تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہم سمجھتے ہیںکہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور محض دوملکوں کے باہمی مفادات کاایک منصوبہ ہی نہیںبلکہ دونوںملکوں کی اخوت ،محبت اوردوستی کا اٹوٹ بندھن بھی ہے۔ امریکہ توعشروں سے گوادر پر نظریںجمائے بیٹھاتھا لیکن اب اُسے بھی یقین ہوچلاہے کہ آبنائے ہرمزسے گزرنے والے دنیاکے 33 فیصد تیل کاچودھری بننے کااُس کادیرینہ خواب کبھی پورانہیں ہوگا۔اِسی لیے امریکہ میںہر سطح پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔اُدھر بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کوجب سے اِس منصوبے کاعلم ہواہے وہ بھی ”مرضِ اسہال”میں مبتلاء ہوچکے ہیں، ڈاکٹرحیران وپریشان کہ”اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ دوانے کام کیا”۔ سناہے کہ اب بھارت کے حکیموںاور ویدوںسے مشورے جاری ہیںتاکہ مودی صاحب کواِس ”مرضِ نامعقول”سے چھٹکارادلایا جاسکے۔
دشمن توخیردشمن ہی ہوتاہے اوروار کرنااُس کاحق لیکن ہمارے ہاںبھی کچھ لوگوںکے پیٹ میں ”ایویںخوامخوا” مروڑاُٹھ رہے ہیں۔وزیرِاعظم صاحب نے اکنامک کوریڈورپر اے پی سی بلوائی جہاںاحسن اقبال صاحب نے پوری جزئیات کے ساتھ اِس منصوبے کے ہرپہلو پرروشنی ڈالی ۔تب تووہاںتنقیدوتعریض کی کوئی تواناآواز نہیںاُٹھی لیکن اے پی سی کے خاتمے کے ساتھ ہی ”اپنی اپنی ڈفلی ،اپنا اپناراگ”۔ہوسکتا ہے کہ یہ وزیرِاعظم صاحب کے پُرتکلف ظہرانے کااثر ہوکہ شرکائے اے پی سی نے خاموشی اختیارکی ۔ وزیرِاعظم صاحب کی اے پی سی کے چارروز بعداے این پی نے کوئٹہ میںایک اوراے پی سی بلالی جس میںلسانی عصبیت پھیلانے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اِس اقتصادی راہداری منصوبے کونوازلیگ متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے اوروہ اِس منصوبے کے فوائدسے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کومحروم رکھنے کی تگ ودَومیں ہے۔
ایک محترم لکھاری جویہ سمجھتے ہیںکہ افلاطون ،ارسطو اوربزرجمہرسمیت تمام دانشوروںکی روحیںاُن میںحلول کرچکی ہیںاوراُن کافرمایا ہوااتنا مستندکہ اگرکوئی اختلاف کی جرأت کرے توقابلِ گردن زنی،وہ بھی اپنے کالموں میں اقتصادی راہداری کے روٹ پراکثر ”رَولا”ڈالتے رہتے ہیں۔ہمیں اِس روٹ کاتو ”کَکھ” پتہ نہیںتھا البتہ یہ ضرورجانتے تھے کہ اِس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کی نہ صرف قسمت جاگ اُٹھے گی بلکہ غربت وافلاس بھی قصّۂ پارینہ بن جائے گی۔ اِس لیے ہمیںرہ رہ کرنواز لیگ پر غصّہ آرہا تھاکہ وہ اِس منصوبے کوخوامخواہ متنازع بنانے کی کوشش کیوںکر رہی ہے۔
اسی غصّے نے ہماری تحقیق کومہمیز دی اور تھوڑی سی تحقیق کے بعدہی ہمیںعلم ہوگیا کہ قوم کوگمراہ کرنے کے لیے ”سفیدجھوٹ ”بولا جارہا ہے۔ رہی سہی کسروزیرِمنصوبہ بندی ،ترقی ومواصلات احسن اقبال صاحب کے کالم نے نکال دی۔ اُن کاکالم پڑھ کرہم یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ نریندرمودی نے تو”ایویںای” 39 کروڑڈالر دے کر”را” کواِس اقتصادی منصوبے کی ناکامی کامشن سونپاہے ،اُنہیں یقین ہوناچاہیے تھاکہ پاکستان کے اندربھی ایسے ”ماہرین” موجودہیں جواِس منصوبے کو”کالاباغ ڈیم” بناکرہی دَم لیںگے۔ اقتصادی راہداری کاصرف ایک روٹ نہیںبلکہ تین روٹ ہیںجن میںسے کوئی ایک روٹ بھی ایسانہیں جوبلوچستان اورخیبرپختونخوا سے نہ گزرتاہو۔ مغربی ،وسطی اورمشرقی روٹس میںسے مغربی روٹ گوادر ،بسیمہ ،سریاب، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ ،ژوب ،ڈیرہ اسماعیل خاں ،اسلام آباد اورپشاور سے خنجراب جبکہ وسطی روٹ گوادر ،بسیمہ ،خضدار ،رتوڈیرو اور انڈس ہائی وے پشاورسے خنجراب تک ہے۔ مشرقی روٹ گوادر ،بسیمہ ،خضدار ،سکھر ،کراچی ،ملتان ،لاہور ،اسلام آباد ،پشاورسے خنجراب تک ہے۔
اِن تینوںروٹس کوسامنے رکھتے ہوئے کسی عام فہم آدمی کوبھی یہ اندازہ لگانے میںدشواری نہیںہو گی کہ اقتصادی راہداری کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان اورخیبرپختونخوا کوہی پہنچنے والاہے۔ مغربی روٹ پرتیزی سے کام جاری ہے اوریہ روٹ2016 ء میں فعال ہوجائے گا ۔اِس روٹ سے پنجاب کاکوئی ایک شہربھی منسلک نہیں۔اسی روٹ سے صاف ظاہرہوتاہے کہ اِس کاسب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کوپہنچے گا۔ بلاخوفِ تردیدکہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میںبلوچستان اقتصادی راہداری کاگیٹ وے بننے جارہا ہے ۔گوادرسے کوئٹہ اورگوادر سے سکھر اقتصادی راہداری سے اندرون بلوچستان کے تمام پسماندہ علاقے ملک کے دیگرحصّوں سے منسلک ہوجائیں گے جس سے نہ صرف روزگارکے لاتعدادمواقع میسرہوںگے بلکہ ایسی سیاسی بیداری پیداہوگی جوبلوچی سرداروںکو ہرگز قبول نہیںکیونکہ اگراندرون بلوچستان پسماندگی اورجہالت دورہو گئی تویہ سرداراپنے سیاسی مقاصدحاصل نہیںکر سکیںگے۔
اب آئیے ”ارسطوئے دَوراں”کے جھوٹ کی اُس پٹاری کی طرف جسے محترم اپنے کالموںمیں کھول کے قوم کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اپنے حالیہ کالم (23 مئی) میںاُنہوںنے ”دَرجوابِ آں غزل”احسن اقبال صاحب کے کالم کاجواب دینے کی کوشش ضرورکی لیکن اِدھراُدھر کی باتوںاور” طعنوںمہنوں”کے سوااُس میں”کَکھ” نہیںتھا۔محترم لکھاری کی خدمت میںدست بستہ عرض ہے کہ
نکالا چاہتا ہے کام تُو طعنوں سے کیا غالب
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پہ مہرباں کیوں ہو
لکھاری موصوف نے کہاکہ حکومت نے روٹ تبدیل کرکے اچھا نہیںکیا جبکہ جناب احسن اقبال کہتے ہیںکہ کالم نگار 2013ء سے پہلے کے جس نقشے کاذکر کررہے ہیںاُس کا کہیںوجود تک نہیںتھا۔ اُنہوںنے کہا”2013ء میںمعاہدے کے بعدہی انفراسٹرکچر ،توانائی اورگوادربندرگاہ کے ورکنگ گروپس تشکیل دیئے گئے جس کے بعددونوں ممالک کے ماہرین نے روٹس کی نشاندہی کے لیے کام کا آغازکیااِس لیے کوئی نقشہ 2013ء سے پہلے کیسے بن گیا”۔ محترم لکھاری کے جھوٹ کی پٹاری کاسب سے بڑاجھوٹ یہ ہے کہ بلوچ اورپختون علاقوںکو صنعتی زونزسے محروم رکھاجا رہاہے اورسارے صنعتی زون پنجاب میںہی بنادیئے گئے ہیں۔اپنے حالیہ کالم میںبھی اُنہوںنے پھروہی دہرایا ”مشرقی کی بجائے مغربی روٹ کوتجارتی روٹ بنانااور اکنامک زونز وہاںتعمیر کرناضروری ہے ”۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ احسن اقبال صاحب نے اکنامک زونزکے بارے میں کسی بھی طرح کی وضاحت کرنے کی بجائے ساراوقت اُن کی نیت پرشَک کرنے اوراُنہیں جھوٹا ثابت کرنے پرصرف کیاہے۔ شایدمحترم لکھاری نے احسن اقبال کاکالم غورسے پڑھنے کی زحمت ہی نہیںکی کیونکہ اُنہوںنے توپوری صراحت سے لکھاہے کہ فی الحال گوادر میںصرف ایک صنعتی زون بن رہاہے (گوادرپنجاب میںنہیں )، باقی زونزکا فیصلہ دونوںممالک کامشترکہ ورکنگ گروپ کرے گاجس کاقیام دو ماہ بعدعمل میںلایا جائے گا
حکومت صنعتی زون کے قیام سے پہلے تمام صوبوںسے مشاورت کرے گی ۔ اِس لیے یہ بھی محترم لکھاری کی ذہنی اختراع ہی ہے کہ سارے صنعتی زون پنجاب میںبنائے جارہے ہیں۔دراصل اے این پی اورلکھاری موصوف کو اعتراض ہے توصرف اُس مشرقی روٹ پرجو پنجاب سے گزرتا ہے۔پہلے بھی اے این پی کوکالا باغ ڈیم پرصرف یہی اعتراض تھاکہ اگریہ ڈیم بن گیاتو پنجاب کی لاکھوںایکڑ بارانی زمین سیراب ہوجائے گی۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر