تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کامران خان ایک ایسا نوجوان ہے جسے دوست کہنے کو جی چاہتا ہے کیوں کہ میرے نزدیک عمر نہیں خیالات کی عمر ہوتی ہے جو وزن رکھتی ہے ورنہ جن کی خمیدہ کمریں ہیں ان کی سوچ ان نوجوانوں سے کہیں کم تر درجے کی ہے وہ بھی کیا لوگ ہیں جو دوسروں کے بارے میں سوچتے نہیں دین کے بارے میں وطن کے بارے میں ۔جو خواب نہیں دیکھتے بنتے نہیں زور نہیں دیتے اپنے دماغ پر میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں جو خواب دیکھتا بھی نہیں اور سوچتا بھی نہیںاوپر ایک ٹویٹ ہے جو ساجن جندال کی جانب سے ہے اس تصویر کو دیکھئے غور کیجئے یہ بندہ چند روز پہلے اس بچی کی شادی میں آیا جو سرور پیلیس میں ہمار ے ہا تھوں کھیلتی رہی۔کیپٹن صدر کی بیٹی میاں نواز شریف کی نواسی۔اسے پاکستان کے وزیر اعظم نے بڑے کھلے دل سے لاہور بلایا کہا جاتا ہے یہ اس تقریب کے روح رواں تھے گرچہ مودی کا مقام اپنا تھا لیکن یہ ایک میزبان کی حیثیت سے چند دن پہلے لاہور پہنچے تھے۔بڑی اچھی بات ہے ہمارے میزبانوں کی صف میں ایک غیر مسلم تھا یہ میرے نزدیک ایک اچھی روائت تھی ایسا ہی ہونا چاہئے پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہی برتائو کرنا چاہئے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدۖ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرو آپ ۖ نے تو مدینہ منورہ میں غیر مسلم کے لئے چادر بھی بچھائی۔جندال آئے شادی کی تقریب کو دنیا بھر کے میڈیا نے کوریج دی۔ہم نے سوچا اچھا ہوا مودی جو مسلمان دشمن تھا وہ چل کے ہمارے پاس آیا اسی طرح کی مثال پہلے بھی موجود تھی۔کہتے ہیں واجپائی اور نواز شریف کی ملاقات کے اچھے ثمرات اس لئے نہ سمیٹے جا سکے کہ کارگل ہو گیا۔پوری قوم اس کارگل پر کمیشن کی رپورٹ کو ترس رہی ہے اگر زرداری دور میں بے نظیر کے قاتل سامنے نہیں آئے اور نواز دور میں کارگل کی حقیقت تو اس سے ہمیں جان لینا چاہئے کہ ساری دال ہی کالی ہے اور سیاست دانوں مین یا تو کوئی تڑ ہی نہیں یا وہ خود غلط تھے۔مجھے اپنے پرانے دوست صدیق الفاروق سے کہان ہے کہ آپ نے ایک بار کہا تھا کہ بر سر اقتتدار آ کر کارگل پر کمیشن بنا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کریں گے۔اگر متروکہ وقف املاک کی ذمہ داری سے کچھ وقت ملے تو ضرور جواب دیجئے گا۔
حضرت جندال کا یہ ٹویٹ جو کامران خان نے مجھے توجہ دلائو نوٹس کی حیثیت سے بھیجا ہے اسے دیگر لوگ قابل توجہ سمجھیں یا نہ سمجھیں مجھے اس پر بات کرنا ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ دشمن تو دشمن اپنے بھی اس فوج کو برابھلا کہنے کو فیشن بنائے ہوئے ہیں آزادی اظہار اور نام نہاد جمہوریت کے ان پرستاروں سے مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ فوج نے ہندوستان کی ناک میں دم کیاہے آپ کو کیا تکلیف دی ہے اب مجھے ایوبی مارشل لاء ضیاء دور کی ظلمتوں مشرف دور آمریت کے بارے میں لیکچر دینے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ میں نے بھی رگڑے کھائے ہیں لیکن میں اپنی فوج کی پشت پر اس لئے کھڑا ہوں کہ یہ میرے ملک کی فوج ہے۔اسے ساجن جندال مودی شیو سینا بال ٹھاکرے اور اس قماش کے لوگ تو برا بھلا کہیں تو مجھے کو ئی دکھ نہیں مگر الطاف حسین ھود بھائی فرزانہ باری یا سیفما کا کوئی رکن کہے تو دل تو دکھتا ہے۔
کئی بار لکھ چکا ہوں کہ مارشل لاء اوور آور ڈیڈ باڈی لیکن یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جندال مودی ٹھیک اور فوج ہماری غلط۔ہم دوست بھائی چارے کی بڑی بات کرتے ہیں۔دانت نکالتے رہتے ہیں جب بھی کوئی بھارتی کسی بھی فورم پر ملتا ہے۔لیکن یاد رکھئے جینے کے لئے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کا کوئی دشمن نہیں یاد رکھئے اس کا دوست بھی کوئی نہیں ہوتا۔بھارت سے دوستی کی ضرورت کے پر چارک جان لیں وہ آپ کو کبھی دوست نہیں مانے گا چاہے آپ اس کے تلوے بھی چاٹ لیں۔چانکیہ کے چیلے بہترین محکوم اور بد ترین حاکم ہوتے ہیں۔شک ہے تو انڈیا میں مسلمانوں کی حالت دیکھ لیں ۔جو ملک آپ سے کرکٹ نہیں کھیلنے کے لئے راضی وہ آپ سے دوستی کیوں کرے گا اور ویسے بھی آپ اپنے پانیوں کا گلہ گھنٹنے پر خاموش ہیں اس سے آزاد پانیوں کی بجائے آئو کرکٹ کھیلیں کا مطالبہ کرتے ہیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ضروری نہیں کہ آپ اس دنیا میں اس سے دوستی کر کے زندہ رہیں آپ ہمسایہ بن کے تو رہ سکتے ہیں منہ بسورے ہوئے اپنی اوقات میں رہ کر روز و شب گزاریں۔
کیا جنوبی کوریا نے جاپان کے ساتھ دوستی کی زندہ ہے نہ وہ بھی اگر جاپان کی ٹویوٹا روڈ پر ہے تو ہنڈائی نے بھی تو اپنی جگہ بنا لی ہے۔اس نفرت کو مسابقت میں کیوں نہیں لیتے چھوڑیں انڈیا سے دوستی کو آپ کو ضرورت امن کی ہے بھائی چارے کی نہیں۔پاکستان کی سب سیاسی جماعتیں سب لوگ انڈیا سے دوستی کے لئے مرے جا رہے ہیں۔سب سارے اس حمام میںمکمل ننگے ہیں اب اسی مرد آہن (لوہار) کو دیکھ لیں آیا وی آئی پی بن کے رہا مہمان خاص ہو کر اور پھلجڑی جا کر چھوڑ دی کہ فوج نے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا ادھر سے بھائی بند یہ بھی کہہ رہے ہیں لگتا ہے کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ انڈیا پاکستان کے تعلقات ٹھیک ہوں۔یعنی نیم دلی سے کہہ بھی دیا کہ ابھی بھی شر پسند باقی ہیں مراد یہ ہے
ادھر ہی ہیں یہاں کہیں مریدکے میں(اشارہ)۔فوج ایجینسیاں تو جانتی ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا ہے دسمبر ١٩٧١ سب کو یاد ہے ایک صاحب آپ کو ہی یاد نہیں۔مجھے حیرت ہے کہ پٹھانکوٹ میں ابھی معاملہ سامنے نہیں آیا اور پاکستان پر الزامات لگ گئے ممبئی حملے بھی پاکستان پر تھوپے گئے اور کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کا سانحہ کس نے کرایا تھاَجندال کو تو اپنی چارپائی کے نیچے بھی سوٹا مار لینا چاہئے کہ شیوسینا کیا چاہتی ہے مودی کے ہندوستان پہنچنے کے دوسرے روز بی جے پی کے سیکریٹری نے اکھنڈ بھارت کی بات کی۔جو محبت میں مرے جا رہے ہیں اور ان جیسی سوچ کے مہربانوں سے گذارش ہے کہ یاد رکھیں
سپاں دے پتر کدی مت نئیں بندے بھانویں چلیاں دودھ پلائیے
تحریر : انجینئر افتخار چودھری