اسلام آباد(ایس ایم حسنین) مسلمان ‘جمہوری اقدار’ کے چارٹر پر رضامندی اختیار کریں جو کہ فرانس میں انتہا پسند اسلام کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔یہ بات فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے فرانس کے مسلم رہنماؤں سے گفتگو میں کہی ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فرانسیسی صدر نے فرینچ کونسل آف مسلم فیتھ کو 15 دن کی مہلت دی کہ وہ اس عرصے میں وہ فرانس کے وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کیلئے کام کریں۔ فرانس کے صدر اور ان کے وزیر داخلہ گیرالڈ ڈارمانن نے رواں ہفتے سی ایف سی ایم کے آٹھ رہنماؤں سے ملاقات کی۔ فرانسیسی اخبار لے پیریرزین کے مطابق’دو رہنما اصول اس منشور میں سیاہ و سفید طور پر درج ہوں گے اور وہ ہیں کہ سیاسی اسلام اور بیرونی مداخلت قطعی نامنظور ہیں۔’ اس کے علاوہ فرانسیسی صدر نے مزید اقدامات کا اعلان کیا جس کے تحت وہ ملک میں ‘اسلام پسند علیحدگی’ کا مقابلہ کریں گے۔ ان اقدامات میں ایک ایسا بِل شامل ہے جو انتہا پسندی کے خلاف ہے اور اس میں درج ذیل قوانین ہیں۔ گھر پر پڑھانے پر پابندی اور ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں جو سرکاری ملازمین کو مذہبی بنیادوں پر ڈرائیں دھمکائیں۔ بچوں کو شناختی نمبر دینا جس کے تحت اس بات کی نگرانی کی جا سکی گی کہ وہ سکول جا رہے ہیں۔ جو والدین قانون کی خلاف ورزی کریں گے ان پر بھاری جرمانے لگائے جائیں گے اور چھ ماہ کی جیل بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی ذاتی معلومات کی ترسیل پر پابندی جو کسی شخص کی ذات کے لیے خطرہ بن سکتی ہو اور دشمن عناصر اس معلومات کو استعمال کر کے اس شخص کو نقصان پہنچا سکتے ہوں۔ وزیر داخلہ ڈارمانن نے کہا کہ ‘ہمیں اپنے بچوں کو سخت گیر اسلام پسندوں کے چنگل سے بچانا ہوگا۔’ یہ بل فرانسیسی کابینہ میں نو دسمبر کو پیش کیا جائے گا۔سی ایف سی ایم نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ نیشنل کونسل آف امام قائم کرے گی جو کہ ملک میں امام کے لیے باضابطہ اجازت نامے جاری کرے گی اور ان اجازت ناموں کو واپس بھی لے سکے گی۔ یہ فیصلے ملک میں گذشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے تین حملوں کے بعد سامنے آئے ہیں جن میں انتہا پسند اسلام کا پرچار کرنے والے افراد ملوث تھے۔اس چارٹر میں درج ہوگا کہ ‘اسلام ایک مذہب ہے، نہ کہ سیاسی تحریک’ اور فرانس میں مسلم گروہوں میں ‘بیرونی مداخلت’ پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔فرانسیسی صدر میکخواں نے حالیہ حملوں کے بعد فرانس کی روایتی سکیولرزم کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ رواں سال فرانس میں ایک سکول ٹیچر کا سر قلم کر دیا گیا تھا جنھوں نے پیغمبر اسلام پر بنے ہوئے متنازع خاکے اپنی کلاس میں دکھائے تھے۔
فرانسیسی استاد سیموئیل پیٹی کو گذشتہ ماہ ان کے سکول کے باہر قتل کر دیا گیا تھا اور اس سے قبل ان کے خلاف انٹرنیٹ پر مہم بھی چلائی گئی تھی۔اخبار لے مونڈ نے سیموئیل پیٹی اور ان کے ساتھی اساتذہ کے درمیان بھیجی گئی ای میلز بھی شائع کی جو پیٹی کی جانب سے کارٹون دکھائے جانے کے بعد بھیجی گئی تھیں۔ ان ای میلز میں پیٹی کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت پریشان کن بات ہے اور بالخصوص اس لیے کہ وہ ایک ایسے خاندان کی جانب سے آئی ہیں جن کا بچہ تو میری کلاس میں بھی نہیں تھا اور میں اس کو جانتا بھی نہیں ہوں۔ یہ بہت خطرناک افواہ بنتی جا رہی ہے۔’
واضح رہے کہ اسی سال فرانسیسی صدر نے اسلام کو ایسا مذہب قرار دیا تھا جو ‘بحران میں ہے’ اور ان جریدوں کا دفاع کیا تھا جو پیغمبرِ اسلام کے خاکے شائع کرتے ہیں۔ ان بیانات کے بعد فرانسیسی صدر کے خلاف مسلم اکثریتی ممالک میں شدید تنقید کی گئی تھی اور کئی ممالک میں مظاہرین نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانس میں ریاستی سیکولرزم (لئی ستے) ملکی شناخت کا مرکزی جزو ہے اور عوامی مقامات اور سکولوں میں آزادی اظہار رائے بھی اسی کا حصہ ہے۔ مغربی یورپی ممالک میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں رہتے ہیں