تحریر: شیخ خالد زاہد
پھر وہی ہوا، ابھی ہم موجودہ دیگر کئی سیاسی مسائل سے نمٹنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جن میں سب سے اہم کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر وردی میں ملبوس بھارتی فوجیوں کہ مظالم ہیں۔ مگر بہت خاموشی سے ایک ایسے مسلئے نے سر اٹھایا ہے جس کی جانب معلوم نہیں انتظامیہ کیوں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب سے شروع ہونے والا یہ انتہائی گھمبیر اور خطرناک مسلئہ سندھ میں داخل ہو چکا ہے۔
لاہور جیسے منظم شہر سے دن دہاڑے بچوں کہ اغواء کا معاملہ ابھی ہم ہضم نہیں کر پائے تھے کہ یہ اغواء کار بہت آرام سے پنجاب کی سرحد پار کر کہ سندھ میں داخل ہوگئے ہیں۔ لیکن ایسا کیا کہ پورے پاکستان میں ان اغواء کاروں نے اپنا مرکز پنجاب کے مرکزی شہر اور جوحکومت کا بھی مرکزی شہر لاہور کو اپنی کاروایوں کا مرکز بنایا اور اربابِ اختیار کی ناک کے نیچے یہ سب کرتے رہے۔ سیکڑوں بچے اغواء اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔ کچھ اغواء کاروں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں مگر ایک انتہائی خوف کی فضاء ہم اپنے چاروں طرف محسوس کر رہے ہیں۔
کیا یہ اغواء کار ہمارے خفیہ اداروں سے زیادہ منظم ہیں؟ کیا یہ کوئی مافقل فطرت چیز ہیں جو کہ کسی کو دیکھائی نہیں دیتے؟ یا آخر میں ایک بات جو ہر پاکستانی کیلئے جو پاکستان سے اور پاکستان کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سچی محبت رکھتا ہے ۔ ان اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان نہیں اٹھا سکتا ۔ ایک طرف اخبارات کی سرخیاں چیخ چیخ کر یہ یقین دلا نے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ سب افراہیں ہیں ان پر کان نا دھریں تو دوسری طرف آنکھوں دیکھے واقعات سن کر کیا کیا جائے۔
کیا مستقبل کے معماروں کو گھروں میں قید کر کے بٹھا لیا جائے جیسا کہ پشاور کہ آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کہ ایسا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ کیا ہمارا ڈر پوک دشمن ہماری نسل کشی کرنے پر اتر آیا ہے یا وہ ہمیں جھالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کہ خواب دیکھ رہا ہے۔
میں اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوں کہ لاہوں میں اس سارے معاملے میں اساتذہ نے اپنا کیا کردار ادا کیا اور پولیس نے کیا لاحہ عمل یا طرزِ عمل اختیار کیا۔
سندھ کہ تعلیمی ادارے خصوصی طور پر کراچی کہ تعلیمی ادارے اور ان کی نمائندہ جماعت انتظامیہ سے حفاظتی معاملات اٹھائے یا ہر اسکول اپنے علاقے کہ پولیس تھانے سے باقاعدہ مدد کی درخواست کرے۔ دوسری طرف علاقے کی پولیس اسکول لگنے اور چھٹی کی اوقات میں اپنی خصوصی نفری خصوصی لباس میں اسکولوں کہ اطراف گشت بڑھائیں۔ اسکول انتظامیہ بڑی کلاسوں کہ بچوں کی مدد سے اپنے حفاظتی حصار کا انتظام کریں۔ سب سے بڑھ کر بچوں کو ایسی تربیت دیں کہ وہ کسی بھی ایسے واقع سے نمٹنے کیلئے اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ریکھے۔ اسکول کہ آس پاس سنسان جگہوں پر اساتذہ اپنے اضافی فرائض سرانجام دیں۔
ہم ایسے مسائل میں اس وقت تک پھنسے رہینگے یا الجھے رہینگے جب تک ہماری صفوں میں خلا رہیگا اور اس خلاء کو ہم تعصب کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمیں اپنی صفیں منظم طریقے سے باندھنی ہونگی۔ ہمارا دشمن ہم پر ہر طرح سے وار پر وار کیئے جا رہا ہے مگر ہم پھر بھی اس کے جال سے نکلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں بھارتی میڈیا کا بھرپور طریقے سے اعلانیاں طور پر بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ آخر ہم کب تک اپنے دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے بھی ان میں الجھتے جائینگے ۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمیں دشمن سے نمٹنے کیلئے خود میدان عمل میں کودنا پڑے گا ورنہ ہمارے ادارے بہت کمزور ہوچکے ہیں وہ دہشت گردی کی جنگ لڑتے لڑتے ہلکان ہوچکے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو ایک سپاہی کی طرح اپنے آنے والے کل کی حفاظت کیلئے نکلنا ہوگا۔ اسکولوں کالجوں کی حفاظت اپنے ذمے لینا ہوگی۔ اپنے دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہو گا۔
ہم اپنے وطن کی کیاریوں کی آبیاری اپنے لہو سے کر سکتے ہیں۔ اے اللہ ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرماء خصوصی طور پر نونہالوں کی حفاظت فرماء اور پاکستان کہ دشمنوں کو اور انکے عزائم کو نیست و نابود کردے اور ہمیں پاکستان سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے کی توفیق عطاء فرما (آمین یا رب العالمین)
تحریر: شیخ خالد زاہد