گزشتہ ہفتے گھرکی ٹیچنگ ٹرسٹ ہسپتال کے لیے نئے ایمرجنسی بلاک کی افتتاحی تقریب میں شرکت اور اِس سے خطاب کا موقع ملا۔ ایک زمانہ تھا یہ ہسپتال صرف ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کے لیے ہی ایک نعمت یا رحمت سمجھا جاتا تھا، اب پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں اِس کے چرچے ہیں۔
چھوٹے سے رقبے پر مشتمل اِس ہسپتال کا افتتاح عبدالستار ایدھی نے کیا تھا۔ میں دِل سے سمجھتا ہوں ہماری زندگیوں کے مختلف معاملات میں جو بے برکتی بڑھتی جارہی ہے اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ایدھی صاحب جیسے فرشتے اب ہم میں نہیں ہیں، گھرکی ہسپتال کیجب بھی کوئی تقریب ہوتی ہے، میں یہ ضرور عرض کرتا ہوں ”انسانیت کی خدمت کے حوالے سے اِس ہسپتال کی کارکردگی اور نیک نامی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے میری نظر میں اِس کی دوبڑی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ اس کا افتتاح ، یعنی یہ پودا عبدالستار ایدھی جیسے فرشتے نے لگایا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ کہ ایسی ہی خوبیاں رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز اِس سے اِس انداز میں وابستہ ہیں کہ وہ اِس ہسپتال کو اپنا دوسرا گھر، بلکہ میں یہ کہوں گا پہلا گھر سمجھتے ہیں“۔…. ہمارے کچھ ڈاکٹروں میں جو روایتی لالچ اور کمینہ پن پایا جاتاہے وہ اُس سے مکمل طورپر بے نیاز ہیں۔ اُن کی پرہیز گاری کا عالم یہ ہے ہڈیوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا مریض اُن سے صرف علاج ہی نہیں ”دم“ بھی کرواتے ہیں۔ میں اکثر اُن سے ازرہ مذاق کہتا ہوں ”بھائی جان بے شمار مریض صرف آپ کے ”دم“ سے ٹھیک ہو جاتے ہیں، آپ ”دم“ کرنا چھوڑ دیں کہیں یہ نہ ہو لوگ آپ سے علاج کروانے چھوڑ دیں، کیونکہ جو آپ کے ”دم“ سے ٹھیک ہو جائے گا اُسے علاج کی ضرورت ہی نہیں رہے گی،
ویسے تو گھرکی ہسپتال کے باقی سارے شعبے بھی بڑے فعال ہیں مگر اِس کی اصل وجہ شہرت اِس کا سپائن سنٹر ہے جہاں روزانہ بیسیوں مستحق مریضوں کا فری علاج اور آپریشن ہوتے ہیں، پورے ملک سے ہڈیوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا مستحق لوگ یہ سوچ کر اِسہسپتال میں بِلا جھجک جوق درجوق اِس یقین کے ساتھ چلے آتے ہیں کہ یہاں اُنہیں صرف اِس وجہ سے نہیں دھتکارا جائے گا کہ اُن کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں، گھرکی ہسپتال کو میں دوسرا شوکت خانم ہسپتال سمجھتا ہوں، دونوں میں فرق صرف یہ ہے شوکت خانم میں کینسر کے مستحق مریضوں کا فری علاج ہوتا ہے اور گھرکی ہسپتال میں ہڈیوں کے مستحق مریضوں کا فری علاج ہوتا ہے، …. مجھے خوشی ہے پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز اور اُن کی پوری ٹیم نے پاکستان میں علاج معالجے پر اعتماد کی ایسی فضا قائم کردی ہے پہلے لوگ خصوصاً دولت مند لوگ اپنے علاج کے لیے حتیٰ کہ اُنہیں ایک چھینک بھی آتی تھی وہ لندن، امریکہ کے ہسپتالوں کا رُخ کرتے تھے، اب پاکستان میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں، یا میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کم ازکم ہڈیوں کے علاج کے لیے اب کوئی باہر نہیں جاتا۔ سوائے اِس کے کہ اس کی آڑ میں کوئی سیاسی مقصد نہ ہو، جیسا کہ ہمارے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی کمر میں اکثر تکلیف رہتی ہے، اُن کا علاج پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز کا کوئی اسسٹنٹ بھی کرسکتا ہے، اِس کے باوجود وہ علاج کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے مسئلہ کمر درد کا نہیں ”سیاسی درد“ کا ہے جو ہمارے اکثر سیاستدانوں کو زیادہ تر اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے۔
بہر حال گھرکی ہسپتال کے نئے ایمرجنسی وارڈ کیافتتاحی تقریب بہت پُروقار تھی، بھائی جان عامر عزیز اور گھرکی ہسپتال کے انتہائی فعال، مخلص اور محنتی ڈائریکٹر فنانس نعیم گھرکی کی خواہش پر مجھے اس کی میزبانی کا موقع ملا۔ یہ تقریب تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے شروع ہوئی، میں نے اپنی تقریر کے شروع میں اِس پر معذرت کی ، اور ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا، وزیراعظم عمران خان نے چند برس قبل لاہور میں ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی، وہ وہاں دوگھنٹے کی تاخیر سے پہنچے، میں نے اُن سے کہا ”آپ بہت دیر سے آئے ہیں، لوگ اِس وجہ سے بہت بےزار اور بور ہوئے، لہٰذا آپ تقریر کے شروع میں اپنے تاخیرسے آنے کی معذرت کرلیجئے گا ….”کہنے لگے ”ٹھیک ہے یہ آپ نے اچھا مشورہ دیا ہے“۔….مگر اِس ”اچھے مشورے“ کا حشر اُنہوں نے یہ کیا وہ جب مائیک پہ آئے کہنے لگے ”میں آج بہت مصروف تھا، اپنی اس مصروفیت کی وجہ سے میں چھ گھنٹے لیٹ ہوسکتا تھا، آپ کو میرا شکر گزارہونا چاہیے کہ میں صرف دوگھنٹے لیٹ ہوا ہوں، یہ بے چارہ توفیق بٹ ایسے ہی پریشان ہورہا تھا اور مجھ سے کہہ رہا تھا آپ دیر سے آنے کیمعذرت کرلینا“۔….گھرکی ہسپتال کے نئے ایمرجنسی وارڈ کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی فیاض محمد چوہدری تھے، اُن کی انسانی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع ہے، مگر کچھ لوگ پسند نہیں فرماتے اُن کا چرچا کیا جائے،
فیاض محمد چوہدری کا شمار بھی ایسے ہی خوبصورت لوگوں میں ہوتا ہے۔ دوسرے مہمان خصوصی پاکستان لاہور میں ترکی کے قونصل جنرل تھے، وہ تقریب میں بروقت تشریف لے آئے اور ہمیں اس پر بڑی شرمندگی ہوئی کہ پنڈال ابھی خالی تھا، اس شرمندگی کو تھوڑا کم کرنے کا حل ہم نے یہ سوچا کہ اُنہیں ہسپتال کے مختلف شعبہ، وارڈز، لیبارٹری، اور آپریشن تھیٹرز دیکھانے لے گئے۔ وہ یہ سب دیکھ کر بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار انہوں نے اپنی تقریر میں بھی کیا، اِس تقریب سے پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز نے بھی خطاب کیا۔ اُنہوں نے اِس موقع پر ایل ایم ڈی سی کے پرنسپل معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید چوہدری کو بڑے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ یہ کام وہ اُن کی پیٹھ پیچھے بھی کرتے ہیں ، حالانکہ ہمارے ہاں پیٹھ پیچھے زیادہ تر بُرائی ہی کی جاتی ہے۔ ، …. گھرکی ہسپتال کی کوئی تقریب ہو، اور اُس میں میاں سعید ڈیرے والے نہ ہوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا ، وہ ہمیشہ بڑے جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہیں، جس سے تقریب میں موجود لوگ بھی اُتنے ہی جذباتی ہو جاتے ہیں اور پھر بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی اُن لوگوں کے ہاتھ اُن کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور اُن جیبوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ نکال کر گھرکی ہسپتال کی نذر کردیتے ہیں، …. میں نے بھی ایک بار ایسے ہی کیا تھا جس کے نتیجے میں ، میں جذبات کی رو میں اتنا بہہ گیا کہ اپنی جیب میں موجود سب کچھ گھرکی ہسپتال کی نذر کردیا، بعد میں معلوم ہوا میں نے جیب میں پڑے پانچ ہزار روپوں کے ساتھ اپنی ایک گرل فرینڈ کا ” لولیٹر“ بھی گھرکی ہسپتال کی نذر کردیا ہے جس میں اُس نے مجھ پر کچھ غلط اقسام کے الزامات لگائے ہوئے تھے۔ میں ڈررہا تھا کہیں یہ لیٹر بھائی جان عامر عزیز یا گھرکی ہسپتال کے چیئرمین محسن بلال گھرکی جیسے نیک لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ شکر ہے ان دونوں نیک لوگوں نے وہ لو لیٹر پڑھ کر مجھے واپس کردیا۔ مگر بعد میں عملے کی سرزنش کی کہ اس کی ”فوٹو کاپی“ پاس کیوں نہیں رکھی ؟؟؟!!