counter easy hit

مستقبل کی روشنی

Bacha Khan University

Bacha Khan University

تحریر: سمیر بابر
صبح کا ابهرتا سورج جہاں لوگوں کے لیے نئی امیدیں لے کر آتا ہے وہی بیتے کل کو الوداع کہہ کر نئے دن کو ویلکم کرتا ہے نئی سوچیں، امنگیں کچهہ کر دکهانے کی لگن کو اپنے ساتهہ لاتا ہے 20 جنوری کا طلوع ہوتا سورج بهی باچا خان یونیورسیٹی کے ہونہار طالبعلموں کے لیے بہت سی خواہیشیں آگے بڑهنے کی جستجو اور مستقبل کے معمار کی نوید لے کر طلوع ہوا تها ہائے افسوس جو پورے نہ ہونے دیے گئے باچا خان یونیورسٹی کی طرف بڑهتے قدم علم کی پیاس بجهاتے طالبعلم جو مستقبل میں ملک و قوم کے لیے بہت کچهہ کر دکهانے کے خواب آنکهوں میں سجائے آگے بڑهہ رہے تهے جو نہیں جانتے تهے ان کے علم کی پیاس کا آج آخری گهونٹ پینے وہ وہاں موجود ہیں وہ نہیں جانتے تهے قلم کے دشمنوں نے ان کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی پلاننگ کرلی ہے وہ نہیں جانتے تهے ان کے لیے علم حاصل کرنا ان کے ہی ملک کی آزاد ریاست میں موت کا پروانہ بن جائے گا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری جامعات پر ہمارے ملک کے روشن مستقبل پر دشمن اتنی آسانی سے کیسے ہمارے بچوں کو دن دهاڑے موت کی نیند سلادیتے ہیں ؟ چند منٹوں میں ہمارے ملک و قوم کے ہونہاروں کو اور ان کے ساتهہ جڑے رشتوں کو اور ملک کے ہر فرد کو بے موت مار جاتے ہیں یہ کیسے ہوتے ہیں کامیاب کیا ان کی پیلینگ اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ دن کی روشنی میں جہاں چاہیتے ہیں گهس جاتے ہیں کوئی روکنے والا نہیں ؟ جن کو چاہے مار جاتے ہیں کوئی آواز اٹهانے والا نہیں ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلا دہشت گردی ہے پاکستان میں جہاں بہت سی جگہیں غیر محفوظ ہیں وہی جامعات علم حاصل کرنے کی جگہیں بهی غیر محفوظ بنی ہوئ ہیں ملک میں ہر روز خون کی ہولی کهیلی جاتی ہے کیا بچے کیا جوان کیا بوڑهے سب ان حملوں میں بے آواز بے موت مارے جا رہے ہیں۔

ہمارے ملک کے محافظ ہماری عوام اور بچوں کے محافظ کہاں ہیں؟ پشاور حملے کی تکلیف دہ یاد ابهی دل سے محو نہیں ہو سکی تهی کہ علم کہ دشمنوں نے پهر ہمارے معماروں پر جان لیوا حملا کردیا پهر سے والدین نے اپنے شہزادوں کو خون میں لت پت دیکها پهر سے قوم کے زخم ادهیڑ دیے ہیں سینکڑوں والدین کے گهروں کے چراغ بجهہ چکے ہیں اور بجهتے ہی جارہے ہیں مسلسل ہمارے ملک کی یہ دہشت گردی نجانے کب ختم ہوگی اور عوام کب سکهہ کا سانس لے سکے گی۔

Terrorism

Terrorism

حکمرانوں کے بلند بانگ داعوے دهرے کے دهرے رہے جاتے ہیں جب دشمن عناصر آسانی سے ہمارے بچوں کو موت کی وادیوں میں دهکیل رہے ہیں اور دن با دن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دشمن عناصر ہمارے علم سے ہمارے قلم سے ڈرتے ہیں جبهی وہ یہ چراغ بجهانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں وہ قوم کے اندر پائے جانے والے حوصلوں اور ملک کی ترقی سے ڈرتے ہیں یہ ملک و قوم کے کهلے دشمن ہیں جو ہماری نسلوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن یہ کبهی اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونگے۔

ہمارے حوصلے کبهی پست نہیں ہونگے یہ دشمن عناصر جانتے ہیں کہ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے ملک میں ترقی اور خوشحالی لانے کا اور علم ہی ان لوگوں کی شکست کا باعث بنے گا اسکول کالج اور جامعات میں پڑهتے بچے ان کی شکست کا سامان مہیا کررہے ہیں یہ بخوبی جانتے ہیں ہمارے قابل فخر بچے آنے والے وقتوں میں اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرینگے اسی لیے یہ ڈرپوک لوگ علم حاصل کرتے بچوں اور نوجوانوں کے دشمن ہوگئے ہیں یہ ہمارے بچوں کی آواز کو دبانا چاہیتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ آواز کبهی بند نہیں ہوسکتی یہ علم کا چراغ ان بزدلانہ حملوں سے کبهی گل نہیں ہوگا بلکہ ہر چهوٹی بڑی جامعات اس علم کو اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریگی اور علم کی روشنی ہمارے پورے ملک میں اجالا لے کر آیئگی پاکستان ایک اسلامی آزاد ریاست ہے۔

علم حاصل کرنا ہر چهوٹے بڑے پر فرض ہے ملک کا ہر شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتهہ دهورہے ہیں لیکن انهیں روکنے والا کوئ نہیں جب جی چاہے اسکول میں کبهی جامعات میں تو کبهی مسجدوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور ایک پل میں سب کچهہ تہس نہس کردیتے ہیں علم حاصل کرتے بچوں پر حملا گهناونا جرم ہے دہشت گردی ان واقعات کو کہا جاتا ہے جن میں به قصور لوگوں کو ہراساں یا قتل کرکے معاشرے میں خوف پیهلایا جاتا ہو دہشتگردی ایک جدید اصطلاح نہیب بلکہ ہمیں بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اسکے آثار ملتے ہیں۔

اسلام کے نفاد کے نام پر بچیوں کے اسکول جلانے مخالفین کو سر عام پهانسی دینے اور کوڑے مارنے کے فرائض انجام دینے والے طالبان کی مخالفت کرنے والے دور دور تک نہیں ملتے جس اسلام کا نام دشمن عناصر استعمال کررہے ہیں وہ اسلام سے زیادہ ایک فرسودہ قبائلی نظام ہے ظلم کی داستان خون کی ہولی بے گناہوں کی شہادت کا یہ سلسلا کب اور کیسے ختم ہوگا؟ اسمبلی میں شور مچا نے یو ٹرن ختم کرنے اور خالی خولی داعوے کرنے سے تو کچهہ نہیں ہوگا یہ جنگ اسلحے کی جنگ نہیں ہے یہ جنگ نظریات کی جنگ ہے چند عدد سرپهرے سر پر کفن اور جسموں پر خودکش جیکیٹیں باندهے اپنے علاوہ باقی سب پر واجب القتل قرار دیتے اس پاک سرزمین کو لہو سے داغدار کر رہے ہیں۔

تکفیری نقطہ نظر کے حامل ان افراد کی واضح نشاندہی وقت کا تقاضہ ہے تکفیریت دراصل خارجیت کا جدید نام ہے اور خارجیوں نے تو خلفاء اور صحابہ کو بهی نہیں بخشا تها دہشتگردی کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا گیا ہے اور ہر قسم کے جبر تشدد اور دہشت گردی کی سختی سے مزمت کی ہے دہشت گردی انتہا پسندی سے جنم لیتی ہے اور انتہا پسندی کٹرپن سے پاکستان میں دہشتگردی عروج پر ہے جس سے ملک کی سالمیت اور بقاء کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے دہشت گردی کی عالمی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان صرف اور صرف پاکستان کو اٹهانا پڑ رہا ہے دہشت گردی میں سب سے زیادہ ہاتهہ ملک کے دشمنوں کا ہے۔

Terrorist Incidents

Terrorist Incidents

ہمارے ملک کا ہر بچہ اور اسکی زندگی ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہی بچے اپنے علم سے اپنے قلم سے ہمارے ملک کے اندهیرے مٹائے گے اور اسے بہترین ملک اور ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کرینگے اور دہشتگردی کی دردندگی کو جڑ سے اکهاڑ پهینکے گے۔

ہماری حکمرانوں اور سیکیورٹی اداروں سے اپیل ہے کہ ہر چهوٹی بڑی جامعات اور ہر اس جگہ جہاں قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے وہاں سخت سے سخت سیکیورٹی کے انتظمات کو بہتر طور پر یقینی بنایا جائے تاکہ ہمارے ملک کی ماوں کو اپنے جگر گوشوں کی موت نہ دیکهنی پڑے نہ قیمتی جانوں کا نزرانہ اس دہشت گردی کی نظر ہونا ہمیں منظور ہیں دشمن عناصر کو جلد سے جلد جہنم واسق کیا جائے اور ان کی سزاوں پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ ملک میں دہشت گردی کی روک تهام ہو سکے…..

تحریر: سمیر بابر