تحریر: پروفیسر مظہر
دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، بم دھماکوںاور بارود کی بوسے رچی فضاؤں کے باوجود وطنِ عزیز میں امیدوں اور آشاؤں کی توانا کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ گھٹنوں کے بل رینگتی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہورہی ہے، مہنگائی کے طوفانِ بلاخیز کے آگے بند باندھنے کی کوششیں ثمرآور ہو رہی ہیں۔
دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جری جوان اپنے خون سے عزم وہمت کی لازوال داستانیں رقم کررہے ہیںاورعالمی اعتمادآہستہ آہستہ بحال ہورہا ہے ۔یہ سب کچھ اِس لیے ممکن ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میںپہلی دفعہ حکومت اورفوج ایک صفحے پرہے ۔افہام وتفہیم کی اِس فضاء میںاُمید ہوچلی ہے کہ بوستانِ وطن میںبہارآنے کوہے۔لاریب اُمیدکے دیپ جلانے میںکچھ حصہ ہمارے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکا بھی ہے ۔ہمارامیڈیاآزاد بھی ہے اوربے باک بھی ۔یہ بے باکی اکثر اپنی حدوںسے تجاوزبھی کرجاتی ہے لیکن اِس کے باوجودبھی تسلیم کرناپڑے گاکہ اسی میڈیانے اذہان وقلوب کے آئینوںکی دھندلاہٹ کویوںصیقل کیاہے کہ اب اِن میں”رہبروں”کا ظاہری نہیںباطنی عکس دکھائی دینے لگاہے ۔ابھرتے ہوئے شعورکی روشنی شبِ تارمیں دراڑیںڈال رہی ہے اورعوامی شعور آگہی کے زینے ایک ایک کرکے طے کرتا جارہاہے ۔جب عوامی شعوراِس منزل تک پہنچ جائے توپھر مایوسیاںہوا ہوجاتی ہیںاورآشاؤں کی تتلیاں فضائے بسیط میںرقص کناں ہو جاتی ہیں۔
ابو العلا معری نے کہا ”بھیڑیے کی سب سے بڑی تمنایہ ہوتی ہے کہ وہ چرواہابن جائے”۔ ایسی ہی خواہش ہمارے لندن میںبیٹھے الطاف بھائی نے بھی پال رکھی ہے لیکن وقت بدل چکا۔ اب عنانِ حکومت اُن لوگوںکے ہاتھ میںجو کراچی کی روشنیاں لوٹانے کاعزم کرچکے ہیں ۔کیاکبھی کسی نے تصوربھی کیاتھا کہ کوئی نائن زیروکی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ سکے گا؟۔کیاکوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ شہرِقائد کے” نوگوایریاز” ختم اورساری رکاوٹیں دورکردی جائیںگی ؟۔پتہ سب کوتھا لیکن زبانیںگُنگ ۔وزیرِداخلہ چودھری نثارنے بہت پہلے کہہ دیاکہ ایجنسیوںکی رپورٹس موجودہیں ،ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروںکی شناخت کرلی گئی ہے ،اُنہیںمعلوم ہے کہ کون کِس کی سرپرستی کررہا ہے۔
اُنہوںنے تویہاں تک کہہ دیا کہ عسکری ونگزکی رپورٹس موجودہیں ۔پھرپتہ نہیںکس مصلحت کے تحت اُنہوںنے یہ بھی کہہ دیا”یہ رپورٹس سپریم کورٹ کے لیے نہیں”۔سبھی جانتے تھے کہ نوگو ایریاز ،عقوبت خانے اورٹارگٹ کلنگ سب اُسی دَورکی پیداوارہیں جب مہاجرقومی موومنٹ نے جنم لیااور ہرکسی کواپنی آغوشِ محبت میںسمیٹ لینے والاکراچی لسانی ،نسلی اورگروہی منافرتوںمیں یوںتقسیم ہواکہ ایک کراچی کے اندرکئی کراچی بن گئے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ہرجگہ عزیربلوچ اوربابالاڈلا جنم لینے لگے اورکراچی یوںخونم خون ہوتاچلاگیا۔ جتنی لاشیںمصر اورشام میںایک سال میںگرتی رہیں اُتنی کراچی میں ایک ماہ میںلیکن ایکشن کی ہمت کسی میںنہ تھی ۔ الیکٹرانک میڈیابھی خوف کی فضاء میںایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریر گھنٹوں بلکہ پہروں نشر کرتا رہا جس میں سوائے بڑھکوں اور ”تَڑیوں” کے کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ایم کیوایم کا سیاسی جماعت ہونے کا حق سبھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر سیاست میں دہشت کا عنصر بھی شامل ہو جائے تو پھر کسی کو بھی قبول نہیں ۔ایم کیوایم اگر واقعی سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہے تو پھر اسے اپنی اداؤں پر غور کرتے ہوئے اپنی صفوںسے بھتہ خوروں اور قاتلوںکو نکالنا ہی ہوگا۔
بعد از خرابیٔ بسیار حکومت نے خون میںنہلائے کراچی کی روشنیاںلوٹانے کاعزم کرہی لیا ۔اِس عزم میں افواجِ پاکستان برابر کی شریک ہیں ۔رینجرزنے نائن زیروپر چھاپا مارکر ڈھیروںڈھیر اسلحہ برآمدکیا اور ٹارگٹ کلرزبھی گرفتارکیے ۔اِن ٹارگٹ کلرزمیں جیونیوز کے صحافی ولی خاںبابر کے قتل کاسزا یافتہ مجرم بھی شامل تھا۔نائن زیروسے برآمدکیا گیا جدیدترین اسلحہ اُنہی نیٹوکنٹینرزسے چرایاگیاتھا جوپورٹس اینڈشپنگ کے وزیرایم کیوایم کے بابرغوری کے دَورِوزارت میں غائب ہوئے ۔جب اسلحے سے بھرے اِن کنٹینرزکے غائب ہونے کاالزام اُس وقت کے کراچی کے ڈی جی رینجرزمیجر جنرل رضوان اخترنے براہِ راست پورٹس اینڈشپنگ کی وزارت پرلگایاتو تب سمجھ میںآیا کہ ایم کیوایم یہ وزارت ہرحال میںاپنے پاس رکھنے پرکیوں بضدتھی ۔اِن کنٹینرز کی گمشدگی پر شور توبہت مچالیکن پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آئیںاور معاملہ دبادیا گیا۔نائن زیروپر رینجرز کے ایکشن پرایم کیوایم چیںبہ چیںتو بہت ہوئی اورمحترم آصف زرداری نے بھی ازراہِ ہمدردی متحدہ کی پیٹھ تھپتھپانا ضروری سمجھا لیکن ہواؤںکا رُخ دیکھ کرزرداری صاحب مراجعت فرماگئے اورایم کیوایم نے بھی اپنی آواز دھیمی کرنے میںہی عافیت جانی ۔اب وزیرِاعظم صاحب سے ملاقات کی بھیک مانگتی ایم کیوایم کوواضح پیغام دے دیاگیاکہ عافیت اسی میںہے کہ سارے ٹارگٹ کلراور بھتہ خورحکومت کے حوالے کردیئے جائیں ۔اُنہوں نے برملا کہہ دیاکہ وہ عروس البلاد ،روشنیوںکے شہرکراچی کی روشنیاں لوٹا کرہی دَم لیں گے۔
کراچی کوفوج کے حوالے کرنے کی ضِد تومحترم الطاف حسین کی ہی تھی لیکن اُن سے یہ چوک ہوگئی کہ اُنہوںنے چیف آف آرمی سٹاف محترم راحیل شریف صاحب کوبھی آمرپرویز مشرف جیساہی جانا۔اُنہیںنہیں معلوم تھا کہ شہیدوںکے خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل راحیل شریف کی نَس نَس حبِ وطن سے لبریز ہے۔کراچی کوفوج کے حوالے تونہیں کیاگیا لیکن رینجرزکو مکمل اختیارات دے کرکراچی کاامن لوٹانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی جس میںکامیابی کے واضح اشارے یوںنظر آتے ہیںکہ گزشتہ کئی دنوںسے ٹارگٹ کلنگ ہوئی نہ تاجروںکو بھتہ خوروںکی طرف سے پرچیاںموصول ہوئیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ حکمران کراچی کو ٹارگٹ کلرز ،بھتہ خوروں اور دہشت گردوںسے پاک کرنے کے عزم پر قائم رہتے ہیں یا ایک دفعہ پھر سیاسی مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں۔
تحریر: پروفیسر مظہر