آج جب میں یہ سطور قلمبند کر رہا ہوں اسلامی سال کا آغاز ہو چکا ہے اور محرم کی دسویں تاریخ کو آپ یہ سطور مطالعہ کر رہے ہوں گے اس ماہ میں خانوادہ رسول ؑ کا نام لینے والے اور ان پر درود بھیجنے والے ان کی عظیم الشان قربانی اور مظلومیت کی یاد میں سوگوار ہیں، مجالس کا اہتمام جاری ہے اور عزادار جلوسوں میں ماتم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں جو اعوان قوم سے ہوں مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ میں حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد میں سے ہوں اور خاتون ِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی اولاد کا غلام ہوں۔
اپنے جد امجد حضرت عباس علمبردار کی طرح اس وفا پر نازاں ہوں جو میرے اس بزرگ کا سب سے بڑا اعزاز ہے اور میں بڑے فخر سے یہ کہتا ہوں کہ میری نسبت حضرت علیؓ سے ملتی ہے۔ میں جو ایک طویل عرصے سے لاہور میں مقیم ہوں اور جب لڑکپن میں لاہور آیا تھا تو میری رہائشگاہ بھی لاہور کے اس حصہ میں ہی تھی جہاں سے محرم الحرام کے مہینہ میں ماتمی جلوس گزرتے تھے اور میں بھی ان میں شریک رہتا تھا۔
شروع میں تو ان جلوسوں میں عقیدتاً شرکت ہوتی مگر بعد میں عقیدت کے ساتھ فرض بھی شامل ہو گیا کہ میں نے اخبار کی ملازمت اختیار کر لی اور ان جلوسوں کی خبریں دینے کی ڈیوٹی بھی ہوتی یوں کہ میں دو طرح کے مزے میں رہتا کہ ڈیوٹی بھی پوری ہو جاتی اور خانوادہ رسول ؑ کے غم میں سوگوار جلوسوں میں شرکت بھی رہتی۔ جب محرم کا مہینہ شروع ہو تا ہے تو مجھے یہاں لاہور میں اپنے بچپن کے وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب میں اپنے گاؤں میں بچوں کو گڑ کا شربت پلایا کرتا تھا۔
میرے گاؤں میں بلکہ دور دور تک کوئی شیعہ گھرانا نہیں تھا اور ابھی بھی نہیں ہے اس لیے محرم کے ان دنوں میں لاہور کی طرح محافل کا اہتمام نہیں ہوتا تھا مگر یہ بات بھی نہیں تھی کہ ان دنوں کی تاریخ سے وابستہ المیہ کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ میری مرحومہ والدہ گھڑے کے ٹھنڈے پانی میں گڑ ملا کر ایک بہت بڑے برتن میں شربت بناتی تھیں اور اس برتن کو گھر کی ڈیوڑھی جس کو آپ آج کل کے زمانے میں گھر کی دہلیز سمجھ لیں کے باہر رکھ دیا جاتا تھا اور میری یہ ڈیوٹی ہوتی تھی کہ میں ہر اس بچے کو جو گلی میں سے گزرے اس کو یہ شربت پلاؤں۔
میں اس وقت بہت چھوٹی عمر کا تھا اور مجھے بالکل بھی نہیں معلوم تھا کہ ہر سال کے کچھ مخصوص دنوں میں میری والدہ یہ اہتمام کیوں کرتی ہیں اور گھر میں کچھ لوگوں کے شہید ہونے کا ذکر ایسے کیوں کیا جاتا ہے کہ جو بھی سنتا ہے وہ بے ساختہ آنسو بہانے لگتا ہے۔ جب کچھ عمر بڑی ہوئی تو تو مجھے پتہ چلا کہ وہ معصوم جو پیاسے تھے ان کی پیاس کی یاد میں بچوں کو شربت پلایا جاتا ہے اور یہ کوئی تصور نہیں تھا کہ ہم سنی ہیں یا شیعہ بلکہ امام حسین ؓ کے بارے میں ہمیشہ نہایت عقیدت و احترام سے ذکر میں نے اپنے گھر میں سنا۔
میں ابھی چھوٹا بچہ ہی تھا کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ مجھے میرے بڑے بھائیوں نے بتایا کہ والد صاحب کبھی بھی اپنی پیاس مکمل نہیں بجھاتے تھے بلکہ پانی پیتے ہوئے انھیں خانوادہ رسول ؑکے یہ لوگ یاد آ جاتے تو وہ پانی کا پیالہ یہ کہہ کر نیچے رکھ دیتے کہ سرور کائنات کی اولاد کو پانی نہ ملا تو میں ایک معمولی آدمی کیسے پانی پیوں، وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں ہوتا تو اپنے جوان بیٹوں کو کربلاء ضرور بھیج دیتا۔ عشرہ محرم کی یاد ہر اس دل کو تڑپا دیتی ہے جس میں خاندان رسالت کا احترام، محبت اور عقیدت زندہ ہے اور کوئی بد بخت ہی اس سے محروم ہو گا۔
یہ عظیم سانحہ عراق کی سر زمین پر ہوا اور نہ جانے اس زمین پر کتنے سانحے گزر گئے اسلامی تاریخ کے کئی سانحے اسی زمین پر گزرے اور آخری سانحہ میں امریکا نے اس سر زمین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سنگدل تاریخ نے اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا دیا۔ امریکا کے جو عزائم ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے ان میں سر فہرست مسلمان دنیا کی رہی سہی طاقت کو ختم کرنا ہے تا کہ اسے غلامی کے بھیانک دور میں پھینک دیا جائے۔
اس میں امریکا ابھی تک ناکام ہی نظر آیا ہے کہ عراق میں جارحیت کے بعد سوائے شرمندگی کے اسے کچھ نہ ملا اور یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہماری اطلاعات غلط معلومات پر مبنی تھیں۔ لیکن عراق جیسے خوبصورت ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسے کئی سال پیچھے دھکیل دیا گیا اور امریکا بہادر جب وہاں سے نکلا تو اپنے پیچھے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر گیا جو کہ اس مقدس سر زمین پر ابھی تک جاری ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بھی اس جنگ میں شدید نقصان پہنچا مگر عرب ممالک نہ جانے کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں یا پھر ان کی ہمتیں جواب دے گئی ہیں کہ وہ ابھی بھی امریکی حمایت پر ہی کمر بستہ نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف امریکا کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ صرف اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی جارحیت پر تیار نظر آتا ہے جس کا مظاہرہ وہ ماضی میں عراق میں کرب و بلا کا ایک اور سانحہ رونماء کر چکا ہے اور یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس سے دوسرے مسلمان ممالک بھی محفوظ نہیں رہے اور امریکی کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی تازہ دھمکی اسی کا تسلسل کہی جا سکتی ہے کیونکہ پاکستان امریکا کے خیال میں کسی مبینہ دہشتگردی کا مرکز اور ایٹمی قوت ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان تک کربلا کے میدان کو پھیلاناچاہتا ہے۔
یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جو سپر پاور امریکا کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن مسلمان اپنی کمزوری کے باوجود اپنے گلے میں اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ امریکا کے گلے کا پھانس بنے ہوئے ہیں۔ اگر مسلمان متحد ہوں تو لیکن امریکا اور مغربی طاقتیں مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیتیں کہ انھیں ذرا سا ہوش آئے تو وہ ایٹم بم تک بنا لیتے ہیں۔ امریکا اور مغربی دنیا کے گلے کی پھانس ہی اصل وجہ ہے کہ امریکا اپنی پوری طاقت مسلمانوں کو کمزور کرنے پہ صرف کر دیتا ہے اور جب تک ایٹم بم والے مسلمان زندہ ہیں امریکا اور اس کے حواری چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔