تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
کسی بھی دورمیں دوستی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا۔ہر انسان ایک اچھا، مخلص ا ور سچا دوست سے دوستی رکھنا چاہتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میںایک اچھا دوست ملنا مشکل ہی نہیں ممکن ہی نہیں۔ دوستی انسان کے خوبصورت رشتوں میں سے ایک ہے اور دنیا میں وہ انسان غریب ہے جس کا کوئی بھی مخلص دوست نہ ہو۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت دوست نایاب ہوتے جاتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا تمہیں ایسے دوست کی تلاش ہے جو تمہاری خدمت و غم خواری کرے یا ایسا دوست چاہتے ہو جس کی تم خدمت وغم خواری کرو۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے دوست کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں ہم سوچتے ہی نہیں عمل سے بھی ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا جو دوست ہو وہ کسی اور کا دوست نہ ہو جن کو ہم اچھا سمجھیں یا برا ان کو وہ بھی ایسا ہی سمجھیں ،ہماری ہر بات مانتا ہو ،حکم مانے ،جناب یہ دوست نہ ہوا آپ کا غلام ہوا ۔دوست تو ہم عمر ،ہم خیال،ہم مزاج ،ہم مشغلہ ہو دوست عقل مند ، خوش مزاج ہونا چاہیے، خوددار ہو، زندگی کی کشمکش اور مشکلات میں ساتھ دینے والا ہو سب سے بڑی خوبی سچا ہو،اس کی محبت پاک ہو، اور وہ آپ سے وفادار ہو ،دنیا اور آخرت میں آپ کا ساتھ دوست کے ساتھ ہی ہونا ہے ۔اس لیے دوستی سوچ سمجھ کر کریں اور پھر اسے نبھائیں بھی یہ کیا ہوا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوتے رہے ،مناتے رہے ،شکوے شکایت میں زندگی ضائع کرتے رہتے ہیں ،کبھی روٹھ گئے کبھی مان گئے ۔ایسے ہی کسی موقع کے لیے یہ کہا جاتا ہے ۔
آپ کیوں اس اصول زریں سے کوشش اختلاف کرتے ہیں
قاعدہ ہے دوستوں کے قصور دوست ہنس کر معاف کرتے ہیں
ہر سال دنیابھر میں 30 جولائی کو دوستی کا عالمی دن (Friendship Day) منایاجاتاہے، جس کا مقصد دوستی کے رشتے کی اہمیت کو اجاگر کرنا،اسے مضبوط بناناہے ۔ اس کے منانے کا باقاعدہ آغاز 1958ء میں پیراگوائے سے ہوا۔ اگرچہ امریکہ اور چند دوسرے ممالک میں یہ دن 1919ء سے منایا جا رہاہے 27اپریل 2011ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دوستی کے عالمی دن کو ہر سال 30جولائی کو منانے کا فیصلہ کیا۔فرینڈشپ ڈے یہ دن منانے کا مقصد دوستی کے رشتوں کے ذریعے امن کے کلچر کو فروغ دینا ہے اور دوستی کے رشتے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دوستی کے رشتوں کو مزید مضبوط بنانا اور موجودہ بد امنی اور انتشار کے دور میں دوستی کو دوسرے معاشروں، ممالک اور قوموں کے درمیان پروان چڑھانا ہے تاکہ مختلف اقوام کے درمیان جاری تنازعات کم ہو سکیں۔ یہ دن اِس عزم کے ساتھ منایا جائے کہ لوگوں، ممالک اور مختلف ثقافتوں کے مابین دوستی سے امن کی کوششوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
دوستی انسان کے عزیز ترین رشتوں میں سے ایک ہے اور دنیا میں وہ انسان غریب ہے جس کے پاس ایک بھی مخلص دوست نہ ہو۔ادب میں سب سے زیاہ محبوبہ پر دوسرے نمبر پر دوستی ہی وہ رشتہ ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے ۔اب تو دوستی بھی الیکٹرانک ہوگئی ہے ۔اس لیے پہلے سی دوستوں میں محبت کہاں رہی ہے ،اب فرینڈ صرف فیس بک پر ہی ملتے ہیں، ویسے تو میری فیس بک فرینڈز 4151 ہیں مگر ان میں سے چند ہی ہیں، جن کو میں جانتا ہوں ۔زیادہ سے زیادہ 651 ہو سکتے ہیں باقی 3500 فرینڈ ز نہ مجھے جانتے ہیں نہ میں ان کو جانتا ہوں۔ الیکٹرانک دوستی میں بھی یہ شکوے شکایت ہیں کہ کسی کے پاس لائیک وکمنٹ کرنے کا وقت نہیں ہوتا ۔اس لیے بھی کہ سوشل میڈیا پر دوست بنانا اور کسی دوست کو ان فرینڈ کرنا آسان ہے ۔
اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں
دوستی کے عالمی دن کے حوالے سے مختلف سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام تقریبات منعقد کی جاتیں ہیں ۔اس دن کی مناسبت سے لوگ موبائل ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے دوستوں کو نیک خواہشات کے پیغامات ارسال کرتے ہیں۔اب تو دوستی کے رشتے پیغامات ارسال کرنے تک ہی رہ گئے ہیں ۔زیادہ سے زیادہ آپس میں تحائف کا تبادلہ کیا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ دوستی اللہ کا تحفہ ہے ،اسے خود غرض لوگوں پر برباد مت کریں ۔پاکستان میں بھی یہ دن دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ۔اس دن پرانے دوست اکٹھے ہوتے ہیں ،مل بیٹھ کر ماضی کو یاد کرتے ہیں ۔ایک دوسرے کو دوستی کے پیغام دئیے جاتے ہیں ۔بعض دوست مل کر سیر کا پروگرام بناتے ہیں۔ اس دن دوست خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہے ۔ سوچتا ہوں اس دن کو ہم کیسے منائیں گے، ایک ایک دوست کا چہرہ نظروں کے سامنے گزرجائے گا سب دوست مصروف ہو گئے ہیں کس کے پاس وقت ہو گا اس دن کو بیٹھ کر بیتے دن یاد کرنے کا۔ میرے اب تک بہت سے دوست رہے مگر دوست کون رہا ؟کون ہے؟ اس بارے سوچتا ہوں تو تنہائی سے گھبرا جاتا ہوں ،اب سب اپنے اپنے مفادات کے دوست ہیں، جس کے کام آتے رہیں وہ دوست ہے، جس کے کام نہ آئیں وہ فوراََ کہ دیتا ہے ” اچھی دوستی ہے” یعنی اب تو مطلب کی دوستی ہے ۔کام کی دوستی ہے ،مال کی دوستی ہے ،مفادات کی دوستی ہے ۔شائد ہم سے بھی وہی غلطی ہوتی رہی جو فراز سے ہوئی تھی کہ ۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اس کے علاوہ ایک بات اور بھی شائد اچھے دوست ملے ہوں ان کی قدر نہ ہوئی ہو ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں ایک Aاپنے دوست Bسے دھوکہ دیتا ہے تودوستB اب اپنے دوستC کو بھی دھوکہ باز سمجھتا ہے ہوتا یہ ہے کہ Cنے تو دوست Bکو دوست ہی دھوکہ دینے کے لیے بنایا ہوتا ہے اس کو جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنی اصلیت دیکھاتا ہے ابB کا اعتبار دوستی سے اٹھ جاتا ہے لیکن اس کی زندگی میں ایک نیا یا پرانا دوست Dبھی ہوتا ہے یہ مخلص ہوتا ہے لیکن ابB اس کی قدر نہیں کرتا اس کو اہمیت نہیں دیتا اس پر اعتبار نہیں کرتا توD مایوس ہو جاتا ہے اب جیسا جیسا B کے ساتھ ہوا اس کے ساتھ ہوتا ہے اس طرح نفرت ،بے اعتباری ،دوست کشی کی زنجیر بنتی جاتی ہے اور پھیلتی جاتی ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنی بات کہاں تک بتانے میں کامیاب ہوا ہوں ۔چلو چھوڑیں اس بات کو اس شعر کو سنیں جس کا مطلب ہے دوست کو دوست ہونا چاہیے ناصح تو اور بھی ہوتے ہیں دوست تو انجام کی سوچے بناں ساتھ دینے والا ہوتا ہے ۔ہر وقت نصیحت کی لٹھ لے کر پیچھے پڑنے والا نہیں ۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گْسار ہوتا
حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖنے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا
”اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے ،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا،یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے ،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے ۔”
حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افرادوہ بھی ہیں”جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں” اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اگر دوستی ہو تو وہ پائیدار ہوتی ہے ،اللہ کی خوشنودی کے لیے ہی کسی سے دوستی یا دشمنی کرنی چاہیے یہ دوستی ہی کامیاب و پائیدار ہوتی ہے اس میں ہی دھوکہ نہیں ملتا انسان مایوس نہیں ہوتا دوست کے کام آ کر احسان نہیں جتاتاوہ سمجھتا ہے میں نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کے کام آیا ہوں اسی طرح ذاتی مفادات کی سطح سے اٹھ کر جب دوستی کی جاتی ہے تو اس سے قیامت کے دن چہرے پر نور ہوگا ایسا نور جیسا نور صادقین ،صالحین،انبیاء کے چہروں پر ہوگا۔(مفہوم حدیث)۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال