یہ واقعہ لکھ رہا ہوں کہ یہ پنجاب میں ساری صورتحال کا عنوان ہے۔ ایک بہادر اہل اور اہل دل وکیل رانا ندیم سرگودھا میں ایک معصوم اغوا شدہ لڑکی اقصیٰ کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔ کئی عزت مآب جسٹس صاحبان اس کیس کی سماعت کر چکے ہیں۔ تقریباً ایک سال سے بچی کا والد امیر خان انصاف کا منتظر ہے۔ بچی کی ماں کا رو رو کر بُرا حال ہو گیا ہے۔ امیر خان کا تعلق میانوالی سے ہے۔
-15 مئی 2018ء کو سرگودھا میں امین بکڈپو سے اقصیٰ کو اغوا کیا گیا۔ اس کی وڈیو فوٹیج موجود ہے۔ جسے ایک سب انسپکٹر نے غائب کر دیا ہے۔ ڈی پی او سرگودھا سمیت تمام لوگ لڑکی کو بازیاب کرنے میں ناکام ہیں۔ لڑکی کے والد کا تعلق میانوالی وزیراعظم عمران خان کے حلقے سے ہے۔ اس نے ووٹ بھی عمران خان کو دیا تھا۔ لڑکی کی عمر -17 سال ہے۔ اب 18 سال ہو گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ آٹھ ماہ سے اس کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ آئی جی پنجاب کو بھی کئی درخواستیں دی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی درخواستیں دیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ امیر نے ہائی کورٹ لاہور میں ایڈووکیٹ رانا ندیم کے ذریعے مقدمہ کیا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی جان مال عزت کی رکھوالی کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ رانا ندیم کو کہا جاتا رہا ہے کہ لڑکی کو بازیاب کر لیا جائے گا۔
ہر پیشی پر ڈی ایس پی یا کوئی پولیس افسر آتا ہے اور انڈر ٹیکنگ دیتا ہے کہ اگلی تاریخ پر لڑکی کو پیش کر دیا جائے گا۔ کئی بار لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم پولیس افسر کو جیل بھیج دیں گے۔ اگلی تاریخ سے پہلے متعلقہ پولیس افسر کا تبادلہ کردیا جاتا۔ نئی تاریخ پر نیا پولیس افسر عدالت میں پیش ہوتا ہے اور وہ کارروائی کے لیے عدالت سے استدعا کرتا ہے کہ اسے کچھ وقت دیا جائے۔ ایک ہفتے کا وقت دے کر اس سے بھی انڈرٹیکنگ لی جاتی ہے اور کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
سرگودھا کے ایم این ایز‘ افسران اور دوسرے عوامی نمائندے بھی اس کیس میں شامل ہیں۔ والد کو معلوم ہی نہیں کہ لڑکی زندہ ہے یا نہیں۔ اس کیس کی اگلی تاریخ -25 اپریل ہے۔ واضح حکم ہے کہ لڑکی کو ہر صورت میں عدالت پیش کیا جائے۔ سرگودھا کے دو ڈی پی او تبدیل ہو چکے ہیں۔ آر پی او کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ رانا ندیم بہت جذباتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ امیر خان کی بیٹی نہیں ہے۔ میری بیٹی ہے۔ ایک محفل میں لڑکی کے والد امیرخان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی سرگودھا کو طلب کر لیا۔
اس کیس کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ان کیسز میں ایسی ہی صورتحال پیش آتی ہے۔ ایڈووکیٹ رانا ندیم کا مؤقف یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز کے فیصلے نچلی عدالتوں میں ہونا چاہئیں۔ یہ نہیں ہوتا تو سارا بوجھ ہائیکورٹ پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ادبی بیٹھک الحمرا آرٹس کونسل کا مجھے پتہ ہے کہ یہ نام غالباً نامور دوست شاعر خالد احمد نے دیا تھا۔ اس میں ایک دیہاتی کی خوشی بھی ہے۔ یہاں پر عارف نوناری کی کتاب ’’چیئرنگ کراس‘‘ کی تقریب تھی تو مجھے راولپنڈی کے جاوید چودھری کی ’’زیرو پوائنٹ‘‘ یاد آگئی۔ جاوید ایک پسندیدہ کالم نگار ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے کالموں کی کتاب کیلئے نام سوچ لیا ہے۔ یہاں پنڈی کے ایک نامور کالم نگار مظہر برلاس بھی مہمان خصوصی کے طورپر موجود تھے۔ تقریب کی کمپیرنگ نامور شاعرہ اور ادبی شخصیت آسناتھ کنول نے کی۔ اب ادبی کمپیرنگ میں بھی اس کا ایک نام ہے۔ تقریب کی کامیابی کمیپرنگ پر منحصر ہوتی ہے۔ آسناتھ کنول کو مبارک ہو۔ اس کی کمپیرنگ کے حوالے عارف نوناری کو بھی مبارک ہو۔
کتاب کا نام اچھاہے۔ شاعری بھی اچھی ہے۔ یہاں بینا گویندی کی موجودگی ایک انوکھی آسودگی کا باعث تھی۔ اس نے مختصر گفتگو میں ایک مزیدار کیفیت ڈال دی۔ مجھے یہاں مہمان نظر آئے جو اصل میں دوست تھے۔ برادرم ڈاکٹر کنول فیروز آئے اور باتیں کیں اور چلے گئے۔ مگر ان کی دوستانہ کیفیت دیر تک محفل میں رہی۔ ڈاکٹر صغرا صدف بہت اچھی اور مختصر بات کرتی ہے۔ مختصر نویسی معجز نگاری ہے۔ کم بولنا بھی اچھا ہوتا ہے۔ وہ بولتا ہے اور دلوں کے دروازے کھولتا ہے۔ آسناتھ کنول نے ایک شعر سنایا اور سماں باندھ دیا۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
محفل میں ایک معزز خاتون اکیلی بیٹھی تھی‘ لیکن لگتا تھا اس کے آس پاس نظر نہ آنے والی محفل لگی ہوئی ہے۔ اسے میری بات پسند آئی کہ لوگو ایک دوسرے کی عزت کرو۔ محبت کا لفظ اب بوڑھا ہو گیا ہے۔ عزت کو رواج دو‘ عزت کے کلچر بنائو اور خوش رہو۔ اس اچھی خاتون کا نام زمرد خورشید ہے۔
میںایف سی کالج میں تھا۔ جب یہ یونیورسٹی نہیں بنا تھا۔ ایک بہت دلیر سی لڑکی میرے پاس آئی اور کہا کہ میری شادی ہونے والی ہے۔ آپ کوئی بات کرو۔ میں نے کہا تم ایسا ماحول گھر میں بنائو کہ وہ تم سے باتیں کریں۔ وہ خوش ہوئی اور کہا کہ اور بات کرو۔ میں نے کہا کہ وہ جو تمہارا شوہر ہو‘ اس کی عزت کرو۔ اس نے کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں‘ محبت کرو‘ میں نے کہا عزت میں جو محبت ہے وہ کسی جذبے میں نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی عزت کرنے کو جی نہ چاہے تو کیا کروں۔ میں نے کہا عزت کرنے کی اداکاری کرو یہ اداکاری بھی عزت ہے۔ اسے یقین آجائے گا۔