counter easy hit

انسان سے جانور تک

چند برس پہلے کی بات ہے سردیوں کے یہی دن تھے اور میں نے سردی سے لطف اٹھانے کے لیے گاؤں سے لاہور آنے سے انکار کر دیا تھا۔ گاؤں میں دن کے وقت دھوپ نکلتی نہیں چمکتی تھی اور گاؤں کی ایک پرانی عادت کے مطابق دھوپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کسی دیوار کی اوٹ میں بیٹھنے میں جو لطف آتا تھا وہ لاہور کے کسی ریستوران کی نشست میں کہاں۔ گاؤں میں قیام ذرا طویل ہو گیا تو سردی نے جو پہاڑوں سے آہستہ آہستہ اتر رہی تھی بالآخر گاؤں میں ڈیرے ڈال دیے اور گلی کوچوں میں انسانوں کی طرح سستانے لگی۔

موسم کی اسی کیفیت میں ان دنوں اتفاق سے میں بھی گاؤں میں تھا۔ پہاڑوں میں گھرے گاؤں میں سردی عروج پر تھی لیکن اس کا ایک قدرتی علاج دھوپ تھی جو کسی دن نکل آتی تو سردی بھی انسانوں کی طرح دھوپ میں سستانے لگتی تھی۔ ہمارے پہاڑی گاؤں میں دھوپ کے دنوں میں ہر فارغ دیہاتی چمکتی دھوپ کے سامنے کسی دیوار کے سہارے بیٹھ جاتا۔ یہ دیوار اس سرد ہوا کو بھی روکتی جو کسی گاؤں میں دندناتی ہوئی بلاتکلف داخل ہوتی اور اپنے ساتھ پہاڑوں کی ٹھنڈ بھی لیتی آتی۔ اس ٹھنڈ کا مقابلہ اس قدرتی دھوپ سے کیا جاتا جو بادلوں کے آرام کے وقت خاموشی سے زمین کی طرف اتر آتی اور ٹھٹھرتے ہوئے ماحول میں کچھ حرارت پیدا کر دیتی۔

ایسے ہی ایک نیم گرم دن میں دیوار کی اوٹ میں بیٹھا ہوا اور یخ ہوا سے بچتا ہوا دھوپ سینک رہا تھا، سخت سرد موسم میں اتفاق سے دھوپ کو سامنے پا کر میں نے جسم پر صرف ایک سویٹر باقی رہنے دیا۔ دھوپ کی گرم کرنیں سویٹر کے سوراخوں سے گزر کر جسم تک پہنچ رہی تھیں لیکن ان میں تندی وتیزی نہیں تھی چنانچہ میں یہ سب دیکھ کر شیر ہو گیا اور پہاڑوں کے سرد حلقہ میں گھرے ہوئے گاؤں کی ایک دیوار کی اوٹ میں ٹانگیں پسار کر سستانے لگا لیکن گاؤں کی اس سرد ہوا کی پروا نہ کی جو گرد وپیش میں آزادانہ گھوم پھر رہی تھی۔

میں سرد ہوا کو روکتی ہوئی دیوار اور سامنے کے کھلے منظر میں پھیلی ہوئی دھوپ میں خود کو محفوظ سمجھنے لگا لیکن پہاڑوں کی ہوا نے اپنے ہاتھوں میں کھلائے اور کھیلے ہوئے اپنے اس لاڈلے کی پروا نہ کی اور ہوا کے سرد جھونکوں کے حوالے کر دیا۔ تب تو پتہ نہ چلا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ میں اس وقت ہلکے سے نمونیے کا شکار ہو چکا تھا۔ اسی کیفیت میں طے شدہ پروگرام کے مطابق لاہور پہنچا۔ سینے میں بے چینی کی وجہ سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے قریب ایک بیڈ پر لٹا دیا اور باقاعدہ مریض بنا دیا۔

جاڑا اپنے عروج پر تھا لیکن میں مہربان ڈاکٹروں کے تحفظ میں۔ یہ حادثہ ’’ایکسپریس‘‘ میں شمولیت کے ابتدائی دنوں میں ہی پیش آ گیا چنانچہ نئی جاب کا آغاز اسپتال کے بستر سے کیا گیا لیکن آج کے دور میں اگر علاج درست ہو تو بیماری کے ایسے دھکے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مجھے نمونیہ تھا یا نہیں تھا میں نے اس بارے میں ڈاکٹر سے نہیں پوچھا لیکن اسپتال والوں نے مجھے نمونیے کا مریض بنا کر رکھا اور اس کا علاج بھی کیا۔

چند دن بعد میں جیسے ہنستے کھیلتے اسپتال میں داخل ہوا تھا ویسے ہی ہنستے کھیلتے باہر بھی آ گیا اور دفتری کام شروع کر دیا۔ آپ کی طرح میں بھی بیمار ہوا کرتا ہوں بلکہ بعض بیماریوں کا تو مستقل شکار ہوں لیکن میں ان کا علاج نہیں کرواتا کیونکہ مجھے اب آج کے زمانے میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ چھوٹے بڑوں کے دو تین چہرے دیکھ کر مزید زندگی کی خواہش ذرا بھر کے لیے جاگتی ہے لیکن ایک تو یہ میرے یا کسی کے بھی بس میں نہیں ہے اس لیے کسی ایسی خواہشوں کو جو آپ کے بس میں نہ ہو اس سے بچ کر رہنا ہی اچھا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ قدرت نے انسانوں کی بیماریوں کا علاج بھی انسانوں کو بتا دیا ہے۔

اس سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے بلکہ انسان کیا قدرت نے تو جانوروں کی بیماریوں کا علاج بھی بتا دیا ہے اور مویشیوں کے اسپتال بن گئے ہیں جہاں ڈاکٹر ’’مریضوں‘‘ کا علاج کرتے ہیں۔ میں ایک بار اپنا ایک پالتو جانور علاج کے لیے لے گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے انسانوں کی طرح اس کا علاج کیا۔ اسے باقاعدہ بیڈ پر لٹا دیا گیا یعنی ایک کِلّے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ دو دن علاج جاری رہا اور تیسرے دن مریض کو ڈسچارج کر کے اس کی باگ مجھے پکڑا دی گئی۔

بات سردی اور اس کے برے اثرات سے شروع ہوئی تھی، جانور اگرچہ خود کچھ نہیں بتا سکتا لیکن اس کا علاج لازم ہے اور قدرت نے انسانوں کو یہ فرض سونپا ہے کہ اگر وہ کسی جانور کو اپنی نگرانی میں لے لیتے ہیں تو پھر اس کا تحفظ ایک انسان کی طرح کرنا لازم ہے۔ شہروں کی زندگی کا تو مجھے زیادہ تجربہ نہیں لیکن دیہات میں کسی جانور کا علاج بڑی محنت اور خصوصی توجہ سے کیا جاتا ہے کہ وہ بے زبان ہے اور نہ صرف بے زبان ہے بلکہ کسی انسان سے زیادہ مفید بھی ہے اور ایک قیمتی شے ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website