دوستی کرتے نہیں دوستی ہو جاتی ہے،دوست دوست نہ رہاجیسے مکالمات چند دنوں ،ہفتوں اور مہینوں بعد اکثر سننے میں آتے ہیں کیوں؟ کیا انسان کو دوستوں کی ضرورت ہے،کیا دوستی انسان کی صحت اور خود اعتمادی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے،کیا دوستی میں سب جائز ہے،کیا دوستی کی دیکھ بھال کی جا سکتی ہے، کیا دوست دشمن بھی بن جاتے ہیں،کیا دوستی ایک نازک رشتہ ہے جو ذرا سی ٹھیس لگنے پر کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جاتا ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی سوال انسان کے ذہن میں کلبلاتے ہیں کہ اگر دوست مفاد پرست ،لالچی اور حرص کا مارا نکلا اور کمزوری سے فائدہ اٹھایا تو انسان کیا کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر دوستی میں قسمت اور خوشی کا کتنا عمل دخل ہے؟عام حالات میں انسان دوستوں کے ساتھ خوشی غمی ،دکھ سکھ اور ہر قسم کے دنیاوی حالات واقعات پر بات چیت کرتا اور معاملات شئیر کرتا ہے کیونکہ ہر انسان اپنی نظر اور سوچ کے مطابق دوست کو دوست ہی نہیں زندگی بھر کا ساتھی سمجھتا ہے اور یہی سوچتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم کبھی جد ا نہیں ہونگے۔
ایک اچھے اور مخلص دوست کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اونچے نیچے دشوار گزار راستوں میں ہمسفر ہوتا ہے اور ہمیشہ ایک گائیڈ کے فرائض انجام دیتا ہے ، مفید مشورے دیتا اور انتہائی قریب ہوتا ہے،اور اس امید پر کہ دوستی تاحیات قائم رہے گی فاصلے ،اختلافات اور کسی قسم کے دنیاوی معاملات ان کے راستے میں حائل ہوئے تو دوستی نہیں توڑیں گے بلکہ مزید مضبوط ہو گی ایسی دوستی ہمیشہ پر اعتماد ہوتی ہے جو ہر قسم کی لالچ سے پاک ہوتی اور ہمیشہ قائم رہتی ہے کیونکہ منفرد خصوصیات کے حامل دوست ایک دوسرے کو سمجھ اور جان جاتے ہیں کہ ہم صرف دوست ہی نہیں زندگی بھر کے ساتھی ہیں دو جسم ایک جان ہیں اور کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور یہی دوستی کا بنیادی اصول اور عنصر ہوتا ہے جو دوستی جیسے نازک رشتے کو قائم و دائم رکھتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ دوستی اتفاق سے ہوتی ہے اسکے لئے کسی قسم کی منصوبہ بندی یا پلاننگ نہیں کی جاتی اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ دوستی کسی اجنبی سے ہو بلکہ اپنے فیملی ممبر،رشتہ دار، ہمسایہ ،کولیگ وغیرہ سے بھی ہو سکتی ہے یہ بھی سچ ہے کہ دوستی کی شروعات میں کسی اجنبی پر اعتبار کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن چند ملاقاتوں میں دو طرفہ گفت وشنید کے بعد ایک دوسرے کو سمجھنے کے بعد انسان فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا یہ دوستی مختصر مدت رہے گی یا طویل مدت۔دوستی نام کی ہی نہیں دو جسموں اور ایک جان کا بھی نام ہے کیونکہ دوستی میں ناپ تول نہیں ہوتا ،دوستی محبت کی مشعل کہلاتی اور مثال بن جاتی ہے۔دوستی مشکل حالات میں امتحان بھی لیتی ہے ۔یونانی فلسفی ارسطو کا کہنا ہے دو جسم اور ایک روح کا نام دوستی ہے کیونکہ یہ ایک ایسے گہرے رشتے اور تعلق کا نام ہے جو بہت قیمتی اور نایاب ہے۔
آج کل دوستی صرف نام کی ہی رہ گئی ہے خاص طور پر مردوں کے لئے دوستی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کسی اجنبی سے دوستی کرنا جان جوکھم کا کام بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ہر انسان نے ایک نقاب پہن رکھا ہے چہرے پہ چہرہ سجا رکھا ہے اوراسی لئے اصلیت پہچاننے میں دقت پیش آتی ہے کسی کو حال دل سنانا تو دور کی بات ہے دوستی کے آغاز میں ہی کئی مشکلات در پیش آتی ہیں کیونکہ عام طور پر آج کی دوستی صرف کھیلوں، جاب ،ملکی مسائل ، سیاست، غربت،بیماری اور دیگر ان گنت مسائل تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ایسے میں کون کسی کو کیا سنائے اور کوئی کیا سنے گااور شاید ایک خاص وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوگ دوستی کرنے سے اس لئے بھی کتراتے ہیں کہ دو چار روز بعد مجھ سے مالی امداد نہ طلب کرے وغیرہ،جبکہ دوسری طرف دوستی کرنے میں خواتین نمبر ون ہیں وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر بے دھڑک ہو کر بات کا آغاز کرتی ہیں اور چند منٹوں میں ایک دوسرے کے خیالات جاننے کے بعد کسی پر بھی تنقید و طعنہ دینے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں کئی گہری اور خفیہ باتوں کے علاوہ رازوں سے بھی پردہ اٹھا دیتی ہیں کشادہ دلی سے ہر موضوع پر بحث مباحثہ کرتی ہیں ان کی دوستی میں بہت کم دراڑ یں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی دوستی میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
کیونکہ موجودہ دور میں خواتین ماڈرن ہونے کے ساتھ اوپن مائنڈ ہو چکی ہیں کھلے عام اپنی گھریلو لائف ، شوہر ،بچوں، ہمسایوں، جنسی معاملات، تعلیمی مسائل، ناکامی، خواہشات، تلخ کلامیوں اور علیحدگی جیسے نازک موضوعات پر بغیر شرم و جھجھک کے بات چیت کرتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے انیس سو ساٹھ میں خواتین کی دنیا انکی فیملی ہوا کرتی تھی جبکہ آج کی عورت کیلئے نت نئی مصنوعات،چمک دمک اور میڈیا انکی دنیا نمبر ون ہے اور فیملی کا شمار نمبر دو ۔علاوہ ازیں آج کی دوستی طویل مدت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ وقت کی کمی اور میڈیا نے دوستی جیسے مضبوط اور عظیم رشتے میں دراڑ ڈال دی ہے آج کا انسان انسان سے کم مادہ اور مفاد پرستی کے زیادہ قریب ہوگیا ہے۔
جس سے وقتی طور پر خوشی تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن سکون اور صحت نہیں۔ مثلاً فیس بک پر اگر کسی کے چار سو دوست ہیں تو کیا واقعی وہ اجنبی اور انجانے لوگ دوستی کے قابل ہیں ،فیس بک کے بانی مارک زوکر برگ نے ایک سوال کے جواب میں واضع طور پر کہا کہ جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ فیس بک پر اسکا کوئی دوست ہے تو وہ دوستی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔بات سچ تو یہ بھی ہے کہ وقت اور حالات نے انسان کو اس قدر تبدیل کر دیا ہے کہ دوستی جیسے الفاظ اب کتابوں کے اوراق میں دفن ہو چکے ہیں اور کتابوں کا مطالعہ کرنے کا آج کل کسی کے پاس وقت نہیں۔