تقسیم ہند کو 70 برس ہوجانے کے باوجود پاکستان اور بھارت اپنے معاملات اور مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ نفرتوں اور رنجشوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ معاملات و مسائل وہ ہیں، جو برٹش انڈیا کے آخری دنوں میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند نے انھیں مہمیز لگائی۔ پھر تقسیم کا طریقہ کار جو برطانوی حکومت نے اپنایا، وہ بھی انتہائی ناقص اور قابل اعتراض تھا، جس کی وجہ سے بعض نئے تنازعات نے جنم لیا، جو وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوتے چلے گئے اور آج دونوں ممالک کے درمیان بدترین سردمہری کا باعث بن چکے ہیں۔
اس تناظر میں برٹش انڈیا میں ہونے والی سیاست کا جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کا اپنا مخصوص کردار تھا۔ مگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، جو عقیدے کے بجائے طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتی ہے، وہ بھی آزادی ہند کے حوالے سے کوئی قابل عمل تیسرا متبادل پیش کرنے میں ناکام رہی۔ جس کی وجہ سے تقسیم ہند انسانی تاریخ کی بدترین قتل وغارت گری، املاک کی بربادی اور انسانی نقل مکانی کا بہت بڑا سانحہ بن گئی۔
دنیا بھر میں کمیونسٹ پارٹیاں کارل مارکس کے فلسفے اور مارکس اور فریڈرک اینجلز کے 1848ء میں تحریر کردہ کلیدی نکات پر مبنی کمیونسٹ مینی فیسٹو کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹیوں کا کلیدی ہدف ایک ایسے معاشرے کا قیام ہوتا ہے، جس میں معاشی اور سماجی انصاف ہو اور جہاں معاشرہ اپنی مالیاتی حیثیت کی بنیاد پر طبقات میں منقسم نہ ہو۔ اس لیے ان کی جدوجہد کا بنیادی مقصدو محور طبقات سے آزاد ورگہین معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قیام کا مقصد بھی ہندوستانی معاشرے کو سامراجیت سے آزاد کرا کے استحصال سے پاک سیاسی و سماجی ڈھانچے کی تشکیل تھا۔ اس کے قیام میں ہر عقیدے اور قومیت کے ہندوستانی برابر کے شریک تھے۔ یوں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پورے ہندوستان کے محکوم، مظلوم اور مفلوک الحال محروم طبقات کے لیے مساویانہ اور باوقارمہذب زندگی کے حصول کی جدوجہد کرنے والی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔
اپنے قیام سے 1935ء تک مختلف نوعیت کے اندرونی انتشار کا اس لیے شکار رہی، کیونکہ اس دوران یہ نوآبادت کے بارے میںاسٹالن کی سوچ اور پالیسیوں کی اسیر رہی تھی۔ جس کی وجہ سے سامراجیت کے بارے میں اس کے نظریات کانگریس سمیت ہندوستان کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ ہونے کے باوجود بے عملی کا شکار تھے۔ چنانچہ سرمایہ داری اور سامراجیت سامراجکے بارے میں بیانیہ تو ضرور تشکیل دیا، مگر ہندوستان کے قومی سوال پر کوئی واضح قومی موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں سمیت مختلف مذہبی، لسانی اور قومیتی اقلیتوں کو خاطر خواہ انداز میں اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ عوام کو اپنے اپنے موقف کے حق میں متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
دراصل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا فکری طور پر توانا ہونے کے باوجود عملی محاذ پر ناکام رہی۔ اس کا سبب بین الاقوامی اور قومی معاملات اور مسائل کا گڈمڈ کیا جانا تھا۔ حالانکہ ہر ملک بالخصوص نوآبادیات کے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں، جن کو سمجھنا اور آفاقی فکری نظریات اور اصولوں سے ہم آہنگ کرنا کمیونسٹ پارٹی جیسی نظریاتی سیاسی جماعت کے فکری حلقوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ چونکہ تجزیاتی محاذ کمزور تھا، اس لیے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے دوسری عالمی جنگ کے دوران بعض انتہائی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، جن کے بھیانک اور دوررس اثرات ہندوستان کی سیاست پر بھی مرتب ہوئے۔
انھی غلطیوں میں سے ایک فاش غلطی یہ تھی کہ 22 جون 1941ء کو جب نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کیا، تو وہ نازی جرمنی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی خاطر اتحادی فوج میں شامل ہو گیا۔ یہ سوویت یونین کا تزویراتیحکمت عملی فیصلہ تھا۔ مگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سوویت نوازی میں اتحادی فوجوں کی حمایت شروع کر دی، جو ایک نوآبادی کی سیاست میں اصولی طور پر انتہائی غلط فیصلہ تھا۔ کیونکہ برصغیر میں برطانیہ کا کردار سامراجی اور غاصبانہ تھا، جس سے چھٹکارا پانے کے لیے ہندوستانی عوام جدوجہد کررہے تھے۔ اس لیے سوویت یونین کے ریاستی فیصلوں سے ان کے قومی معاملات کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
جنگ کے دوران کانگریس نے انگریز حکمرانوں کی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور 1942ء میں ترک موالات کی تحریک شروع کردی۔ آل انڈیا مسلم لیگ بھی مسلمانوں کے لیے ریاست کے قیام کے عمل میں شدت سے زیادہ فعال ہوگئی۔ ایک ایسی صورتحال میں جب آزادی کی تحریک تیز ہورہی تھی اور کمیونل اختلافات کو دانستہ ہوا دی جارہی تھی، کمیونسٹ پارٹی کی ذمے داری تھی کہ وہ تیسرا متبادل نکتہ نظر پیش کرے۔ مگر سی پی آئی آزادیِ ہند کے لیے کوئی قابل عمل کلیہ پیش کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے بجائے اس نے جنگ کے آخری برسوں میں فیض احمد فیض مرحوم سمیت کئی معروف مارکسی دانشوروں کو برطانوی فوج کے شعبہ اطلاعات میں ملازمت کے لیے بھیج دیا۔ اس کے بعد انیس ہاشمی مرحوم سمیت اپنے کئی اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کی ترغیب دے کر اپنے ہی نظریات اور فکری رجحانات پر خود ہی کاری ضرب لگالی۔
قیام پاکستان کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے معروف دانشور سجاد ظہیر مرحوم کو پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کو منظم کرنے کے لیے بھیجا۔ انھوں نے (بقول حمید اختر مرحوم) پارٹی کو منظم کرنے کی اپنے تئیں بھرپور اور سنجیدہ کوشش کی۔ اسی دوران میاں افتخار الدین مرحوم نے پروگریسو پیپرز کے زیر اہتمام اردو اور انگریزی اخبارات اور جرائد شروع کیے۔ لیکن پاکستان جن حالات میں معرض وجود میں آیا تھا، اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے، جو کمیونسٹ پارٹی کی آزادانہ سرگرمیوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے۔
اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر دائیں بازو کے قدامت پسند حلقوں کی سرپرستی کا فیصلہ کرچکی تھی۔ ایسے ماحول میں کمیونسٹ پارٹی کا سرگرم سیاست کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ اس تناظر میں کمیونسٹ پارٹی سے ایک فاش غلطی یہ بھی ہوئی کہ اس نے پاکستان کے مغربی حصے میں پائے جانے والے قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کو سمجھنے کے بجائے اس سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کی، جو متحدہ ہندوستان کے اربن علاقوں میں شروع کیا تھا۔
حالانکہ سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی میں مبتلا عوام کو فکری تربیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے، تاکہ وہ اپنے معاملات ومسائل کے بنیادی اسباب کو سمجھنے کے قابل ہوسکیں۔ جب کہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان میں ایسا پارٹی پروگرام مرتب کرنے میں ناکام رہی، جو عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنتا۔ اس کے علاوہ بعض رہنماؤں کی متلون مزاجی اور غیر ذمے دارانہ روش بھی اس کی ملک گیر مقبولیت کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کا موقع مل گیا۔ لہٰذا وہی ہوا، جو کہ ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس کے رہنماؤں اور دانشوروں کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا، پھر پارٹی کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین اور طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
پاکستانی عوام کی اکثریت اپنی سرشت میں متحمل مزاج اور روشن خیال ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ آزاد خیال سیاسی جماعتوں کو حق حکمرانی دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی سر توڑ کوششوں کے باوجود مذہب کے نام پر قائم جماعتیں آج تک 5 فیصد سے زیادہ مینڈیٹ نہیں لے سکیں۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر بھی عوام نے قدامت پسند عناصر کے پروپیگنڈے اور سوچ کو نظر انداز کرتے ہوئے روشن خیال فکر کا ساتھ دیا ہے۔ عوام کے رویوں سے یہ واضح ہے کہ پاکستان میں روشن خیالی، خرد افروزی اور عقلیت پسندی کے لیے فضا خاصی سازگار ہے۔ لیکن کوئی ایسی جماعت موجود نہیں، جو انھیں ایک پلیٹ فارم پر منظم کرسکے۔
پاکستان کے معروضی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک میں ایک ایسی جماعت کی اشد ضرورت ہے، جو حقیقی معنوں میں آزاد خیال ہو اورقومی و بین الاقوامی معاملات و مسائل کا واضح ادراک رکھتے ہوئے انھیں حل کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو۔