تحریر :۔ انجم صحرائی
وہ ایک نو عمر پٹھان لڑ کا تھا جو شا ئد سٹیشن کے مگربی سا ئد پر بنے ہو ٹلوں میں سے کسی ایک میں ٹیبل مینی کر تا تھا وہ بھی شا ید ہا تھ منہ دھونے مسجد آیا تھا وہ مجھے کو ئی خا ص تو جہ دئیے بغیر بو لا تم ایسا کرو سا منے سے فلاں گا ڑی پر بیٹھ جا ئو وہ تمہیں صدر لے جا ئے گا اور پھر ادھر سے تم کو آ رام با غ کا ویگن مل جا ئے گا میں نے اسے ایک بار زحمت دی اور پو چھا کہ صدر کو کو نسا سڑک جا تا ہے
اس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے اسے میر ی د ما غی حالت خا صی مشکوک لگی ہو اور وہ ایک طرف اشارہ کرتے ہو ئے بو لا وہ سڑک ہے جو صدر کو جا تا ہے اور میں کچھ مزید کہے اپنی منزل کی طرف چل پڑا کینٹ سٹیشن سے صدر اور صدر سے آرام باغ تک پہچتے مجھے تقریبا تین چار گھنٹے لگ گئے اس زما نے میں دہشت گردی کے لفظط سے ہم عوام نا آشنا تھے کراچی کی فضا ئیں خوف و دہشت کی پو لیشن سے آلو دہ نہیں ہو ئی تھیں اس لئے راوی چین ہی چین لکھتا تھا میں نے بھی کراچی کی انجا نی سڑ کوں پراپنے پیدل سفر کو خوب انجوائے کیا جب میں فریسکو چوک بندر روڈ کے نزدیک واقع آرام باغ مسجد پہنچا اس وقت کراچی کی مار کیٹوں میں دن کا ابھی پو ری طرح آ غاز نہیں ہوا تھا
کہتے ہیں کہ قدیم دور میں یہ علا قہ پا نی کی کثرت ہو نے کے سبب سب سے زیادہ شہری آ بادی والا علا قہ تھا ۔ اس علاقہ کے نام کی وجہ تسمیہ بارے ہندو مورخوں کی جانب سے بیان کیا جا تا ہے کہ رام لکشمن اور دیگر اوتار نے اپنے مذ ہبی مقامات کی زیارات کے لئے HINGLAJ(بلو چستان ) جا تے ہو ئے اس گرائونڈ میں قیام کیا تھا ۔ آج کے آرام باغ کا تا یخی نام رام باغ ہے ۔” کراچی تاریخ کے آئینہ میں “کے مصنف محمد عثمان د مو ہی لکھتے ہیں کہ رام باغ کراچی میں ایک پرانا اور تا ریخی گرا ئونڈ ہے تقسیم ہند سے قبل ہندو مسلم سبھی مذ ہبی تقریبات اسی گرائونڈ میں منعقد کی جا تی تھیں اور بسا اوقات یہ گرا ئونڈ سیا سی اجتما عات کے لئے بھی استعمال ہو تا تھا۔
کہا جا تا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کے زما نہ میں بر طا نوی استعما ریت کے خلاف مظاہرہ کر نے والے پر امن شہر یوں کے خلاف بر طانوی افواج نے تشدد کیا ۔1947 میں تقسیم ہند کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے پا کستان آ نے والے ہزاروں پناہ گزینوں کے لئے کیمپ لگا ئے گئے ۔ رام باغ میں مسجد کی تعمیر بھی قیام پا کستان کے بعد ہو ئی آرام باغ مسجد کا شمار کراچی کی خوبصورت ترین مساجد میں ہو تا ہے ۔ مسجد کے باہر صحن میں و ضو کے لئے پا نی کا ایک بڑا سا حوض بنا ہوا ہے میں نے مسجد پہنچ کر ایک بار پھر اس حوض کے پا نی سے منہ ہا تھ دھو یا میرے سا منے ہی ایک اور شخص بھی منہ ہا تھ دھو رہا تھا بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہزارہ کا رہنے والا تھا ۔اس کی آ نکھیں سر مئی اور رنگ سفید تھا داڑھی اس کی تھوڑی بڑھی ہو ئی تھی پیٹ بھی بڑھا ہواتھا اس نے مجھے دیکھا تو بو لا پنجاب سے آ یا ہے ؟
میں نے کہا جی ۔ کیا کرنے کوئی کام وام کرے گا ؟ اس نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب دیا میں خا موش رہا ۔ وہ پھر بولا یار اگر کو ئی کام نہ ملے تو ادھر ہی آ جا نا میں ادھرہی رہتا ہوں اس نے مسجد کے باہر گراسی پلاٹ میں بنی ایک کھولی کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا تم بھی رہ لینا ادھر کھانا بھی لوگ دیتا ہے اور مزدوری بھی بن جا تی ہے مزدوری سے مراد شاید بھیک تھی جو وہ ما نگتا تھا ۔ میں نے کہا ٹھیک اگر مجھے کام نہ ملا تو میں آ جا ئوں گا ۔ یہ صادق منزل کد ھر ہے ۔ میں نے پو چھا تو اس نے بتا یا کہ صادق منزل مسجد کے ساتھ والے بازار میں ہے کیا تم نے ادھر جا نا ہے میں نے کہا ہاں ۔ اس زما نے میں جما عت اسلا می کرا چی کا دفتر صادق منزل میں ہوا کرتے تھے پرو فیسر عبد الغفور جو کہ کرا چی سے جما عت اسلا می کے ایم این اے منتخب ہو ئے تھے وہ کئی بار لیہ آئے تھے اور ملاقات بھی تھی میری ان کے ساتھ میں انہیں جا نتا تھا اور میری یہ خوش فہمی تھی
وہ بھی مجھے جا نتے ہوں گے ۔ مو لا نا افضل بدر نے جو خط مجھے دیا تھا وہ بھی انہی کے نام تھا ۔ میں تنگ سی سیڑ ھیاں چڑھ کر جب کمرے میں دا خل ہوا تو وہان ایک صاحب ایک مو ٹا سا لیجر کھولے حساب کتاب میں مصروف تھے ان کا نام نجیب تھا یا مجیب مجھے یاد نہیں انہوں نے میرا آمد مقصد پو چھا میں نے انہیں شفا رشی رقعہ پیش کر دیا۔
چند سطروں پہ مشتمل وہ خط جسے میں نے پچھلے دو ہفتوں سے بڑے اہتمام کے سا تھ سینے سے لگا رکھا تھا مو صوف نے چند سیکنڈوں میں پڑھنے کے بعد بڑی بے وقعتی سے مجھے واپس کرتے ہوئے بڑ بڑائے پتہ نہیں پنجاب والوں نے کیا سمجھ رکھا ہے جسے دیکھو کراچی بھا گا چلا آرہا ہے لگتا ہے جیسے ملاز متیں درختوں پہ لگی ہیں ۔ ان کی یہ خو ش آ مدیدی بڑ بڑاہٹ سن کر میری تھکا وٹ میں اضا فہ ہو گیا ۔ آواز آ ئی کہ چا ئے پیو گے ؟ میں نے کہا نہیں جی بس یہ میرا سامان ہے یہ رکھ لیں میں کام تلاش کرتا ہوں اٹھا لوں گا میں نے اپنا ایک بیگ جس میں ایک جوڑا کپڑوں کا ، ایک چادر اور چند کتا بیں اور کچھ لکھے اور صاف صفحات تھے وہاں دفتر میں ان صاحب کے حوالے کئے اور سیڑھیاں اتر کر کام کی تلاش کا آغاز کر دیا ۔
صادق منزل کے سا تھ ہی ہمدرد دواخانہ تھا اور میں نے کام کے لئے پہلی صدا وہیں لگا ئی وہاں سے نہیں کی آواز سننے کے بعد چل سو چل فریسکو چوک کی با ئیں جا نب سے تلاش روز گار کی شروع ہو نے والی مہم کا اختتام بھی واپس اسی جگہ ہوا جہاں سے آ غاز ہوا تھا فرق صرف یہ تھا کہ آ غاز بندر روڈ کے با ئیں جا نب سے ہوا تھا اور اختتام سڑک کے دائیں جا نب ہوا ۔ تلاش روز گار کی یہ مہم خا صیٰ مشکل اور دشوار تھی میں نے بندر روڈ کی تقریبا بیسیوں دکا نوں میں جھا نکا ۔ لی مارکیٹ کے ہو ٹل اور لا ئٹ ہا ئوس کے لنڈے بازار کی پتلی سی گلی میں بھی مزدوری تلاش کی مگر نا کام رہا ۔ اب صورت حال خا صی مشکل ہو چکی تھی کھانا کھا ئے 24 گھنٹوں سے زیا دہ ہو چکے تھے وہ جو کہتے ہیں کہ بھوک سے پیٹ میں چو ہے دوڑ تے ہیں وہی میرے ساتھ ہو رہا تھا گر می کی حدت کے سبب پیاس بھی خا صی لگی کئی بار پا نی پیا مگر ہو نٹ خشک ہو ئے جا رہے تھے دن کے تین بج چکے تھے لگتا تھا کہ ہمت جواب دے جا ئے گی
کئی بار دل میں آ یا کہ یو نیورسٹی سبزیمنڈی روڈ چلا جا ئوں جہاں میرے ایک عزیز کچی آبادی میں رہتے تھے مگر پھر صبح اللہ کریم کے نام پر مسجد میں دئیے گئے بارہ آنے میرا راستہ روک لیتے اور کہیں سے یہ آواز سنا ئی دیتی ہمت نہ ہار اللہ کریم کبھی اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا ۔ اور میں ایک بار پھر دکان دکان پھرنے لگتا کام کی تلاش میں ۔
وہ ایک ریسٹو ر نٹ تھا گلزار ریسٹورنٹ ۔ ایک بڑی سی لمبی دکان میں بنا ہوا یہ ریسٹورنٹ اسی فریسکوچوک کے قریب تھا جہاں سے میں نے اپنی تلاش روزگار مہم شروع کی تھی جب میں اس ریسٹو رنٹ میں دا خل ہوا تب کا ئو نٹر پر بیٹھا ہوا مو ٹا سا بندہ کسی کو کہہ رہا تھا کہ ابے جا اپنا حساب لے اور چلتا بن تیرے بغیر کیا ہمارا کام نہیں چلے گا وہ بھی خا صا تیز طرار تھا کہنے لگا سیٹھ با تیں نہ بنا میرے پیسے دے میں بھی تیرے پاس کام نہیں کر نا چا ہتا میں نے یہ سنا تو آواز آئی لے بچہ تیری جگہ بن رہی ہے اور یہ سوچ کر میں دو نوں با زو سمیٹ کر کا ئونٹر کے سا منے ایک کونے میں کھڑا ہو گیا دوپہر کے کھا نے کا وقت تھا دکان گا ہگوں سے بھری پڑی تھی کائو نٹر پر بھی بل اور پا رسل آرڈر دینے والوں کا خا سا رش تھا سیٹھ نے اس بندے کا حساب چکتا کر دیا تھا اور وہ چلا گیا تھا کا فی دیر کے بعد جب رش کم ہوا تو وسیٹھ نے مجھے کھڑے دیکھا وہ پہلے بھی کئی بار کن انکھیوں سے مجھے دیکھ چکا تھا کہنے لگا کیا چا ہئیے صاحب ۔ میں نے گڑ بڑا کر کہا کام۔
میری یہ بات سن کر وہ بہت ہنسا اتنا کہ ہنستے ہنستے اس کی آ نکھوں میں پا نی آ گیا ہنستے ہو ئے اس کی مو ٹی توند یو ں اوپر نیچے ہورہی تھی جیسے اس کے پیٹ میں زلزلہ آگیا ہو اس کی پیلی بتیسی کے دو نوں سا ئیڈوں سے میں سے تھوک بہنے لگا تھا اسی دوران ایک ویٹر کا ئونٹر پر آیا اور بل بنا نے کے لئے کہا تو اس کی ہنسی کچھ تھمی بل بناتے بناتے سیٹھ نے میری طرف اشارہ کرتے ہو ئے ایک موٹی سی گا لی دی اور ویٹر کو بتا یا کہ ابھی ایک۔۔۔ گیا ہے اور دوسرا۔۔۔ آ گیا ہے اس کی ٹھٹھا اڑا تی ہنسی اور اوپر سے گا لی نے مجھے بڑا ما یوس کر دیا میں ابھی مڑنے والا ہی تھا کہ ویٹر نے سیٹھ سے سر گو شی میں کچھ کہا ویٹر کی بات سنتے ہو ئے سیٹھ کا تر بوز جیسا سر زور زور سے اوپر نیچے ہلنے لگا ۔ ویٹرنے مجھے آواز دی اور پو چھا او بھا ئی کام کرے گا میں نے کہا ہاں کروں گا ۔ برتن واش کر لو گے میں نے کہا ہاں دھو لوں گا میری بات سن کر سیٹھ پھر ہنسنے لگا اور اپنی پیلی بتیسی دکھاتے اپنی مو ٹی سی توند ہلاتے بو لا او بھا ئی جب کام کرنا ہے تو پھر نخرے کیسے جا ئو اپناکام سمجھ لو اس صاحب کے ساتھ اس نے ویٹر کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔
ویٹر نے مجھے اندر چلنے کا اشارہ کیا میں چلتے چلتے اس کے قریب ہو گیا اور پو چھا سر ! مجھے کام مل گیا ہے نا اس نے کہا ہاں میں نے دبے لہجے میں اسے کہا میں نے کل سے کچھ نہیں کھا یا پہلے مجھے کھا نا کھلا دو اس نے مجھے دیکھا اور بولا بیٹھو میں تمہا رے لئے کھا نا لا تا ہوں ابھی میں ایک کر سی پر بیٹھاہی تھا کہ وہ پھر واپس آ گیا اور پو چھا کیا کھا ئو گے اور اس نے ریسٹورنٹ میں پکے ہو ئے سارے کھا نوں کے نام دہرا دئیے میں اس کے اس بے سا ختہ انداز پہ مسکرا دیا میں نے کہا یار جو بھی لے آ ئو بس جلدی لے آئو اب صبر نہیں ہو رہا ۔ شائد کھانوں کی اشتہا انگیز خو شبو نے میری بھوک بڑھا دی تھی ۔اللہ کریم نے مجھے ما یوس نہیں کیا تھا میری تلاش روزگار مہم کا میاب ہو چکی تھی اور میں کام ملنے کے بعد کھانا کھا رہا تھا ۔۔۔ با قی آ ئندہ
تحریر :۔ انجم صحرائی