تحریر: افشاں علی (کراچی)
کہا جاتا ہے کہ بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، یعنی انہیں بچوں کے کندھوں پر آنے والے کل کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، عموما ہر والدین کی چاہ ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر بڑا آدمی بنے،یعنی کوئی بڑا رہنمائ۔۔۔۔۔۔ملک کا بانکا سپاہی، کامیاب ڈاکٹر۔۔۔۔۔ملک کو ترقی کی جانب لے جانے والا نئے نئے آئیڈیازلئے کوئی سائنسدان ۔۔۔۔یا اپنے نت نئے ڈیزائن لئے کوئی مشہورانجینئر۔۔۔۔۔۔!!ہر والدین بچوں کے بہتر اوراچھے مستقبل کے خواہاں ہوتے ہیں،ہمارے لئے یہ کہنا توبہت آسان ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں کیونکہ ان ہی کے دم پر ہمارے ملک کا مستقبل ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر آج کے اس مہنگائی کے بہتے سیلاب میں مزدوروغریب والدین کے لئے اپنی اولاد کواعلیٰ تعلیم دلانا دل گردے کا کام ہے، لیکن وہ اپنی اولادکو بہترمستقبل فراہم کرنے کی خاطر اپنے آج کی ضرورت کو پس پردہ ڈال دیتے ہیں، تاکہ ان کے لخت جگر معاشرے کے ساتھ ہمقدم چل سکے اور انہیں بہتر روزگار مل سکے۔
کیونکہ آخر کووہی ان کے بڑھاپے کا سہارا اور زندگی کا حاصل ہوتے ہیں،اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں توہمیں نظر آئے گا،کہ آج کا بچہ جوکل کا روشن مستقبل ہے اسکے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائل ہے، ”جی ہاں”!اس الیکٹرانک میڈیا نے برائی کو معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیا ہے،گھرکے ہر فرد ہربچے کے پاس جدیدالیکٹرانک ڈیوائس ہونا لازمی جزبن گیا ہے،بچوں کو ان ٹیکنالوجی سے مترادف کرواتے ہوئے ،ان کی حوصلہ افزائی کراتے ہوئے،ناجانے ہم کیوں اتنے غافل ہوجاتے ہیں،کہ پلٹ کربھی نہیں دیکھتے کہ ان چیزوں نے ان ننھے بچوں کے ذہنوں پرکیا اثرات مرتب کئے ہیں،آج کل کے والدین لیپ ٹاپ ،آئی پیڈاور ایسی ہی مہنگی وجدیدالیکٹرانک اشیاء دلانا اپنے فرض کی ادائیگی سمجھتے ہیں،تعلیم کے نام پر انہیں یہ سب سہولتیں فراہم کرکے وہ اپنے بچوں کے مستقبل سے یوں غافل ہوجاتے ہیں،گویا انہیں کسی ماہروتجربہ کاراستاد کے حوالے کردیا ہو،یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ ہرچیزکے دوپہلو ،دورخ ہوتے ہیں،الیکٹرانک میڈیا کا جہاں مثبت وکارآمدپہلو نمایاں ہے جسے دیکھ کر ہرکوئی اس کی جانب مبذول ہوجاتا ہے،وہیں اسکے منفی اثرات ہمارے معاشرے شہروملک کووائرس کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرآج کے دور جدید میں دیکھے تو الیکٹرانک میڈیا ہرگھر میں چھایا ہوا ہے،چھوٹا بچہ زرا تنگ کرے تو کارٹون نیٹ ورک لگا کر ٹی وی کے آگے بٹھا دیا۔۔۔۔۔رات کو سوئے نہیں تو نیٹ سے ڈائون لوڈکرکے کوئی کارٹون پرمبنی فلم یا ڈائون لوڈ کرکے لوری چلا دی۔۔۔۔۔
بچے کو باہر کھیل کودسے روک کر کمپیوٹر پر گیم لگا دیا۔۔۔۔یہ ہے آج کے جدید دور کے ہرگھر کی کہانی ۔۔۔۔۔۔۔!!ہماری اخلاقیات کا جنازہ تب نکلتا نظرآتا ہے،جب چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے ”LATEST MODEL”کا موبائل ہوتا ہے،ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بچوں کے مستقبل وحال کوبگاڑ رہے ہیں پھر شکائتیں کیسی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ایک وہ بھی وقت تھا جب بچے اپنے بڑے بزرگوں کے پاس بیٹھے اسلامی وسبق آموزکہانیاں وقصے سنتے تھے،اور ان کے چھوٹے ومعصوم ذہنوں کی بڑی ہی اخلاقی واسلامی انداز میں پرورش کی جاتی ہے،پردورحاضرمیں یہ سب رفتہ رفتہ معدوم ہوگیا،کہتے ہیں بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود اور آس پاس کا ماحول ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج کل کے دورمیں بچہ آس پاس کے ماحول سے کیا سیکھ رہا ہے،؟،بچے کو اتنی ہی پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جتنے ایک ننھے سے پودے کو،جیسے ایک ننھے سے پودے کی جڑ بہت ہی کمزور ہوتی ہے اور اسے توجہ اور احتیاط ایک تناور درخت میں منتقل کردیتی ہے بالکل ویسی ہی مثال ہمارے بچے کے ذہن کی ہے،ایک سروے کے مطابق آج کل ڈھائی سے تین وچار سال کے بالترتیب دس میں سے سات بچوں کی زبان پرپہلا کلمہ بعد میں گانے کے بول پہلے ہوتے ہیں،گھرآئے مہمان کے سامنے ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ”پری بیٹا،،،،،ببلوبیٹا ”آنٹی ،انکل کووہ والا SONGسنائواور ہمارے مستقبل کا فخر ہماری ہی آنکھوں کے سامنے ہماری ہی فرمائش پر لہک لہک کر اور مٹک مٹک کر گانا گاتے اور ڈانس کرتے ہیں،یہ ہے ہماری تہذیب ۔۔۔۔۔۔۔؟ جس کا گلا ہم اپنے ہی ہاتھوں گھونٹ رہے ہیں۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخ نازک پربنے گا آشیانہ ناپائیدار ہوگا۔۔۔
آج کے مستقبل کے معماروں کومووی کے نام۔۔۔ایکٹریس کے نام۔۔۔گانے وڈائیلاگ ،منہ زبانی وہاتھوں کی پوروں پریادہوتے ہیں،پر اگر ان سے صحابہ کرام کے واقعات ۔۔۔۔۔۔نبی کریم ۖ کی سیرت طیبہ ۔۔۔یا کسی مسلم رہنمائوں وسائنسدانوں کا پوچھ لیا جائے،توان سوالوں پروہ حیرت وپریشانی میں مبتلا نظرآتے ہیں،گویا چارسالہ بچے سے کوئی الجبرا کا سوال پوچھ لیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!گزشتہ زمانے میں بچے کوگھریلو ماحول ہی ایسا ملتا تھا کہ اسکے ذہن میں بڑے ہوکر ایک کامیاب انسان بننے اپنے خاندان کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام ۔۔۔۔ازدواج مطہرات ۔۔۔۔۔امام صادق ۔۔رابعہ بصری ،علامہ اقبال ،قائداعظم ،اور سرسیداحمدخاں ،جیسے نامورشخصیات کا خاکہ بھی ہوتا وہ ان کے قول ۔۔فرمان وزندگی کے نقش قدم پرعمل پیرا ہونے کی کوششیں کرتے ،پر دور حاضر میں بچے کی زندگی کا سب سے اہم خواب ہے،ایک Imaginaryہیرو بننا۔۔۔۔۔۔۔۔جوسب کچھ کرسکتا ہو،اسپائڈرمین کی طرح دیواروں پرچڑھ سکتا ہو،۔۔۔بین ٹین کی طرح پلک جھپکتے بہت کچھ کرسکے۔۔اور ہیری پوٹر ،سلامن خان وغیرہ ان کے ذہن ودماغ پرچھائے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ نازک مرحلہ جب بچے کی تعمیر وتکمیل ہونی چاہیئے ان دنوں میں بچے خوابوں وخیالوں کی دنیا میں کھوئے نظر آتے ہیں،اگر ہم اپنے بچوں کویوں ہی الیکٹرانک وسوشل میڈیا کی مرہون منت چھوڑتے رہے تو۔۔
گر ہمیں مکتب وہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہدشد۔۔۔۔۔۔!!
”یعنی اگر یہی مدرسہ واستاد ملا توپھر بچوں کاکام تمام”ایک کمہار اپنے برتن بناتے ہوئے بہت آہستہ وپیاراور احتیاط کے ساتھ اپنے ہاتھ گھماتا ہے،کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے،کہ ابھی مٹی کچی اور تازی ہے،اس لئے اس کی ساخت وبناوٹ ابھی اس کے ہاتھوں تلے ہے،وہ جیسا چاہے اس برتن کو shape دے سکتا ہے،بالکل اسی طرح ننھے بچوں کے ذہن بھی ناپختہ وکچے ہوتے ہیں،ایک کچے مٹی کے برتن کی طرح جیسے والدین اپنی سمجھ بوجھ سے اپنی مرضی سے ترتیب دے سکتے ہیں،اس لئے اپنے بچوں پرخاص توجہ دیجئے اپنے چھوٹے بچوں کی لگام اپنے ہاتھوں میں تھامیں اور انہیں صحیح منزل وراستے کی جانب راغب کریں ،ان کی ذہنی نشوونما وترتیب کے دنوں میں ان پر خاص وبہتر طریقے سے توجہ مبذول کریں ،کیونکہ انہی دنوں پر ان کی پوری زندگی کا دارومدار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!آخر کوہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہمارے بچے ایک اچھا اور کامیاب انسان بننے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے معمار بھی ہیں سونے کوکندن بنانا ہے،اپنے بچوں کی تراش خراش کرکے انہیں بہتر انسان بنانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!ہمیں اپنے بچوں کوایسا تیار کرنا ہے اور ان کی تربیت اس انداز میں کرنی ہے،کہ وہ دورماضی ودورجدیدکوساتھ لے کر چلے ۔۔۔۔۔اپنے اقتداروتہذیب کوکبھی فراموش نہ کریں۔۔۔آج کے بچے کوہم جس طرح تیار کریں گے،انہیں جوماحول فراہم کرینگے،انہیں جیسی تربیت دیں گے،وہ سب آنے والے کل میں آئندہ نسلوں میں منتقل ہوگا،اس لئے کوتاہ اندیشی کے بجائے سمجھ وبوجھ سے کام لیتے ہوئے اپنے بچوں کواچھا وبہتر گھریلو ماحول فراہم کیجئے ،آخرکوآنے والے کل میں انہیں درخشاں ستاروں پرکمند ڈالنی ہے۔
تحریر: افشاں علی (کراچی)