تحریر: محمد ذوالفقار
گاندھی نے کہا تھا ہندوستان ایک گائوماتا کی مانند ہے جس کے کبھی ٹکڑے نہیں کیے جا سکتے۔ جسکے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت میں ایک تیسری بڑی طاقت موجود ہے جو کسی بھی اعتبار سے ہندئووں سے مماثلت نہیں رکھتی۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہمارا تہذیب و تمدن، مذہب ہر چیز ہندئووں سے مختلف ہے یہاں تک کہ ہندئو گاے کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان اس کے گلے پر چھری چلاتے ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ اس وقت دو قومی نظرئیے کو بہت زیادہ تقویت ملی جس کی واضح مثال1946 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کا واضح اکثریت سے تمام مسلم اکثریتی علاقوں سے جیت جانا تھا ۔ گو کہ تحریک آزادی کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے جو کہ کسی ایک مضمون میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔طویل جدوجہد کے بعد آخر کا ر14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کا سورج طلوع ہوا جس کے ساتھ ہی وطن عزیز کو بہت سارے مسائل وراثت میں ملے ۔ یہ کہنا غلط ناہوگا کہ یہ تمام تر مسائل غیر منصفانہ تقسیم ہند کا شاخسانہ تھے جس کی واضع مثال کشمیر کو ڈوگرا راجا کے ہاتھوں ستر لاکھ میں فروخت کرنا اور مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنا ہے۔
جب بھارت نے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کیا اور اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف ڈوگل گریسی DouglasGracey کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں بھارتی تسلط ختم کر نے کے لیے اپنی فوج بھیجیں جس پر ڈوگل گریسی نے حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔اور دلیل یہ دی کہ آپ گورنر جنرل کی حیثیت سے پاکستانی فوج کشمیر میں بھیجنے کا حکم نہیں دے سکتے اور یہی نہیں اس وقت کے ایئر وائس مارشل رچرڈ ایچرلی ((Richard Atcherly اور نیول چیف جیمز وائلفرڈ جیفرڈ نے بھی ڈوگل گریسی کی پیروی کرتے ہوے قائداعظم محمد علی جناح کا حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوںکہ یہ وطن دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اس لیے چاہیئے تو یہ تھا کہ تمام مسلمان مسلم لیگ کا ساتھ دیتے مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا یہی وجہ تھی کہ اس وقت بہت سارے مسلمانوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کر دی۔
جن میں عبد الغفار خان جو کہ کانگرس کے صدر تھے سر فہرست ہیں۔ اسی طرح بہت سارے ملائوں نے بھی موجودہ پاکستان کی مخالفت کی جس کی وجہ سے کافی حد تک دو قومی نظریہ اسی وقت دم توڑ گیا تھا جب تقسیم ہند ہوئی اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسلمانوں کی کثیر تعداد ہندوستان میں آباد ہے ۔ اور پھر اسی دو قومی نظرئے کی رہی سہی کسر پوری ہو گئی جب 1971 کی جنگ میں ایک سازش کے تحت پاکستان دو لخت ہوا ۔ اور ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جس کلمہ کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا اسی کو پسِ پشت ڈال کر جب قانون بنانے کی باری آئی تو انگریز کا بنا ہوا قانون1935 ایکٹ ہی نافذ کر دیا گیا حالانکہ مسلمانوں کا آیئن آج سے تقریباََ 14 سو سال پہلے ہی بن چکا تھا۔ جو قرآن وسنت کی صورت میں آج بھی موجود ہے اور قیامت تک رہے گا۔
نظریات اچھے ہوں یا برے، نظریا ت کی جنگ میں ہمیشہ عام آدمی کو ہی قربانی دینا پڑتی ہے اور یہی سب کچھ بٹوارے کے وقت ہوا تقریباََ ایک کروڑ مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان ہجرت کر کے آئے ۔ اس دوران ان کو جن شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ان کی شدت کو آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اور اگر بات مجھ جیسے طالب علم کی ہو تو میرئے لیئے ان حالات کو بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ کیونکہ آج بھی ان درد بھر ے حالات کو سوچ کر ہی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ عظیم قربانیوں کے بعد مملکت ِخداد کو حاصل کیا گیا اس مملکت ِخداد کو حاصل کرنے کا مقصد حقیقی آزادی کا حصول تھا ۔ ایسی آزادی جس میں ہم اپنے مذہبی ،سماجی ،سیاسی ،معاشی اور معاشرتی فرائض قانون کے دائرے میں رہتے ہوے سرانجام دے سکیں۔ آزادی تو مل گئی مگر بدقسمتی سے ہم آزاد نہ ہو سکے 1947 کے بعد سے ہی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس سے پہلے جب قائداعظم محمد علی جناح نے اردو زبان کو سرکاری زبان کادرجہ دیا تو مشرقی پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑااور اس اقدام کے خلاف بنگالی لیگ موومینٹ چلی ۔بعد ازاں 1956ء میں پاکستان قانون ساز اسمبلی نے اردو اور بنگالی زبان کو برابر درجہ دے دیا۔آزادی کے ان 68 سالوں میں پاکستان نے بہت سارے زخم کھائے ہیں جس میں چار مارشل لاء دو جنگیں اور1971ء میں پاکستان کا دو لخت ھونا اور کشمیر میں ہونے والے مظالم قابل ذکر ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم ایک قوم بننے میں ناکام رہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ ہمارے سیاسی پنڈت اور مذہبی پیشوا ہیں جو سیاست کے نام پر کاروبار کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر فرقہ واریت پھیلاتے ہیں جو مسجد اتحاد و یگانگت کا نمونہ سمجھی جاتی تھی چند نام نہاد ملا ں اپنی دوکان سمجھ بیٹھے ہیں جو نفرت کا سامان بیچ رہے ہیں جن ایوانوں میں قانون بنتے ہیں آج وہی ایوان قانون شکنی سکھا رہے ہیں۔جو ادارے ملک چلانے کے لیے بنائے گئے آج ملک انہیں چلا رہا ہے اور جب یہ سیاسی پنڈت ان اداروں کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں تو پھر ان کی نیلامی کر دیتے ہیں جس سے عوام کا بھلا ہو یا نہ ہو ان کی جیبیں ضرور بھر جاتی ہیں اسی طرح یہ وطن عزیز کو نوچتے رہتے ہیںاور پھر محب وطن ہونے کا ناٹک بھی کرتے ہیں جس انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی تھی آج بھی اس سامراج کی چوکھٹ ان کو اچھی لگتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی بڑے سیاستدان اور بیوروکریٹ ہیں ان سب کی جائدادیں اپنے حقیقی آقائوں کے پاس ہیں یہ اپنے ملک کو کاروبار کی طرح چلا رہے ہیں اور جب ان کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں تو یہ اپنے آقائووں کے پاس جا کر سیاسی پناہ لے لیتے ہیں اور ہم عوام ان کو اپنا مسیحا سمجھ کر بار بار لٹتے ہیں۔
کاش کہ ہم سمجھ سکیں کہ ہماری عزت ہمارے قومی پرچم کی سر بلندی میں ہے۔ دنیا میں ہمیشہ وہ قومیںکامیاب ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے ابائواجداد کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا اور مستقل مزاجی سے اپنے ملک و قوم کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔آج جن مسائل کا وطن عزیز کو سامنا ہے ان میں بدعنوانی، اقرباپروری، دھشگردی، ناانصافی اور فرقہ واریت قابل ذکر ہیں گو کہ کافی مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر نا کافی ہے اگرہم ان تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے تمام تر مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بحثیت ایک قوم سوچنا ہوگا اسی میں ہماری بقا ہے وگرنہ سامراج کی غلامی ہمارا مقدر ہو گی۔
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی، رکھتے نھیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ۔
تحریر: محمد ذوالفقار