counter easy hit

گنجیال کے سید کا سچ

Asghar Ali Shah

Asghar Ali Shah

تحریر : ایم آر ملک
میانوالی سے خوشاب کی جانب عازم سفر ہوں تو قائد پاکستان کے نام پر وجود میں آنے والے قصباتی شہر قائد آباد سے چند لمحات کی مسافت پر ایک اللہ والے کا آستانہ ہے جس کے قدموں میں شہنشاہی پڑی ہوتی ہے ایک معروف روحانی ہستی سیّد عبداللہ شاہ گیلانی کا مزار اقدس جہاں ایک نورانی چہرے والے سفید باریش سیّد اصغر علی شاہ گیلانی روحانیت کی دولت سے زنگ آلود دلوں کو منور کرنے میں ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں گنجیال کے اِس سیّد کے دیدار کا شرف حاصل کرنے والے میرے جیسے انسانوںکے سر پر رکھی جھوٹی انا کی پگ نیچے گر جاتی ہے مدتوں بعد جب اُن کی محفل نصیب ہوتی ہے تو سچائی کے موتی میں سمیٹ نہیں پاتا سارا درد اور دُکھ اُن کے چہرے پر وطن عزیز کے باسیوں کیلئے سمٹ آتا ہے ”لعنت ہو اس نظام پر جو جوانی کے ثمرات خود حاصل کرے اور بڑھاپے کو بے آسرا چھوڑ دے ”گنجیال کے سیّد نے کہا کہ یہ الفاظ حضرت عمر فاروق نے مکہ کی گلی میں ایک بوڑے یہودی کی بے بسی پر کہے تھے قانون فطرت جب حرکت میں آتا ہے تو بوسیدہ نظام کو ملیا میٹ کر دیتا ہے مکافات عمل اس دنیا میں موجود ہیں یہ نظام جسے رائے ونڈ کی شہنشاہیت اور سرے محل کا زرداری بچانے کے چکر میں ہے اب اپنے اختتام پر مہر ثبت کرنے والا ہے یہ انسانیت کا نظام نہیں جس میں ایک قلیل طبقہ خوشیوں ،مسکراہٹوں اور قہقہوں سے لبریز ہو اور ایک کثیر طبقہ آنسوئوں ،آہوں اور سسکیوں کا منبع ہو۔

یہ طبقاتی نظام ضرور بدلے گا جس میں ایک طرف فائیو سٹار ،فلک بوس عمارتیں ،پلازے سرے محل ،رائے ونڈ محلات ہیں تو دوسری طرف ٹوٹے ،پھوٹے کچے جھونپڑوں میں عسرت زدہ غربت ،بے سرو سامانیاں۔ وہ تعفن زدہ نظام بدلنے کی ضرورت ہے جس میں ایک طرف اعلیٰ کے انگلش میڈیم سکولوں ،کالجوں میں خوش لباس لڑکے اور لڑکیاں لمبی لمبی کاروں میں آتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف ننگ دھڑنگ بے لباس بچے (جن کے نام پر ہمارے حکمران بچوں کا عالمی دن مناتے ہیں اور یو این او سے ایڈ لیتے ہیں )بے بسی ،بے کسی اور بے چارگی کی قابل رحم یہ تصویریں توجہ مانگتی ہیں۔

وہ سٹیٹس کو بدلنے کی ضرورت ہے جس میں ٹی وی چینلز پر سکھلائی جانے والی کھانا پکانے کی نام نہاد تراکیب کے مطابق قیمتی ڈش تیار کرنے کی کوشش پر ہزاروں روپے ضائع کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف غریب و نادار وطن عزیز کے باسی جن کے بچے نان جویں کو ترستے ہیں۔گنجیال کا سیّد کہہ رہاتھا کہ 67سالہ غنڈہ راج بدلنے کی ضرورت ہے جس میں ایک طرف ایسے ایسے سرمایہ دار ،جاگیر دار ،وڈیرے موجود ہیں جن کو خود بھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ اُن کے بینک بیلنس اور جائدادیں کتنی اور کن کن ممالک میں موجود ہیں تو دوسری طرف قائدآباد جیسے شہر میں پانچ مرلہ سکیم میں ایک ایک دو دو مرلہ کے ڈربہ نما مکانوں میں بال بچوں کے ساتھ رہ کر خدا کا شکر کرنے والے قناعت پسند غریب مزدور۔

قوم پر مسلط غلیظ خاندانی راج کو بدلنے کی ضرورت ہے جس میں ایک طرف بڑے بڑے شاپنگ سنٹروں پر لیموزین کاروں والا سرمایہ دار طبقہ لاکھوں روپے کی شاپنگ کرتا ہے تو دوسری طرف محدود آمدن والا طبقہ اپنے سردی میں ٹھٹھرتے معصوم بچوں کیلئے لنڈے بازار کے استعمال شدہ کپڑے خریدنے پر مجبور ہے ۔۔۔۔۔۔ شاہ جی کہہ رہے تھے کہ اُن سچی حقیقتوں کو لکھو جو کسی بوسیدہ کتاب کی مانند ہو گئی ہیں اُس طبقہ کیلئے لکھو جسے جینے کے مفہوم سے ناآشنائی ہے جن کا ہر لمحہ ستم ظریفیوں اور کاٹ دار باتوں کی نذر ہو گیا ہے جن کی خوشیان ریت کے گھروندوں کی مانند ہیں جن کے دل لہو لہو ہیں اور سینے ستم کے بے شمار پتھروں سے چھلنی ہیں جو تقدیر کے ہاتھوں کھلونا تھے ہی لیکن 5فیصد طبقے کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں جن کا ہر لمحہ آزادی کیلئے ترستا ہے اور روحیں 67برسوں سے قفس میں جکڑی ہو ئی ہیںغربت کی وجہ سے جس کی عزتیں محفوظ نہیں اور وہ موت کی خواہش کا اظہار موت کی صورت میں کر رہا ہے۔

اقبال کی دھرتی پر قابض اُن فرعونوں پر لکھو جنہوں نے اپنی نجی جیلوں میں اس دھرتی کے باسیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر اُن سے صدائیں تک چھین لیں اُن مظلوموں پر لکھو جو تڑپتے ہیں ،روتے ہیں اور رو کر اس دھرتی کے فرعونوں سے فریاد کناں ہیں کہ ہم سے ہمارے خواب نہ چھینو ،ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاںہمیں لوٹا دو ہمیں وہ آنکھیں لادو جو خوابوں کی وادی میں اپنے سکھ تلاش کرتی ہیں ہمیں وہ گلیاں لادو جو صحن گلشن کی رونق تھیں۔۔۔۔یہ اُس لوٹ مار کے نظام کا ثمر ہے کہ ایک ایم اے پاس چائے کا کھوکھا لگا کر لوگوں کے آگے چائے رکھتا ہے اور دوسری طرف اس نظام کا پلا ہوا ایک ایم این اے اور ایم پی اے کا انڈر مڈل بھتیجا اے سی کمروں میں بیٹھ کر انسانیت کی فلاح و بہبود کی فائلوں پر سائن کر کے اُس ایم اے پاس نوجوان کا تمسخر اُڑاتا ہے،اِک عرصہ ہوا اِ س قوم کے زردی مائل چہرے ہر نکھار نہیں آیا اس نظام کی وجہ ہے کہ ہر باسی خائف ہے معصوم بچوں پر سرِ عام گولیاں برسائی جارہی ہیں زندگی کو کوئی تحفظ نہیں رہا ،فاصلے سمٹنے کے بجائے سوا ہوتے جارہے ہیں۔

وہ طبقہ اپنے نظام سمیت ملیا میٹ ہونے والا ہے مصطفوی انقلاب اس قوم کا مقدر بن چکا عوامی تحریک نے رستہ بدلا ہے نظریہ نہیں ایک ایسا نظام جو لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلے گا جس میں بے سکوں فٹ پاتھ کی بے حس زمیں پر کوئی بھوکا نہیں سوئے گا کسی کی چار دیواری کے اندر بھوک رات کو شب خوں نہیں مارے گی اور بھوک کو بھوک نہیں کھائے گی خاموش جذبوں کو زباں دینے کی رُت آنے والی ہے ۔۔۔۔شاہ جی کی محفل سے اُٹھے تو مجھے اپنے شہر کاعظیم شاعر ڈاکٹر خیال امروہی یادآیا جس نے اس قوم پر 67برسوں سے مسلط طبقہ کے بارے میں کہا تھا
سُلگ رہے ہیں تمہیں بھی جلا کے دم لیں گے
زمیں کی آگ آسماں پہ لگا کے دم لیں گے
بِلک بِلک کے جو سوگئے ہیںمنحنی بچے
ہم اُن کی بھوک کا عالم دکھا کے دم لیں گے

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک