تحریر: ایم آر ملک
اپنے عہد کے عروج کے تناظر میں انسان ہمہ وقت حالات کی راسیں اپنی دسترس میں رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے مگر زوال کے عہد کو عروج کے تناظر میں دیکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟کیونکہ عروج کے اختتام اور زوال کے ابتدائی عہد میں انسان اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے حالات کا رخ اور عوامی حمایت کو اپنی سمت موڑنے میں وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتا ہے مگر تاحدِ نظر زوال کی ایسی بساط بچھی نظر آتی ہے جس کا آخری سرا نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر انسان حقیقت کے ادراک کے باوجود اپنے عروج کے سراب میں ہچکولے کھا رہا ہوتا ہے۔
مسلم لیگ کی دھاندلی زدہ جیت پر یہ تمہید مجھے تحریک انصاف کے اُن ورکروں کیلئے باندھنا پڑی ہے جو مایوس اور بد دل ہیں مجھے ان ورکروں سے کہنا ہے کہ رہزنوں میں آپ گھرے ہوں اور آپ کی پگ محفوظ رہے یہ نہیں ہو سکتا ۔ڈھوکڑی پہاڑ کی اوٹ میں ایک پسماندہ گائوں ہے جس کی ٹیڑھی گلیاں زگ زیگ کی شکل میں نظر آتے ہیں ۔ملک حق نواز سپرو اور ملک ناصر کی طرف سے مجھے ہنگامی حالت اُس اکٹھ میں شرکت کا حکم صادر ہوا تھا جو بلدیاتی الیکشن کے سلسلہ میں گائوں کے بزرگوں نے بلا رکھا تھا ۔پگڈنڈیوں کے سفر میں دوستوں کے ہمراہ ہم ملک ناصر کے دارہ پر پہنچے ۔خوشاب کے دیہی علاقوں میں دارے بنے ہوئے ہیں جہاں سردیوں کی کہر آلود اور یخ بستہ راتوں میں رات گئے تک گائوں کے بزرگ اپنی محفلیں جماتے۔دارا آج بھی کئی قبیلوں کی مشترکہ بیٹھک ہے جہاں غمی اور خوشی کے وقت یہ بزرگ جمع ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات زندگی کے اہم فیصلے ان داروں پر ہوتے ہیں۔
وقت ہرجائی اور ناہنجار ہو گیا ہے ۔دکھوں کو بانٹنا اب رسم بھی نہیں رہی۔ دوسروںکیلئے زندہ رہنے کا تصور بھی حیرت لگتا ہے مگر خوشاب کے دیہی علاقوں جہاں زندگی بنیادی سہولیات کو ترستی ہے یہ روایت شاید بدستور موجود ہے ۔تاہم زمانہ بدلا ،روایات مر گئیں ۔انسان انسان سے کٹ گیا ۔داروں پر بیٹھنے والے بھی اب اپنا چلن بدلنے لگے ہیں یا وہ نسل ناپید ہوتی جارہی ہے جس سے ان داروں کا ماحول مہکتا تھا ۔ایک بزرگ کا کہنا آج بھی سچ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں ان داروں پر رات گئے تک آگ جلتی تھی اور اس آگ کے گرد جب بزرگ بر اجمان ہوتے تو نئی نسل اُن کی عمر رفتہ کو سنتی ،اُن کے عملی تجربہ کو لیکر اپنی آئندہ زندگی کا سفر متعین کرتی تب آگ خاموش تھی اور اُس کے گرد بیٹھنے والے بولا کرتے تھے ۔اب اُس آگ کے گرد بیٹھنے والے خاموش ہو گئے ہیں آگ ٹی وی کی شکل میں بول رہی ہے۔
اُس روز ڈھوکڑی میں ملک ناصر کے دارا پر تیسرے مرحلے میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے سلسلہ میں نئی ڈھوکڑی اور پرانی ڈھوکڑی کے بزرگوں کا اکٹھ تھا ۔وہ بزرگ جن کی اکثریت باریش تھی اور جن کے سروں پر سفید پگڑیاں نسل در نسل چلنے والے مہاڑ کے قدیم کلچر کی عکاسی کر رہی تھی دارا پر قطاروں کی شکل میں موجود تھے ۔با با ڈی ایم اعوان ملک ناصر کا داد جس کی عمر رفتہ شہر کے عوام کی خدمت کرتے گزری ایک میزبان کی حیثیت سے اپنی نشست پر بر اجمان تھا ۔دن بھر کا تھکا ہارا سورج مغرب کی اوٹ میں اپنے سرخ چہرے کے ساتھ غروب ہو رہا تھا۔
دارا پر زندگی کی سانسوں کے باوجود ایک سناٹا تھا ۔جو یقینا نسل نو کی طرف ان بزرگوں کے احترام و ادب کا متقاضی تھا ۔اچانک اس سناٹے کو ملک حق نواز سپرو کی آواز نے چیرا کہ ”نوجوان نسل اب صدیوں کے اُس طوق ِ غلامی کو گلے سے اُتار پھینکنا چاہتی ہے جو اس فرسودہ نظام نے ہمیں تحفے میں دیا ہے ہم ایک تبدیلی کی خواہش کے ساتھ میدان ِ عمل میں نکلے ہیں بلدیاتی انتخابات جو گراس روٹ لیول تک اختیارات کی منتقلی کا نام ہے ہم عوام کے سامنے اپنی ترجیحات کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ”اس سے قبل کہ ملک حق نواز اپنی بات کا تسلسل جاری رکھتا اچانک ایک بزرگ کی آواز نے محفل کو اپنی جانب متوجہ کر لیا یہ ملک فتح خان نمبر دار تھے۔
جن کا موقف بڑا واضح تھا کہ میں اگر اگر اس دارا پر نوجوان نسل کو سننے کیلئے آیا ہوں تو میرے ساتھ دائیں ،بائیں ،آمنے ،سامنے بیٹھے میرے ہم عمر دوست صرف میرے موقف کی تائید میں میرے ساتھ موجود ہیں ۔سفید ریش اور سفید دستاروں والے دوستوں ماسٹر امیر نواز ،ملک خالقداد ،ملک شوکت حیات جھانبہ ، ملک افضل ،ملک اقبال کے سر ملک فتح خان کی تائید میں خم ہوگئے ۔ملک فتح خان نمبر دار نے کہا کہ ہم اپنی دستار نوجوان نسل کے سر پر رکھ رہے ہیں آج ہم معترض ہیں کہ نئی نسل صلاحیتوں میں ہم سے آگے ہے شہری فلاح کے فیصلوں کی رسی اب ملک حق نواز ،سرفراز مبارکھی ،ملک ناصر ،فیاض زمانی ۔لیاقت جھانبہ جیسے نوجوان لیکر چلیں گے اور ان کے شہر کی تعمیر و ترقی کیلئے کئے گئے فیصلوں کو ہماری تائید حاصل ہوگی۔
محفل بر خاست ہونے سے قبل بادلوں کی گڑ گڑاہٹ میں تیزی آرہی تھی ۔جب ہم ملک حق نواز سپرو کے ڈیرہ پر پہنچے تو آسمانی آنکھ نے برسنا شروع کر دیا رات گئے بارش کا زور ٹوٹا ،بارش تھمی تو ملک حق نواز کے ہمراہ میں نے رخت ِ سفر باندھا میں کبھی نہ سلجھنے والے ریشم میں اُلجھا ہوا تھا بہت سے سوالات تھے جو گڈ مڈ ہورہے تھے ،تب چُکی میں پہاڑ سے گرنے والے اُس پانی نے میری الجھن کو دور کر دیا جو اپنے شدید ریلے کے ساتھ ہر آنے والی گاڑی کو خوف زدہ کر رہا تھا ۔میں سوچنے لگا کہ پہلے مرحلے میں جو کچھ ہوا وہ عوام سے بعید نہیں ،بیلٹ پیپرز خریدے گئے ،پریزائیڈنگ ٹھپے لگاتے رہے ،اور 85ء سے شریف برادران کی گود میں پل کر جوان ہونے والی بیورو کریسی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن اس کے باوجود تبدیلی کا منہ زور ریلہ مخالفین کو چکی کے پانی کی طرح خوف زدہ کئے ہوئے ہے جو شہروں سے نکل کر ڈھوکڑی جیسے پسماندہ گائوں کی گلیوں میں آپہنچا ہے کہ بزرگوں نے اپنی دستاریں نئی نسل کے سروں پر رکھ کر موروثی سیاست کی دیوار میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دی ہیں۔
تحریر: ایم آر ملک