تم کتنے بھٹو مارو گے، گھر گھر سے بھٹو نکلے گا؛ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے؛ جئے بھٹو صدا جئے… یہ تمام نعرے صرف نعرے ہیں یا پھر کوئی حقیقت یا فلسفہ؟ یہ جاننے کےلیے میں تاریخ کے اوراق میں گم ہوگیا۔ اور جیسے ہی میں نے شہداء کی تاریخ کا پہلا ورق پلٹا تو مجھے سقراط، منصور، سرمد، میکو، الاندے، چی گویرا، سویکارنو، جمال عبدالناصر اور عمر مختار کے ناموں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کا نام بھی جگمگاتا نظر آیا۔
یہ سب بڑے لوگ تھے جنہوں نے اپنے اصولوں اور مظلوموں لاچاروں کےلیے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی اور ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اسلامی دنیا کے ایک عظیم ہیرو تھے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرکے مسلم دنیا کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔
اپریل کے مہینے میں، جب اللہ تعالیٰ پنجاب کو دلہن کی طرح حسن سے نوازتا ہے، محنت کشوں اور دہقانوں کی محنت کی بدولت فصلیں اپنے حسن کی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں، باغات میں نئے نئے پھول اور کونپلیں بہار کے موسم کا جھومر بنتی ہیں، پرندے نئی توانائی کے سا تھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں پہاڑوں کی برف پگھل کر دریاؤں کو روانی بخشتی ہے اور دہقان اپنی فصل کاٹنے اور اپنی محنت کا ثمر پانے کے منتظر ہوتے ہیں۔
ایسے میں ایک آمر جنرل ضیاء الحق نے ملک کو ایک عظیم ہستی اور عظیم لیڈر سے محروم کردیا۔ اس عظیم ہستی اورعظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو جسے جنرل ضیاء الحق کے حکم پر راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں قید رکھا گیا تھا اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر اس کے حوصلے شکستہ کرنے کی کو شش کی جارہی تھی مگر اس کے حوصلے بلند تھے جس کے با عث فوجی حکام نے انہیں اچانک پھانسی دیئے جانے کی خبر سنائی۔ لیکن اس بلند ہمت انسان نے اپنے حوصلے بلند رکھتے ہوئے، اپنی بیوی نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو سے آخری ملا قات کی خوا ہش ظاہر کی۔
بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو جو اس وقت سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند تھیں، 3 اپریل کو شہید بھٹو سے ان کی ملاقات کرائی گئی جو نصف گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اس دوران بھی بھٹو شہید انتہائی پر عزم حوصلے کے سا تھ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اہم امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے، بلکہ انہیں دلاسے بھی دیتے رہے۔ ملاقات کا وقت ختم ہوا، دونوں ماں بیٹی انتہائی غمزدہ انداز میں باہر آئیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کے ما تھے پر کوئی شکن تک نہیں آئی۔
انہوں نے حسب معمول شیو اور غسل کیا، کپڑے پہنے اور پھانسی کے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ کیونکہ بہار کے موسم میں پھانسی کا وقت صبح 4 بجے متعین ہے لہٰذا وہ عبادت میں مشغول ہوگئے۔ اچانک رات کے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل چوہدری یار محمد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سید مہدی، مجسٹریٹ درجہ اول بشیر احمد خان، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس راولپنڈی جہاں زیب برکی دبے قدموں کال کوٹھری میں آئے اور انہیں پھانسی گھاٹ کی جانب لے گئے۔ اور پھر ٹھیک رات کے دو بجے میڈیکل افسراصغر حسین کی موجودگی میں جلاد تارا مسیح نے صرف دس روپے کے معاوضے پر اس عظیم شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔
پھانسی کی خبر کو خفیہ رکھا گیا اور پھر فوجی حکام نے تدفین کی تیاریاں شروع کردیں۔ میت کو جیل میں غسل دیا گیا اور اسے تابوت میں بند کرکے ایئرفورس کے میڈیم رینج طیارے سی 130 کے ذریعے سکھر ایئرپورٹ روانہ کردیا گیا۔ پائلٹ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کے جہاز میں ذوالفقار علی بھٹو کی میت ہے۔
لیکن اسے جیسے ہی اس بات کا پتا چلا تو اس نے میت کو آگے لے جانے سے انکار کرتے ہوئے، جہاز کو سرگودھا میں لینڈ کردیا جہاں سے ایک اور پائلٹ نے جہاز کو سکھر پہنچایا۔ پھر سکھر ایئرپورٹ سے اس عظیم ہیرو کی میت دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے (جن میں سے ایک پر فوجی حکام سوار تھے اور دوسرے پر میت تھی) گڑھی خدا بخش روانہ کی گئی جہاں فوج نے پہلے ہی غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر رکھا تھا۔ دونوں ہیلی کاپٹرز میت کے ہمراہ صبح سات بجے وہاں پہنچے۔ وہاں کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر سلیم تھے جنہوں نے بھٹو خاندان کے اہم رکن مظفر علی بھٹو سے میت کی تصدیق کروا کر صرف دس منٹ میں میت کی تدفین کا حکم دیا۔ مگر چونکہ بھٹو شہید کی پھانسی اور میت آنے کی خبر گاؤں بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی، لہٰذا لوگ تمام پابندیاں توڑ کر گھروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے فوجی حکام پر زور دیا کہ ہم میت کو اپنی روایت کے مطابق دفن کریں گے۔
بالآخر فوجی حکام گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے جس کے باعث جسد خاکی کو زنان خانے میں لے جایا گیا جہاں شیریں امیر بیگم، مظفر علی بھٹو، مولا بخش بھٹو اور بھٹو شہید کے مینیجرعبدالقیوم خان نے میت کا آخری دیدار کیا۔ بقول عبدالقیوم خان، بھٹو شہید کی گردن پر پھانسی کے آثار کے بجائے سینے اور گردن پر زخم کے نشانات تھے۔ پھر زنان خانے میں آخری دیدار کے بعد مولانا محمود علی بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی اور باوجود پابندیوں کے جنازے جس میں لگ بھگ 1500 افراد نے شرکت کی اور ٹھیک ساڑھے دس بجے دن شہید بھٹو کو لحد میں اتار دیا گیا۔
ملک کے عوام اس بات سے بے خبر تھے کہ اچانک ریڈیو سے بھٹو کی پھانسی کی خبر نشر ہوئی اور ایک مقامی اخبار کا ضمیہ مارکیٹ میں آگیا، جس کے بعد ملک کے کونے کونے میں آگ لگ گئی اور فسادات پھوٹ پڑے؛ جبکہ ملک کے ہر شہر، ہر قصبے میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جانے لگی۔
لوگ شہید بھٹو کے عشق میں خود سوزیاں کرنے لگے۔ حالات فو ج کے کنٹرول سے باہر ہوگئے جس کے باعث فوج نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کردیں اور صرف ایک ہی روز میں ملک کے مختلف حصوں سے 5000 سے زا ئد پیپلز پارٹی، سپاف اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کو گرفتار کرکے ان پر جبر و تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا۔
مگر چونکہ بھٹو شہید نے اپنے کارکنان کو سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کا درس دیا تھا، لہٰذا کا رکنان ننگی پیٹھوں پر کوڑے کھا کر جئے بھٹو کے نعرے بلند کرتے رہے۔ جبکہ وہ کارکنان جنہیں مارشل لاء کورٹ نے پھانسی کی سزائیں سنائیں، وہ بھی جئے بھٹو کے نعرے لگا لگا کر تختہ دار پر جھولنے لگے اور اس طرح شہیدوں کا یہ کاروا ں چلتا رہا، قافلہ بنتا رہا۔ ملک میں صرف پیپلز پارٹی کو یہ اعزازحاصل ہوا کہ جمہوریت کی راہ میں سب سے زیادہ اسی کے کارکنان نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب قیادت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے سنبھالی تب بھی پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی جانب سے ملک کے غریب عوام اور جمہوریت کےلیے شہادت کے نذرانے پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اب تک ذوالفقار علی بھٹو شہید، شاہنواز بھٹو شہید، میر مرتضیٰ بھٹو شہید، محترمہ بینظیر بھٹو شہید، ناصر بلوچ، ایاز سموں، فقیر اقبال ہسبانی، محمد سلیم بلوچ، قادر پٹھان، محمد علی جاکھرانی، منظور جسکانی، غلام حیدر کھوسو، اقبال مدد، سلیم مدد، ارشاد احمد کلوڑ، لالہ اسد، علی محمد ہنگورو، عبدالغفور منگریو، اسلم شیخ، غلام قادر جاکھرو، الیاس صدیقی، رحمت اللہ انجم، پیر غلام علی قریشی، غلام رسول ہنگورو، اکبر شاہ عاشق حسین جتوئی، رضوان احمد، نجیب احمد، یار محمد بلوچ، غلام مرتضی میرانی، عبدالرحیم بروہی، وجاہت جوکھیو، عبدالستار بلوچ، احمد علی سومرو، عبدالقادرراجپر، نیک محمد کھوسو، مظہر بھٹی، نواز لاکھو، ادریس طوطی، سکندر چا نڈیو، عثمان غنی، نیاز جوکھیو، ادریس بیگ، ثناء اللہ شاہ، منور حسین سہروردی، عبداللہ بلوچ، قمر قاطمی، اقبال ماما، عابد ایڈووکیٹ، دھنی بخش امروٹی، عزیزاللہ اجن، زبیر جمالی، ایم جاوید، اعجاز حیدر، ولی ترک محمد، اعجاز احمد اجی، غازی صلا ح الدین، اقبال پٹیل، طفیل بلوچ، امیر خان بروفت، محمد یوسف چاکی، باسط بلوچ، انور بلوچ، زاہد سعید، عبدالشکور، عبدالخالق بلوچ، علی محمد، ابراہیم شوکت عرف حاجی، ساجد بلوچ، حنیف جٹھ، عبدالقیوم، نذیر عالم، اللہ بخش بلوچ، اکرم بلوچ، محمد شاہ، نور حسن جوکھیو، زوہیب جمالی، راؤ کلیم، انور ایم خان، ناصر گڈو، سہیل رشید، محمد نوشاد، محمد ندیم، محمد جاوید، محمد فضل، اشفاق باپو، صلاح الدین، معراج احمد، مسز آصف خان، رخسانہ فیصل، چوہدری شاہد، علی ایم ملاح، پیار علی کاکا، غلام قا در، احمد حسن، شاہد رضا، احسن، اللہ ڈنو، ندیم، مظہر، نعیم عباسی، بھولو خالد ڈالمیا، کا شف بلوچ، محمدعلی، محمد حسن، ہارون رشید، محمد سیف الدین، محمد محبوب، عامر بلوچ، لیا قت علی، محمد شکیل، ابراہیم باسط، انور بلوچ، عبدالخالق بلوچ، علی محمد، اسحاق شیک عبدالشکور سمیت ان گنت گمنام شہداء اور ہزاروں معلوم و نامعلوم شہداء نے شہید بھٹو کے مشن پر چلتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔
آج ان اور ان جیسے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں شہداء کی بدولت پیپلز پارٹی کو شہداء کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ دیا جائے تو قطعی طور پر بیجا نہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی ملک کی وہ سیاسی قوت ہے جہاں کوئی بھی کارکن کبھی گمنام شہید نہیں ہوا۔ اگر کارکنوں کے نام نہیں معلوم تو انہیں ’’میں بھٹو ہوں‘‘ کا نام دے کر پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے جس کی زندہ مثال 12 مارچ کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیے جانے والے وہ شہداء ہیں جو سانحہ 18اکتوبر میں شہید ہوئے تھے اور جو اعضاء کی صورت میں ناقابل شناخت تھے۔ گڑھی خدا بخش میں ان سب کو اعزاز کے ساتھ ’’میں بھٹو ہوں‘‘ کا نام دے کردفن کیا گیا۔
پھر میری سمجھ میں وہ نعرہ آگیا کے آخر لوگ طویل عر صہ گزر جانے کے با وجود زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے اور جئے بھٹو کے نعرے کیوں بلند کرتے ہیں۔ کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو پا کستان کی تاریخ میں وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے وہ سب کچھ کیا جو صدیوں تک کوئی نہیں کرسکتا۔ زمانہ طالب علمی میں میری وابستگی اسی پارٹی کی طلبہ تنظیم پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے رہی اور باقاعدہ طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کی ہدایت پر پی ایس ایف کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے کئی بار کالج اور کراچی ڈویژن کا عہدیدار منتخب ہوا، اسی نسبت سے میرا اکثر و بیشتر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ آنا جا نا لگا رہتا تھا۔
ابتدا میں ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی قبرستان انتہائی پسماندہ گاؤں میں ہو اکرتا تھا اور آبائی قبرستان میں کچی قبروں کے علا وہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اس قبرستان کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہاں ذوالفقار علی بھٹو شہید جیسی بڑی شخصیت دفن ہیں۔ یہ غالبا 1983 کی بات ہے جب ملک کے اندر آمریت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور اس پارٹی سے واسطہ رکھنے والے کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں نا صرف پابندِ سلاسل کیا جاتا تھا بلکہ انہیں کوڑے مارنے، پھانسی دینے، جلا وطن کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی تھی۔ لاڑکانہ جانے والوں کو ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں پر جگہ جگہ روک کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ مگر ان حالات میں بھی سپاف نے چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکا نہ میں کنونشن منعقد کیا اور ملک بھر سے ہزاروں جیالوں نے باوجود اس کے کہ چانڈکا میڈیکل کا لج کے سامنے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا دفتر ہوا کر تا تھا، میں بھرپور انداز سے شر کت کی۔
وہاں طلبہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور محبت اس وقت دیکھ کر حیران رہ گیا جب طلبا نے بھٹو کے نام پر اپنے سر دیوار پر پٹخ کر پیر و مر شد بھٹو کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ یہ سلسلہ جب ہم گڑھی خدا بخش جانے کےلیے بسوں پر سوار ہوئے اس وقت بھی بدستور جاری رہا جب ہم 3 اپریل کو گڑھی خدا بخش جو کہ ایک پسماندہ گاؤں تھا، پہنچے تو باوجود مارشل لا کی سختی کے مخدوش قبرستان کے سامنے کھیتوں میں چاروں طرف شامیانوں کا شہر آباد تھا، اور ہر شامیانے پر ملک بھر سے آئے ہو ئے قافلوں کے بینرز نصب تھے۔ وہاں گاؤں کے بچے جن کے جسموں پر لباس بھی نہیں تھا، ایک اک روپے میں قہوہ فروخت کر رہے تھے؛ جبکہ شامیانوں کے اندر ہی چھوٹے چھوٹے ہوٹل کھلے ہو ئے تھے جہاں کھانے پینے کی اشیا فروخت کی جا رہی تھیں۔
اس وقت قبرستان کے ساتھ بھٹو خاندان کے دو قدیم بنگلے جو کہ پتھروں سے بنے ہوئے تھے، موجود تھے جن میں ایک مخدوش بنگلے میں گھاس پھوس بچھا کرملک بھر سے آئے ہوئے کارکنان کو لنگر کے چاول کھلائے جاتے تھے۔ جبکہ دوسرے مخدوش بنگلے پر رات گئے مشاعرہ جاری رہتا تھا جس میں شعرائے اکرام شہید بھٹو کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہو تے تھے۔ یہ مشاعرہ را ت بھر جاری رہتا اور 4 اپریل کی صبح برسی کی تقریبات شروع ہو جاتیں، کارکنان قافلوں کی شکل میں بھٹو شہید کے مزار پر چادریں چڑھاتے تھے۔ بعد ازاں آج کے اسی گراؤنڈ جہاں ہیلی پیڈ اور پختہ فرش بنے ہوئے ہیں، یہاں ماضی میں کھیتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا، وہاں ایک بڑا جلسہ عام ہوتا جس سے پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین خطاب کیا کرتے۔
مجھے یہ بات بھی ذرا ذرا یاد ہے کہ چونکہ گڑھی خدا بخش کا علا قہ کھیتوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا، لہذا یہاں لوگوں کے چلنے پھرنے سے اتنی مٹی اڑتی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگ کسی حشر کے میدان میں گھوم رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت پیپلز پارٹی کرا چی کے چیف آرگنائزر فہیم الزماں صدیقی جو کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی بھی رہے، پی ایس ایف کرا چی ڈویژن کو لیڈ کر تے تھے؛ لہذا اس پُرآشوب دور میں گڑھی خدا بخش میں پی ایس ایف کا ہی ایک بڑا استقبالیہ کیمپ لگتا تھا جس میں کراچی یو نیورسٹی، این ای ڈی یو نیورسٹی، داؤد انجینئرنگ کالج اورشہر کے دیگر 52 کالجز کے پی ایس ایف کے کارکنان بھی موجود ہوتے تھے۔ غالبا یہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن یا سپاف جس کے صدر امیر علی ایری ہوا کرتے تھے، کا سب سے سنہرا دور تھا۔