تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہم نے تواپنے پچھلے کالم میںہی کہہ دیاتھا کہ ہماری مستقبل کی ”خاتونِ اوّل” محترمہ ریحام خاں جھوٹ نہیںبولتیںوہ یقیناََ یونیورسٹی کانام بھول گئی ہوںگی۔ اُسی دِن اُنہوںنے ہمارے لکھے کی یوںتصدیق کی کہ اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پرلینزے یونیورسٹی کانام مٹاکر لکھ دیاکہ اُنہوںنے میڈیا جرنلزم میںماسٹرز نہیںکیا بلکہ2006ء میںکسی دوسرے انسٹی ٹیوٹ سے ایک سالہ ڈپلومہ کیاہے۔ہم نے جان بوجھ کر اُس انسٹی ٹیوٹ کانام نہیںلکھا کیونکہ ہوسکتاہے کہ کل کلاںایک دفعہ پھر”بھلکڑ” ریحام خاںیہ کہہ دیں کہ انہوںنے اِس ادارے سے نہیںبلکہ کسی دوسرے ادارے سے ڈپلومہ کیاتھا اور وہ بھی میڈیا جرنلزم میںنہیں بلکہ ”سلائی کڑھائی”میںدراصل یہ برطانوی اخبار”ڈیلی میل”اور ہمارے ”شَرپسند” الیکٹرانک میڈیاکی مشترکہ سازش اورشرارت ہے جنہوںنے ”ایویں خواہ مخوا” رائی کاپہاڑ بنادیا۔پتہ نہیں
اِس ”مَرجانی”ڈیلی میل کو دوسروںکے گھروںمیں جھانکنے کی عادتِ بَدسے کب چھٹکارا ملے گا۔بات صرف اتنی سی کہ”قومی بھابی”ریحام خاںنے اپنی ”ٹہورشہور” جمانے کے لیے فیس بُک پراپنی ایجوکیشن کے بارے میںلکھا جس پر ڈیلی میل نے افسانہ گھڑ دیااور ہمارے ”ویہلے”الیکٹرانک میڈیانے کھڑاک پہ کھڑاک۔ شنیدہے کہ نوازلیگئے اب اِس ”ٹوہ”میںہیںکہ کہیںریحام خاںکی بی اے کی ڈگری بھی جعلی تو نہیں؟۔ ہمیںیقین کہ لیگیوںکو مُنہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ ریحام خاںنے پشاورسے بی اے کی ڈگری حاصل کی اورآجکل وہ خیبرپختونخوا کی ”خاتونِ اوّل”ہیں ۔اِس لیے کسی مائی کے لال کی یہ مجال کہاںکہ وہ اُن سے ٹکرلے سکے۔ سچی بات ہے کہ ریحام خاں کی مقبولیت کودیکھ کرہم تویہ اندازے باندھ بیٹھے ہیںکہ ہوسکتاہے اگلی مرتبہ وہ وزارتِ عظمیٰ کی مسندِزریںپہ وہی جلوہ فگن ہوںاور انتہائی محترم کپتان صاحب ”گھرگرہستی” سنبھالتے نظرآئیں۔
اگرمحترمہ بینظیر پاکستان کی وزیرِاعظم اورجنابِ آصف زرداری ”مردِاوّل” ہوسکتے ہیںتوپھر محترمہ ریحام خاںوزیرِاعظم کیوںنہیں؟۔ ہم نے یہ بزرجمہری اندازہ محض ایک واقعے سے لگایا۔ ہوایوںکہ کپتان صاحب جمعے کے روزعیدالفطر بنّوںکے آئی ڈی پیزکے ساتھ مناناچاہتے تھے لیکن بُراہو موسم کاجو اُن کی راہ میں سدّّ ِسکندری بن کرکھڑا ہوگیا۔ پہلے بھی خراب موسم ہی کی بناپر لاہور ایئرپورٹ پرخاںصاحب کاہیلی کاپٹر اِدھراُدھر ”پھَڑپھڑاتا” رہااِس لیے محتاط کپتان صاحب نے توبنّوں جانے کاارادہ ترک کردیا لیکن قومی دردرکھنے والی ریحام خاںکاارادہ متزلزل نہ ہوسکا۔ وہ جان ہتھیلی پررکھ کرپروٹوکول کی 16 گاڑیوںاور 450 سپاہیوںکے جلَومیں بنّوںجا پہنچیں۔ ایسی قومی دردرکھنے والی خاتون کا وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ پرفائز ہونے کاحق توبنتا ہے دوستو!۔
محترمہ ریحام خاںکی بے پناہ مقبولیت کودیکھ کرنوازلیگئے توجَل بھُن کر”سیخ کباب”ہی ہوگئے ۔اُنہیںاور کچھ نہ سوجھی تواُن کے پیٹوںمیں یہ مروڑاُٹھنے لگے کہ آخرپروٹوکول کی 16 گاڑیوںاور 450 سپاہیوںکی کیاضرورت تھی ۔ عرض ہے کہ یہ امیرالمومنین حضرت عمر کادَور نہیںکہ مسجدِنبوی میںجھاڑو دیتے دیتے تھک جائیںتو وہیںچٹائی پرلیٹ کرسو جائیں، کوئی محافظ نہ کوئی دربان۔ یہ اکیسویںصدی ہے جس کے اپنے تقاضے ہیںاوراوّلین تقاضہ نمودونمائش۔ اگرسبھی اِس بہتی گنگامیں ہاتھ دھورہے ہیںتو پھرمستقبل کی وزیرِاعظم یا کم ازکم ”خاتونِ اوّل”ریحام خاںکیوں نہیں۔ دراصل یہ سب کیادھرااِن استحصالی مردوںکا ہے جن کو”ٹھنڈے پیٹوں” کسی خاتون کی مقبولیت ہضم ہی نہیںہوتی ۔یقیناََ این جی اوز کی خواتین اِس معاملے پرمتحرک ہوتیںلیکن آجکل وہ بیچاری تو خود گرفتارِبَلا ہیںکیونکہ چودھری نثاراحمد نامی ایک” استحصالی مَرد” اُن کے پیچھے ”لَٹھ” لے کرپڑا ہے۔چودھری نثار کوتو رکھیئے ایک طرف ،اب توچیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے ہیں۔
خواتین سے بغض ،عداوت اورکینہ رکھنے والاشیخ رشیداحمد کہتاہے ”میںعمران خاںکی ڈگری کی صفائی تودے سکتاہوں لیکن ریحام خاںکی ڈگری کی نہیں”۔ یہ وہی شیخ رشیدہے جوہر وقت اورہر جگہ ہمارے کپتان صاحب کا ”بغل بچہ”بنا پھرتاہے لیکن جہاںریحام خاںکا ذکرآیا وہاںوہ بھی طنزکے تیرچلانے سے بازنہ آیا۔ بندہ پوچھے کہ اُس سے صفائی مانگی کس نے ہے اوراُس کی گواہی کی ریحام خاںجیسی ”قَدآور” شخصیت کے سامنے حیثیت ہی کیاہے؟۔ جب کپتان صاحب نے خودہی ایک ٹاک شو میںیہ وضاحت کردی کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے ،اصلی یانقلی ہونے کاسوال توتب اُٹھے جب اُس ڈگری کی بنیادپر کوئی ملازمت حاصل کی جائے ۔اگرریحام خاںکی ڈگری جعلی ہوتی توبی بی سی والے ہی اسے نکال دیتے اِس لیے ریحام خاںکی ڈگری” اصلی” ہے۔ خاںصاحب کی اِس ”ارسطوانہ”وضاحت کے بعدتو بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیںبچتی۔
طنز کے تیرچلا نے والوںسے پوچھاجا سکتاہے کہ اگربابراعوان جیسے لوگ کسی ”نامعلوم” یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے تادم ِ تحریر”ڈاکٹر بابراعوان ” کہلاسکتے ہیںتوپھرریحام خاںکی ڈگری پرشورِقیامت کیوں؟۔ شنیدہے کہ بابراعوان توپی ایچ ڈی کی 2 ڈگریاںلے کرآئے تھے ،ایک خودرکھ لی اوردوسری رحمٰن ملک صاحب کی خدمت میںبطور ہدیہ پیش کی لیکن ملک صاحب نے یہ ڈگری لینے سے انکارکر دیاکیونکہ اُن کے پاس توپہلے ہی ایسی ڈھیروںڈھیر ڈگریاںپڑی تھیں۔ اب پتہ نہیںبابراعوان صاحب نے یہ ڈگری کِس کوفروخت کی۔بات شیخ رشیدصاحب کی ہورہی تھی لیکن بات سے بات یوںنکلی کہ کسی اور طرف ہی چلی گئی ۔ہم کہہ رہے تھے کہ شیخ رشیدصاحب کے کہے کی کوئی حیثیت نہیںکیونکہ اُنہوںنے تویہاں تک کہہ دیا ”پرویزمشرف کادَور اِس جمہوری دَورسے بہترتھا ،وہ کرپٹ نہیںتھے۔
سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کے دن گنے جاچکے ،الیکشن کمیشن کافیصلہ سامنے آتے ہی عمران خاںلالک چوک میںکھڑا ہوگا۔ اکتوبراور نومبرتبدیلی کے لیے اہم مہینے ہیں”۔ عرض ہے کہ بلی کوہمیشہ چھیچھڑوںکے خواب ہی آتے ہیں۔ پہلے نوازلیگ اورپھر قاف لیگ میںوزارتوںکے مزے لوٹنے والے شیخ رشیدکو وہ ”سنہرے دِن” بھلائے نہیںبھولتے جب وہ پروٹوکول کے مزے لوٹاکرتے تھے۔آجکل تووہ لال حویلی کے ”تھَڑے”پربیٹھے سموسے پکوڑے کھاتے پائے جاتے ہیںلیکن سمجھتے وہ اب بھی اپنے آپ کو ”وزیرشزیر”ہی ہیں۔ جب سے اُن کاوزارتوں سے ناطہ ٹوٹاہے وہ ایسی ہی پیشین گوئیاں”پھڑکا”کر”دَل پشوری”کرتے رہتے ہیں۔ ہم تواُنہیں یہی مشورہ دیںگے کہ وہ فال نکالنے والاطوطا لے کرکسی فُٹ پاتھ پربیٹھ رہیں۔جتنے چَرب زبان وہ ہیں، وثوق سے کہاجا سکتاہے
اُن کایہ کاروبار خوب چمکے گا۔لال حویلی والے نے یہ توکہہ دیاکہ اکتوبرنومبر اہم مہینے ہیںلیکن نہ تواُنہوں نے سال بتایا اورنہ ہی یہ کہ اُن کے نزدیک یہ مہینے اہم کیوںہیں؟۔ ویسے توہم بھی پیشین گوئی کرسکتے ہیںکہ اکتوبرنومبر 2017ء انتہائی اہم مہینے ہوںگے کیونکہ اِن دنوںعام انتخابات کی آمدآمد ہوگی اورسیاسی سرگرمیاں عروج پر۔ شیخ صاحب نے آمریت کوجمہوریت پرترجیح دیتے ہوئے دَورِمشرف کی تعریف بھی کی اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ پرویزمشرف کرپٹ نہیںتھا۔ سوال مگریہ کہ کیاکبھی کسی نے کسی گورنمنٹ ملازم کو کروڑوں ،اربوںمیں کھیلتے دیکھا؟۔
اگرنہیں توپرویزمشرف کے پاس اتنی دولت کہاںسے آئی؟۔ دراصل لال حویلی والے کوکہیں سے بھنک پڑگئی کہ نوازلیگ سمیت دیگرسیاسی جماعتوںسے نکلے یانکالے گئے لوگ پرویزمشرف کی سربراہی میں”متحدہ مسلم لیگ” تشکیل دے رہے ہیں۔ شیخ صاحب کواور کوئی جماعت تو ”قبولنے” کوتیار نہیںاسی لیے اُنہوںنے سوچاہوگا کہ شاید آمر پرویزمشرف کی ”کاسہ لیسی” کرنے سے ”کام”بن ہی جائے۔اُدھرکپتان صاحب بھی آجکل شیخ صاحب کوکَم کَم ہی ”لفٹ”کرواتے ہیںاِس لیے اُنہوں نے کہیںنہ کہیںتو زانوئے تلمذ تہ کرنا ہی ہے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر