تحریر : انجم صحرائی
ہمارے ایک مشترکہ دوست نے کہا کہ عید گاہ میں ہونے والے اس جنازے میں اتنے لوگ تھے جتنے عیدین میں ہو تے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ پتہ ہے نا کہ عیدین کے موقع پر عید گاہ میں کتنا زیادہ رش ہو تا ہے لگتا ہے کہ سارا شہر امڈ آ یا ہو ۔ عزیز خان کا جنازہ واقعی ایک بڑا جنازہ تھا لوگوں کے جم غفیر نے انہیں ان کی آخری منزل کی طرف رخصت کیا۔
وہ یہاں سے کہیں نہ جا تا تھا
وہ یہاں سے چلا گیا ہے کہیں۔
نہ تو وہ کو ئی بڑا دولت مند شخص تھا اور نہ ہی بڑا کاروباری ۔،وکیل بھی ایسا تھا کہ جسے اور کو ئی نہ ملتا عز یز خان اس کی وکا لت کے لئے تیار ہو جا تا ۔ غریب کلا ئنٹ جو دیتے لے لیتا اور کچھ نہ ملتا تو بھی وہ کلا ئنٹ کا لفا فہ اس کے منہ پر دے ما رنے سے ڈرتا کہ وہ اللہ سے ڈرتا تھا ۔ عزیز خان پہلی دفعہ کو نسلر بنے ۔ہو نے والے ان بلد یا تی انتخا بات میں عزیز خان کا مقا بلہ ناز سینما کے ما لک منور سے تھا ۔ منور اس زما نے میں لیہ کی پا لیٹکس میں بہت متحرک تھے پیپلز پا رٹی کے با نی چیئرمین ذو الفقار علی بھٹو جب پہلی بار لیہ آ ئے تب منور ہی ان کے میز بان تھے منور نے اپنی کو ٹھی میں بنے تہہ خا نہ میں اپنے مہمان کے اعزاز میںعصرانہ کا اہتمام کیا تھا مجھے بھی ایک صحا فی کی حیثیت سے اس ضیا فت میں جا نے کا مو قع ملا ۔ اسی زما نے کی بات ہے کہ عزیز خان کے کو نسلر منتخب ہو نے کے بعد کسی دل جلے نے عید گاہ کی ایک گلی میں جمع ہو نے والے گندے پا نی کے سا تھ والی دیوار پر بڑے اور روشن حروف سے عزیز۔۔۔سو ئمنگ پول لکھ دیا ۔ عزیز خان ایک معروف قا نون دان تھا ۔کئی بارکو نسلر ، یو نین نا ظم ، ممبر تحصیل و ضلع کو نسل رہا مگر دیوا پہ لکھا وہ آج بھی مو جود ہے وہ بنیادی طور پر کھلے ذہن کا وسیع ظرف سیا سی کا ر کن تھا ۔عبد العزیز خان قیصرا نی ایڈ وو کیٹ سے ہما ری شنا شائی کا قصہ نصف صدی پر محیط ہے ۔یہ اس زما نے کی بات ہے جب میں میدان صحافت میں طفل مکتب تھا ۔ طفل مکتب تو میں اب بھی ہوں مگر اب بال سفید ہو گئے ہیں۔
عزیز خان ایک درویش انسان تھے اس زما نے میں سول کورٹس آج کے نواز شریف ہسپتال میں ہوا کرتی تھیں ۔پہلا ہفت روزہ اخبار سنگ میل ملتان سے اپنی روزانہ اشا عت کا آ غاز کر چکا تھا ۔ لیہ میں سنگ میل کی ایجنسی استاد اقبال کے پا س تھی ۔ استاد اقبال ہما رے سینئر ہا کر تھے ۔ اللہ بہشت نصیب کرے استاد اقبال کو جنہوں نے مجھے اپنے پاس سنگ میل کی تقسیم کے لئے ملازم رکھ لیا ۔ اخبار سے وابستہ یہ میری پہلی ملاز مت نہیں تھی میں اس سے پہلے بھی ایس اے حامد نیوز ایجنسی ملتان میں کام کر چکا تھا مگر وہاں میرا کام امروز کے پریس سے اخبار کے بڑے بڑے بنڈل کند ھوں اور سا ئکلوں اٹھا کے ایجنسی میں لا نا اور پھر اخبارات کو فو لڈ کرنا تھا لیکن میں نے اخبار کی تقسیم کا کام کبھی نہیں کیا تھا۔
استاداقبال نے سنگ میل اخبار کی تقسیم کا کام مجھے سو نپا تھا سنگ میل اور دو سرے اخبارات ملتان سے تھل ایکسپریس پہ لیہ آ تے تھے ۔ گا ڑی ملتان سے پو نے آٹھ بجے چلتی اور رات ڈیڑھ بجے لیہ ریلوے سٹیشن پر پہنچتی ۔ لیٹ ہو تی تو رات کے تین بھی بج جا یا کرتے تھے ۔ ملتان سے آ نے والے اخبارات کے انتظار میں تقریبا سبھی را تیں سٹیشن پہ ہی گذرتیں ۔اخبار فو لڈ کرتے کرتے فجر کی اذا نیں ہو نا شروع ہو جا تیں جب ہم اخبار لے کر نکلتے تب شب کے اند ھیروں سے دن کا اجا لاجھا نک رہا ہو تا تھا ۔ صبح کا نا شتہ میں عمو ما اسلم موڑ پہ بنے ایک چھپر ہو ٹل سے کیا کرتا تھا ۔یہ وہ وقت ہو تا جب عزیز خان اپنی سا ئیکل پر سول کورٹس جا رہے ہو تے تھے ۔سفید قمیض ، سفید شلوار اور سیاہ شیروانی بعض اوقات سر پر جناح کیپ کے ساتھ ۔ میں نے انہیں آ خر تک اسی سفید لباس اور سیاہ واسکٹ ، کوٹ یا شیر وا نی میں دیکھا ۔ یہ سا ئیکل ایک عر صہ تک ان کی سا تھی رہی ان کے با رے یہ مشہور تھا کہ ان کی سا ئیکل کے کیر ئیر پر رکھے مقد مات کے لفا فوں کے درمیان سفید لٹھا بھی رکھا ہو تا تھا ۔ جب بھی کسی کے موت کی خبر ملتی عزیز خان اس کے جنازہ میں شریک ہو تے اور اگر مر حوم کے وار ثان غریب ہو تے تو عزیز خان یہ لٹھا کفن کے لئے پیش کر دیتے ۔مر حوم نے شا ئد ہی کو ئی جنازہ چھوڑا ہو ۔ وہ ہر کسی کے دکھ میں شر یک ہو نا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ میرے با با جی کے جنازے میں بھی عزیز خان آئے ۔
بعد میں گھر آ کے بھی تعزیت کی ۔ میں بھی ان کے جنازے میں شریک تھے وہاں پر چند لوگ مر حوم کے بارے با تیں کر رہے تھے کہ ایک مزدور کے جنا زے میں عزیز خان نظر نہیں آ ئے تو نماز کے بعد نا قدین کو مو قع مل گیا کہنے لگے دیکھیں بڑے بندوں کے جنا زوں میں تو وکیل صاحب آ گے آ گے ہو تے ہیں آ ج مزدور کا جنازہ تھا اسی لئے تو نظر نہیں آ رہے نمازکے بعد جنازہ جب تد فین کے لئے قبر ستان لے جا یا گیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ عزیز خان وہاں قبر کے سر ہا نے مو جود تھے کہنے لگے مجھے پتہ تھا کہ مر حوم کی قبر کھد وانے والا کو ئی نہیں میں مزدوروں کو لے کر قبر ستان آ گیا تا کہ قبر کھود لیں ۔ بہت کم قا رئین کو علم ہو گا کہ عزیز خان وکیل بننے سے پہلے لیہ کالج میں لیبا ر ٹری اسسٹنٹ تھے ۔دوران ملاز مت ہی پرا ئیویٹ طا لب علم کی حیثیت سے بی اے کیا اور قا نون کی تعلیم مکمل کی ۔ عزیز خان کو یہ بھی ایک اعزاز حا صل ہے کہ انہوں نے جتنے بھی بلد یا تی ا نتخا بات میں حصہ لیا کا میا بی حا صل کی۔
کو نسلر شپ سے یو نین ناظم تک رہے لیکن کبھی کسی کر پشن سکینڈل میں ان کا نام نہیں آ یا ۔ عزیز خان کو میں اپنا دوست نہیں کہہ سکتا وہ اس لئے کہ میرا ان سے کبھی دوستی والا نا طہ نہیں رہا لیکن وہ میرے لئے ایک مشفق اور مہر بان شخص تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ میری حو صلہ افزا ئی کی ۔ میری تحریروں اور تقریروں کے ہمیشہ قدر دان رہے ۔ وہ میرے لئے ایک مثال بھی تھے وہ اس لئے کہ میں نے کبھی کسی ضرورت مند کو ان سے ما یوس نہیں پا یا ۔ وہ جیسے تھے جتنے تھے سب کے لئے تھے۔ پاک اور صاف ذات تو صرف اللہ تعا لی کی ہے ، خا لق کا ئنات نے انسان کو کمزور پیدا کیا اور کو ئی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں ما سوا ئے ا نبیا علیہ ا لصلوةو السلام کے ۔ عزیز خان ایک انسان تھے ان سے بھی خطا ئیں ہو ئی ہوں گی اللہ ان کی مغفرت فر ما ئے لیکن ایک بات جو میں نے ان کے جنازے میں شریک ہو کر محسوس کی وہ یہ ہے کہ جو بندہ رب کے بندوں کے دکھوں میں شریک ہو تا ہے رب کے بندے بھی اسے سفر آ خرت پہ اعزاز کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔
کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی کو ئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کو ئی پلیا ناز تے نخریان وچ کو ئی ریت گرم تے تھل چلیا
کو ئی بھل گیا مقصد آون دا کو ئی کر کے مقصد حل چلیا
اتھے ہر کو ئی فرید مسا فر اے کو ئی اج چلیا کو ئی کل چلیا
تحریر : انجم صحرائی