تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
قرآن شریف کی سورة نمبر ٦٢ کا نام جمعہ ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعے کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو”(سورة جمعہ :٩)ا س حکم سے جمعہ کے دن کی افادیت واضع ہوتی ہے۔
اسلام میں اجتماعیت پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ نماز گھر پڑھنے کے بجائے محلے کی مسجد میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس میں ثواب بھی زیادہ رکھا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد جمعہ محلے کی مسجد کے بجائے بستی کی جامع مسجد میں ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔عیدین کی نمازیں بستیوں کی عید گاہوں میں ادا کرنے کا حکم ہے۔ اس سے مسلمانوں میں اجتماعیت جنم لیتی ہے جس پر اسلام میں زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہودیوں کے سبت(ہفتہ) کے مقابلے میں جمعہ عطا فرمایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ جس طرح یہودیوں نے سبت کے ساتھ رویہ رکھا تھا ایسا رویہ جمعہ کے ساتھ مسلمانوں کا نہیں ہونے چاہیے۔ سبت کا دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار پایا تھا اللہ تعالی نے اسے دائمی عہد کا نشان قرار دیا تھا۔ تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیاوی کام نہ کیا جائے، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے جانوروں اور لونڈی غلاموں سے کو ئی خدمت نہ لی جائے۔ جو اس کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے۔ قرآن میں بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانیوں کے ساتھ ذکر ہے سمندر کے کنارے ایک بستی کا، جس میں ہفتے کے دن مچھلیاں اُبھر اُ بھر کر سامنے آتیں تھی اور ہفتے کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتیں تھیں۔
یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ بنی اسرائیل ہفتے کے دن مچھلیوں کو روک لیتے اور دوسرے دن پکڑ لیتے۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ کے اس عہد کو توڑا تو اللہ نے کہا کہ بندر ہو جائو ذلیل اور خوار۔ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ”پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جائوذلیل و خوار” (الاعراف:١٦٦) جس سورة میں جمعہ کا ذکر ہے اس کا شان نزول کچھ اس طرح کہ مدینہ میں ایک روز عین نمازِ جمعہ کے وقت ایک تجارتی قافلہ آیا اور اس کے ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ١٢ آدمیوں کے سوا تمام حاضرین مسجد نبوی ۖسے قافلے کی طرف دوڑ گئے،حالانکہ اُس وقت رسول ۖ اللہ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے۔اس پر قرآن میں حکم دیا گیا کہ جمعے کی اذان ہونے کے بعد ہر قسم کی خریدو فروخت اور ہر دوسری مصروفیت حرام ہے۔
اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اُس قوت سب کام چھوڑ چھاڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑیں ۔البتہ جب نماز ختم ہو جائے توانہیں حق ہے کہ اپنے کاروبار کے لیے زمین میں پھیل جائیں ۔اسلام سے پہلے یہودیوں نے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا ۔ اُس روز اُن کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اس طرح عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لیے اپنا شِعار ملت اتوار کا دن قرار دیا۔ اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا ذکر آیاہے۔لیکن عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ اسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا۔اس کے بعد ٣٢١ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعے سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعے کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔
یہود و نصارا نے پوری دنیامیں ہفتے اور اتوار کو چھٹی کا دن قرار دیا ہوا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کے ملکوں میں بھی جمعہ کے لیے اجتماعی عبادت کے لیے جمعہ کے دن عام چھٹی ہونی چاہے۔مگر اسلامی دنیا میں کہیں جمعہ کے دن عام چھٹی ہے اور کہیں نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہوتی جبکہ کہیں کہیں کاروباری لوگ جمعہ کے روز چھٹی کرتے ہیں اور اپنا کاروبار بند رکھتے ہیں۔ اسلام میں پہلا جمعہ کب اور کسنے پڑھایا تو یہ کچھ اس طرح ہے کہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مصعب بن عمیر نے رسولۖاللہ کے حکم سے پہلا جمعہ مدینہ میں ادا کیا تھا۔ اس سے قبل جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا تو انصارِ مدینہ نے دیکھا کہ یہودی ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں تو انہوں نے باہم مشورے جمعے کا دن عبادت کے لیے طے کر لیا اور پہلا جمعہ حضرت اَسعد بن زُ رَارَہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا جس میں ٤٠ آدمی شریک ہوئے۔( مسند ِ احمد۔ ابودائود۔ ابنِ ماجہ)ابنِ ہشام میں ہے کہ رسولۖ اللہ پیر کے روز قبا پہنچے، چار دن وہاں قیام کیا پانچویں روز جمعے کے دن وہاں سے مدینے کی طرف روانہ ہوئے راستے میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آ گیا، اُسی جگہ آپۖ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا۔
اسلام مسلمانوں کو پاک صاف رہنے کی تلقین کرتا ہے۔اس لیے نماز سے پہلے وضو کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خُذرِی کا بیان ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا:” کہ مسلمان کو جمعے کے روز غسل کرنا چاہیے،دانت صاف کرنے چاہیے، جواچھے کپڑے اُس کو میسر ہوں پہننے چاہییں اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے(مسنداحمد،بخاری،ابوودائود ،نسائی)اسی طرح آپ ۖ نے خطیبوں کو بھی ہدایات فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ آپ ۖ خود بھی جمعے کے روز مختصرخطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضور ۖ طویل خطبہ نہیں دیتے تھے۔وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے۔(ابودائود)۔حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی کہتے ہیں کہ آپۖ کا خطبہ نماز کی نہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی(نسائی) اللہ سے دعا ہے کہ اللہ مسلمانوں کو اپنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی)