پاکستان میں ” حکمراں اور “ان سروس سیاستدان مکمل سوفیصد صحت مند ہوتے ہیں؟ دوران سیاست انہیں کسی قسم کی بیماری کا سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر نصیب دشمناں انہیں کسی قسم کی عدالتی کارروائی عرف عام میں ” انتقامی کارروائی” کا سامنا ہوجائے تو فوراً ان کی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے اور ایسی ہوتی ہے کہ ہسپتال میں رہائش کے علاوہ کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ یوں جیل کاٹی” ہسپتال” میں جاتی ہے اور اس ظلم کی داستان ایسی سنائی جاتی ہے کہ سننے کے بعد عوام کی آنکھوں سےنا رکنے والا آنسوؤں کا سیلاب روا ںہوجاتا ہے۔ سیاستداں ہشاش بشاش ہوجاتے ہیں۔ لیکن عوام غمگین ہی رہتے ہیں۔ اس بیماری کے معاملے میں سارے سیاستدانوں میں ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ آمر ہوں یا پی پی پی سے یا ن لیگ سے یا ق لیگ سے لیکن بروقت آنے پر سب ہی شدید بیمار ہوجاتے ہیں۔ اور اچھے وقتوں میں صحت مندوتوانارہتے ہیں۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں کہ جنہوںنےا قتدار میں رہتے ہوئے ” ملک کو بچایا” ہوتا ہے۔ وہ ملک جو ان کے بغیر تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے۔ جہاں ان کے مطابق ملک کی “ترقی نہیں تنزلی “ہو رہی ہوتی ہے۔ عوام پس رہی ہوتی ہے۔ ان کے اقتدار میں آتے ہی دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ غربت ختم ہوجاتی ہے اور عوام کو ہرطرح کی سہولتیں ان کے دروازے
تک آموجود ہوتی ہیں، لیکن! افسوس ایک غلطی ان سارے حکمرانوں سے ہوئی ہے کہ آج تک وہ ملک کی ” اشرافیہ ” کے لیے ” قابل قدر ہسپتال” نہ بناسکے۔ جہاں ان عظیم سیاستدانوں وآمر کا علاج ہوسکتا۔ ان سب نے عوام کو ساری سہولتیں فراہم کیں لیکن اپنے لیے کوئی آسانی پیدا نہ کی۔ اسی لیے ان کی اولادیں مجبوراً باہر رہتی ہیں یا باہر ہی سے پڑھ کر آتی ہیں کہ عوام کے لیے تعلیم کی سہولت فراہم کرتے کرتے وسائل ہی نہ بچے کہ اپنے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے کھول لیتے۔ اوراب۔۔ایک گزارش ہے کہ سچ بولیں عوام سے بھی اور اپنے آپ سے بھی کہ کہیں سچ مچ بیمار نہ ہوجائیں!اب” تبدیلی “کا انتظار ہے کہ کیا تبدیلی آتی ہے؟