتہ چلاکہ یہ آزادی کے کاروان کی واحد بچی ہے جو بچ گئی باقی تمام آزادی کے پروانے شمع پاکستان پر قربان ہو گئے۔لہٰذا اب یہ فیصلہ ہوا کہ آج سے یہ ہماری بچی ہے میرے ماں باپ نے اپنی اولاد سے بڑھ کر جنت بی بی کو پالا اور اہم بات اِس کو مسلمان مدرسے میں مسلمانوں کی تعلیم دلائی اور جوان ہونے پر مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر دی، میرے ماں باپ جتنا عرصہ زندہ رہے جنت بی بی اُن کے دل کا ٹکڑا رہی اور آج جنت بی بی ہم سب کی جان مان اور عزت ہے ، جب بھی کوئی پاکستان سے آتا ہے تو وہ بھی اُن سے ملنے آتی ہے اور آج بھی میری بہن میری جان یہاں آئی ہوئی ہے اِس کے ساتھ ہی دلاور سنگھ نے آواز دی جنت بی بی کو اندر لائواِس کے ساتھ ہی نور کی پوٹلی ساٹھ سال سے زیادہ باوقار عورت داخل ہوئی جو بوڑھی ہو چکی تھی آکر بیٹھ گئی، ہم خوشگوار حیرت کے سمندر میں غرق تھے دلاور سنگھ اٹھا اور جنت بی بی کے پائوں چھوئے وہ بتا رہا تھا کہ جنت بی بی ہمارے خاندان کی جان ہے اِس کے 4 بچے ہیں جو اب جوان ہیں جنت بی بی کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا وہ بولے جارہا تھا اور میں فرشتہ صفت جنت بی بی آزادی کی اُس عظیم مجاہدہ کو دیکھ رہا تھا جس کا سارا خاندان پاکستان پر قربان ہو گیا۔اُس کے چہرے پر سیرت و کردار اور ایمان کی آگ روشن تھی اور ہونٹوں پر ملکوتی تبسم نمایاں تھا، جب وہ بولیں تو ہماری سماعتوں میں شہد و شبنم کی لہریں اُتر نے لگیں دونوں بوڑھے سکھ جنت بی بی کے سامنے غلاموں کی طرح احسان شناسی کے پیکر نظر آرہے تھے۔
جنت بی بی کے منہ سے لفظ نہیں ریشم کے تار نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ‘چاندنی جیسی نرم میٹھی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر رقصاں تھیں، جب وہ بولیں تو لہجے میں صوفیانہ مٹھاس اور بڑھ جاتی اُس کے لہجے اور آنکھوں میں مریم کی پوترتا تھی، میں سوچ رہا تھا کہ آج کل پاکستان کی نوجوان نسل جو وضو اور طہارت سے نا بلد یہ کیا جانیں آزادی کے اِن عظیم لوگوں کو جن کی لازوال قربانیوں کے طفیل ہم پاکستان میں آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔فرط عقیدت سے میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں میں اٹھا اور جنت بی بی کے قدموں میں بیٹھ گیا اور جنت بی بی کا ہاتھااپنے سر پر رکھ لیا جنت بی بی کے ہاتھ رکھتے ہی میرے بدن میںایمان و سرور کی لہریں دوڑنے لگیں میں نے روتے ہوئے کہا میرے لیے دعا کریں تو اُن کے ہونٹوں سے دعائوں کے پھول جھڑنے لگے جن کی خوشبو سے میری روح معطر ہوگئی۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956