26 فروری کو صبح 3 بجے انڈین ائر فورس کے میراج لڑاکا طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود میں لائن آف کنٹرول سے 4 ناٹیکل میل آگے نکل کر جو سرجیکل سٹرائیک کی ہے، اس کی تفاصیل سے تو آپ بہت حد تک آگاہی پا چکے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی آپ سے پوشیدہ نہیں ہوگی کہ پلواما حملہ جو 14 فروری کو ہوا تھا اس کے بعد 26 فروری تک کے 12 دنوں میں جہاں انتہا پسند ہندوؤں نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، وہاں انڈیا میں ایسے لوگ بھی تھے جو مودی کو صبر اور برداشت کی تلقین کر رہے تھے۔ ان میں جج، جرنیل اور صحافی حضرات کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اس واقعہ سے ایک روز پہلے میں ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ میں ایک سکھ صحافی ہرتوش سنگھ بال کا ایک کالم پڑھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اس انگریزی روزنامے میں تو پاکستان کے خلاف اور انڈیا کے حق میں سٹوریاں چھاپنے کی ایک طویل روائت ہے تو نجانے اس اخبار نے اپنی روائت سے انحراف کرکے آج مودی جی اور مودی سرکار کے خلاف ہرتوش سنگھ کا یہ آرٹیکل کیسے چھاپ دیا۔ آپ اگر گوگل پر جا کر ’’دی کارواں میگزین‘‘ کے تازہ شمارے کا مطالعہ کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ اس ماہنامے کا پولیٹیکل ایڈیٹر (ہرتوش) کس بے باکی اور صاف گوئی سے کام لے کر بی جے پی اور مودی کی پاکستان دشمنی اور کذب بیانی کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ میں ایک عرصے سے (نیٹ پر) اس میگزین کا قاری ہوں اور ہرتوش سنگھ اور دوسرے میگزین سٹاف کی رپورٹنگ کی داد دیتا رہتا ہوں۔۔۔ میں نے مناسب سمجھا ہے کہ اس کالم کا اردو ترجمہ قارئین کے سامنے رکھوں اور ان کو بتاؤں کہ مودی اور اس کی پارٹی نے پلواما کا جو ڈراما رچایا ہے وہ 17برس پہلے بھی اسی ماہ (فروری 2002ء میں) اس کا اولین شو صوبہ گجرات میں کر چکا ہے۔۔۔
ہرتوش سنگھ بال کے کالم کا آخری پیراگراف، اس کے کالم کا لب لباب بھی ہے اور مودی کے ’’آئندہ پروگرام‘‘ کا نقاب کشا بھی ہے۔ ’’14 فروری کا دن تھا کہ 19 برس کے ایک نوجوان نے مقبوضہ کشمیر میں نیم مسلح افواج کی ایک کانوائی پر بارود سے بھری ایک گاڑی ٹکرا دی جس کے نتیجے میں 49 سولجرز مارے گئے۔ جیشِ محمد (محمد کی فوج) پاکستان کا ایک دہشت گرد گروپ ہے، اس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان پر حکمرانی کر رہی ہے اور کشمیر پر بھی اسی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس طرح وہ اس متنازعہ اور لڑائی جھگڑوں سے بھرپور ریجن کی پالیسیوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ مسٹر مودی نے یہاں بھی عسکری اپروچ اپنا رکھی ہے اور علیحدگی پسند کشمیریوں سے مذاکرات سے نفور ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندوستانی کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں اور سویلین شہریوں کے مارے جانے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان کشمیری، اس عادل ڈار کی طرح کہ جس کی عمر محض 19 سال تھی، عسکریت پسند گروپوں کو جوائن کر رہے ہیں۔یہ حقائق مسٹر مودی کے لئے اضطراب پیدا کر رہے ہیں کہ کئی گروپ انڈیا کی اپوزیشن پارٹیوں پر حملے کر رہے ہیں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے سلسلے میں شورشیوں کے بارے میں دلوں میں نرم گوشہ رکھ رہے ہیں۔ سولجرز کی اموات کا یہ حادثہ انڈیا میں عام انتخابات سے تین ماہ پہلے پیش آیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ یہ مسٹر مودی کی ناکام پالیسیوں کے لئے ان کو قابلِ مواخذہ گردانتا اور ذمہ دار ٹھہراتا۔ لیکن لوگوں کے دلوں میں اٹھنے والے یہ سوالات پلوامہ حملے کے تناظر میں دب کر رہ گئے اور ان کے دل و دماغ پر سوگواری کی فضا طاری ہو گئی ہے۔لیکن اس سے پہلے کہ اس سوگوار فضا کی گرانباری مدھم پڑتی اور عوام مسٹر مودی سے وہ سوالات پوچھتے جن کے جواب ان کے لئے مشکل ہو جاتے مسٹر مودی نے اس ماتمی ماحول کو اپنے سیاسی فائدے میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور غم و یاس کے اس منظر کو اپنے سولجرز کی اموات کے لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ انڈین ٹیلی ویژن چینلوں پر بھارتی پرچموں میں لپٹے مقتول سپاہیوں کی لاشیں جب اپنے آخری سفر پر روانہ ہو رہی تھیں تو مسٹر مودی کی پارٹی نے اپنے سینئر لیڈروں کو ہدایت کی کہ وہ ان سولجرز کی تجہیز و تکفین اور آخری کریا کرم میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوں۔ یہ رسومات ان ٹی وی چینلوں پر لائیو دکھائی جا رہی تھیں۔ ان جنازوں اور ارتھیوں میں شریک لوگوں کی آہ و بکا کچھ تو جینوئن تھی اور کچھ جان بوجھ کر پیدا کی جا رہی تھی۔ مسٹر مودی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف مذمت کی ایک مہم شروع کر دی اور کہا کہ: ’’ انڈیا اس حملے کا فوجی انتقام ضرور لے گا۔ میں نے مسلح افواج کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ عوام کا خون ابل رہا ہے!‘‘سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پر ریٹائرڈ ملٹری جرنیل ’’نمودار‘‘ ہونے لگے (مثلاً جنرل جی ڈی بخشی مسٹر مودی کی آواز میں اپنی آواز شامل کرنے لگے اور اس حملے کو پاکستان کی طرف سے ایک اعلان جنگ قرار دینے لگے اور کہنے لگے: ’’پاکستان نے یہ جنگ شروع کی ہے تو اب ہم اس کو ختم کریں گے‘‘۔
ہندوستان میں کرکٹ کلب آف انڈیا انگریز کا ورثہ ہے اور 1933ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس نے بھی ’’حقِ نمک‘‘ ادا کیا اور اس کے ہال میں لگی عمران خان کی تصویر وہاں سے ہٹا دی۔ ان کی یہ تصویر گزشتہ صدی میں عمران خان کی کرکٹ کی دنیا میں بے مثال کارکردگی کے اعتراف میں آویزاں کی گئی تھی۔پھر اس ماتمی نقطہ ء نظر نے ایک اور بھیانک موڑ لیا اور مسلح بلوائیوں کے گروپ ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے شہروں کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے۔ ان شہروں میں ملک کا دارالحکومت دہلی بھی شامل تھا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کرکر کے گویا دھوم مچا دی۔ ان ہندو قوم پرستوں کا نشانہ وہ ہندو آزاد خیال (لبرل) طبقات اور وہ مسلمان تھے جو مسٹرمودی کے سیاسی مخالفین میں سے تھے۔ہندو قوم پرستوں کے بہت سے دھڑوں نے ان کشمیری مسلمان طلباء اور طالبات کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا جو ہندوستان کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھے اور بعض کالجوں کے کرتا دھرتا لوگوں کو دھمکیاں دیں کہ وہ کشمیری مسلمانوں کو اپنے کالجوں میں داخلے سے انکار کر دیں۔ یہ جلسے جلوس اور کشمیری طلباء کے خلاف یہ دھمکیاں، مسٹر مودی کے اپنے اتحادیوں کو بھی دی گئیں۔ شوسینا کے ایک اخبار میں جو ممبئی سے شائع ہوتا ہے اور پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے، اس کے ایک اداریہ میں وزیراعظم کو انتباہ کیا گیا کہ : ’’آپ پر سیاسی الزامات ہیں کہ آپ آنے والے الیکشنوں میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر پاکستان کے خلاف ایک چھوٹی جنگ بھی شروع کر سکتے ہیں۔۔۔ حکمرانوں کو اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے ان الزامات کو بڑھاوا ملے اور ان کو سچ سمجھا جانے لگے‘‘۔مسٹر مودی کا ’’ہندوستانی شہدا‘‘ کی اوٹ میں سیاست کرنا انڈیا کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن جس سکیل پر ہم آج اس ’’وبا‘‘ کو دیکھ رہے ہیں ویسی فضا 1999ء میں کارگل وار کے بعد بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ گزرے ہوئے دو عشروں میں ، انڈین فورسز بھی گاہے گاہے شورشیوں کے شدت پسندانہ حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں اور بعض حملوں میں تو کافی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔۔۔ لیکن اب وہ زمانہ گزر چکا ہے۔مسٹر مودی اور ان کی پارٹی ان سولجرز کی ہلاکتوں کو اپنے فائدے کے لئے اُسی طرح استعمال کرتی نظر آ رہی ہے جس طرح وہ پہلے بھی کر چکی ہے۔فروری 2002ء میں جب مسٹر مودی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو مسلمانوں کے ایک گروپ پر الزام لگایا کہ انہوں نے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ہندو یاتریوں کی ایک ٹرین پر حملہ کر دیا ہے۔اس حادثے میں 59 افراد مارے گئے تھے۔ مسٹر مودی نے حکم دیا کہ ان مرنے والوں کی لاشیں گجرات کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر احمد آباد لے جائی جائیں اور ان کو شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرایا جائے اور ہندوؤں کے جذبات ابھارے جائیں۔اس کے بعد جلد ہی شدت پسندوں کی طرف سے فسادات شروع ہو گئے۔ بی جے پی کے لیڈروں نے زہرناک تقریریں کرکے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف ایک آگ لگا دی۔ ان کے گھروں کو نذرآتش کیا گیا اور ان کے کاروبار تباہ کر دیئے گئے۔۔۔ مرنے والوں کی تعداد 1000 تھی جس میں 700 مسلمان تھے۔ان فسادات کے چند ماہ بعد ریاستی الیکشن ہوئے تو مسٹر مودی نے اپنی تقریروں میں مسلم دشمنی کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا اور کہا کہ اگر یہ مسلمان یہاں گجرات صوبے میں موجود رہے تو اب اگرچہ اقلیت میں ہیں لیکن جلد ہی اکثریت بن جائیں گے۔اس لئے ان کو پاکستان بھیجنا پڑے گا۔ کشمیر، ہندوستان کی واحد ریاست ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں بھی مودی اور ان کی پارٹی کے لیڈرکشمیر کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جو وہ گجرات کے بارے میں کہتے آ رہے ہیں۔مسٹر مودی اس سیاسی مہم پر اپنے عروج پر دیکھے جا سکتے ہیں جس میں فرقہ واریت مرکزی موضوع ہوتی ہے اور معاشرے کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ پلواما کے حملے سے پہلے ان کو اپوزیشن کی طرف سے ایسے سوالوں کا سامنا تھا جو ملک میں بے روزگاری سے متعلق تھے۔ ہندوستان میں بیروزگاری گزشتہ 45 برسوں میں آج جس عروج پر ہے، پہلے کبھی نہ تھی اور ہندوستانی دیہات کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ ان کی پارٹی مدھیا پردیش اور راجستھان میں انتخابات میں شکست کھا چکی ہے اور اس ناکامی کی وجہ ان ریاستوں میں زرعی شعبے کی حالتِ زار ہے۔آنے والے عام انتخابات میں اپوزیشن پارٹیاں اور کانگریس پارٹی، بی جے پی کو ٹف ٹائم دینے والی ہیں جس کو مسٹر مودی اب اس پلواما کے حملے کی اوٹ میں چھپانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی شائد اتفاق ہی ہو کہ اس پلواما حملے میں جو سولجرز شہید ہوئے ان کی اکثریت نچلی جاتی والوں میں سے تھی یا ایسی مڈل کلاس سے تھی جو دیہاتی پس منظر کی حامل تھی۔ جبکہ مسٹر مودی کے حامیوں کی اکثریت اونچی جاتیوں اور شہری علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ایک اور بات جو شائد بہت سے قارئین کے علم میں نہیں وہ یہ ہے کہ سی آر پی ایف کی پیرا ملٹری فورس ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے پاس مطلوبہ ساز و سامانِ جنگ بھی موجود نہیں اور نہ ہی وہ عددی اکثریت ہے جو ان کے فرائض منصبی بجا لانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ 1999ء میں میں صوبہ پنجاب میں ایک صحافی رپورٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔میں نے اس کارگل وار میں شہید ہونے والے سولجرز کی آخری رسومات کی کوریج کی تھی جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی تھی۔ ہر شہید سولجر کی ارتھی کے ساتھ اس کی یونٹ کا ایک ایک جوان بھی تھا۔وہ سب جوان حکومت کے خلاف نہایت غصے میں تھے اور اس بات پر سخت برہم تھے کہ فوج نے ان کو یخ بستہ ہمالیائی چوٹیوں پر لڑنے کے لئے تو بھیج دیا تھا لیکن نہ ان کے پاس موسم سرما کی وردیاں تھیں اور نہ برفانی موسم میں جنگ لڑنے کا ساز و سامان اور اسلحہ تھا۔وہ اپنا نام، رینک اور یونٹ بتا بتا کر مجھے اپنا حالِ زار سنا رہے تھے۔ میں نے جب ان کی سٹوریاں لکھ کر اپنے ایڈیٹرز کو بھیجیں تو انہوں نے شائع کرنے سے صاف انکار کر دیا اور دلیل پیش کی کہ یہ وقت نہیں کہ اس قسم کی باتوں کی رپورٹنگ کی جائے کیونکہ ایسا کرنا ’’قومی مفادات‘‘ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ مسٹر مودی کے انڈیا میں اس وقت بھی انہی شہادتوں کا موسم ہے اور ملک بھر کے ایڈیٹرز اپنے رپورٹروں اور صحافیوں کو وہی کچھ بتا اور سنا رہے ہیں اور وہ حقائق اور وہ سوالات شائع / براڈ کاسٹ نہیں کر رہے جو ان کو اپنے رپورٹروں سے موصول ہو رہے ہیں۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا کرنا قوم کے مفاد میں ہے یا نہیں ہے لیکن یہ یقینی طور پر مسٹر مودی کے مفاد میں ہے!