تحریر : انور جمال انور
دو مسلح گروپس میں تصادم کے نتیجے میں ایک اڑتی ہوئی گولی آ کر اسے لگی اور وہ پٹ سے گر کر ہلاک ہو گیا ،،،، اب اس کی لاش سڑک کنارے پڑی تھی ،،، سڑک کے بجائے اسے گلی کہنا زیادہ بہتر ہو گا ،،، اس گلی میں اب سے کچھ دیر بعد دو ایونٹس ہونے والے تھے . ایک نماز دوسرا مشاعرہ ،،،، گلی کے ایک کونے پر نورانی مسجد تھی جس میں عشاء کی اذان ہو چکی تھی امام صاحب کا انتظار تھا ،، دوسرے کونے پر ایم اے ناساز صاحب کا گھر تھا جہاں ماہانہ مشاعرہ منعقد ہونے کو تھا ،،، سنسان گلی ایک لاش کا بوجھ اٹھائے منتظر تھی کہ کوئی آئے اور اس کو ورثاء کے حوالے کرنے کا انتظام کرے ،،،جماعت ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے جب امام صاحب کی سائیکل گلی میں نمودار ہوئی
اس وقت تک ایک نوجوان و نوموز شاعر بھی لاش کے قریب پہنچ چکا تھا ،،، امام صاحب نے سائیکل روکی ،،، انا للہ و انا علیہ راجعون ,, مولوی صاحب نے قرات کی ،، کون ھے یہ بدنصیب شخص ؟ شلوار کے اٹھے ہوئے پائنچوں سے تو دیوبندی معلوم ہوتا ھے . نوآموز شاعر بولا ،، امام صاحب ! یہ ایک انسان ھے ،اچھا ہوا آپ آ گئے ، اسے خون آلود جگہ سے ہٹانے میں میری مدد کریں ،، امام صاحب دو قدم پیچھے ہٹ گئے ، کہا ،، صرف دو منٹ بعد جماعت ھے اگر اسے ہاتھ لگایا تو وضو جاتا رھے گا ، خون کے چھینٹے پڑنے سے کپڑے بھی ناپاک ہوجائيں گے ،،
آؤ پہلے نماز پڑھ لیں پھر اس کا کچھ کرتے ہیں ، شہر میں قتل و غارت تو روز کا معمول ھے ،،،، امام صاحب کے اصرار پر نو آموز لاش چھوڑ کر ان کے ساتھ چل پڑا ، باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد اسے توقع تھی کہ اب امام صاحب لوگوں کو اس ناحق قتل کے بارے میں بتائيں گے جس کے نتیجے میں ایک شخص مردہ حالت میں باہر پڑا تھا ،،، مگر ایسا کچھ نہ ہوا ،، انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے اور رٹی رٹائی دعاؤں کے اسٹاک میں سے نکال نکال کر وہی روز مرہ کی دعائيں مانگنے لگے یااللہ ہم سب کو پنج وقتہ نمازی بنا ،،، اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے نمازی بھی تنویمی عمل کا شکار لگ رھے تھے ،،،
ہر دعا کے بعد ،، آمین ،، کہنا نہ بھولتے ،،، نوآموز دعاؤں اور اپنے خیالات کے درمیان گڈ مڈ ہونے لگا ،،،اس کی سوچیں اور امام صاحب کی دعائیں شیر و شکر ھونے لگیں,, یا اللہ ہم سب کو پنج وقتہ نمازی بنا ہر چند کہ مسجد کے باہر ایک بے گور و کفن لاش پڑی ھے ،،، آمین ،،،، ہمیں اپنے نبی کی سچی غلامی عطا فرما ،،، آمین ،،،وہ لاش ایک کچرا چننے والے کی ھے جس کا بڑا سا تھیلا بھی وہیں گرا ہوا ھے ،،، اس تھیلے میں اس کی دن بھر کی کمائی یعنی پلاسٹک کی بوتلیں اور گتے کے ٹکڑے وغیرہ ہو سکتے ہیں ،، یا اللہ دین _ اسلام کی حفاظت فرما ،،، آمین ،،،
نوآموز کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ اچانک گر گئے ،، وہ مسجد سے نکل کر باہر آگیا ،،، انسانوں کی حفاظت کی کسی کو فکر نہیں ،، اس نے حقارت سے سوچا اور ایک بار پھر لاش کی جانب چل پڑا ،،،، لاش اپنے ہی خون میں ڈوبی سوکھ رہی تھی ،،،.. اب اس کے گرد دو تین شاعر اور بھی جمع ھو چکے تھے ،،کیونکہ ایم اے ناساز صاحب کے گھر مشاعرہ شروع ہوا چاہتا تھا ،،، دور دور سے شاعر حضرات پہنچ رھے تھے ،، میاں کس کس لاش کا ماتم کریں ،،، ان میں سے ایک کہہ رہا تھا،، ہر روز جنازہ اٹھتا ھے ،،
دوسرے نے کہا عجیب اتفاق ھے ،، آج ہی میں نے ایک تازہ نوحہ لکھا ھے ،، تیسرے نے کہا ،، ارشاد ہو ،،، پہلے نے کہا ،، نہیں ، یہاں نہیں ،،، نوحہ سنانے کا مزہ تو محفل میں آئے گا ،، دوسرے نے کہا ،، چلیں پھر محفل کا آعاز کرتے ہیں ،، تیسرے نے کہا ،، ہاں ،، ہاں ،، وہ رہا قبلہ ناساز صاحب کا گھر ،، آؤ چلیں ،،،نوآموز چیخ پڑا ،، مگر اس لاش کا کیا ؟ پہلے نے حیرت سے پوچھا ،، یہ بد اخلاق لڑکا کون ھے میاں دوسرے نےجائزہ لیتے ہوۓ کہا ،، یہ بھی شاعر لگتا ھے ،، تیسرے نے کہا ،،
بے شک ! ھے تو شاعر مگر ابھی نوآموز ھے ،، وہ تینوں اسے چھوڑ کر جانے لگے ،،مجبور ہو کر وہ بھی ان کے پیچھے ہو لیا ،، محفل _ شعر و سخن میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ہر کوئی لاش ، فائرنگ اور قتل کی باتیں ہی کر رہا ھے ،،، اسے خوشی ہوئی ،،، گویا لوگوں کو اپنے جیسے ایک انسان کے مرنے کی پرواہ تھی ،، ایک خاتون شاعرہ نے دبے لفظوں میں کہا ،، اس گلی کے لوگ کتنے بے حس ہیں کہ لاش اٹھانے کے لیے کوئی پولیس کو فون تک نہیں کر رہا ، ،،کسی نے کہا ،، آہستہ بولیں ،، ناساز صاحب بھی اسی گلی میں رہتے ہیں ،،، برا مان جائيں گے ،، باہر ایک انسان کی موت کے باوجود ناساز صاحب کے گھر مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہو گيا ،،، ہر طرف سے واہ واہ اور داد و تحسین کی صدائيں بلند ہونے لگيں ،، ،
نو آموز نے اپنا نام سامعین میں لکھوایا تھا مگر آج نہ وہ کچھ سن رہا تھا نہ کسی کو داد دے رہا تھا ،،اس کے اندر کا غبار بڑھتا ہی جا رہا تھا،،، یہ کیسے لوگ ہیں ،،، ان کا ضمیر کیسے گوارا کر سکتا ھے کہ اپنی تقاریب کو جاری رکھیں ،،،شہر میں ہر روز دس سے پندرہ اموات کے باوجود یہ اپنی محفلوں میں مست ہیں ،،سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ھے کہنے والے لوگ عملی طور پر اتنے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں ،،، واہ واہ ،،، کیا کہنے ،،، مکرر ارشاد ،،، بھئ سبحان اللہ ،، بلند آوازیں اس کے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگيں ،، یک لخت وہ اٹھ کھڑا ہوا ،،.
مسجد میں دعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کا گرنا اور یہاں مشاعرے سے اٹھ جانا ،،، دونوں کی ایک سی کیفیت تھی ،،.،،،، اور وہ کیفیت تھی ،،، شدید نفرت کی ،، جب وہ دوبارہ سڑک کنارے پہنچا تو وہاں سے دور جاتی ہوئی ایک ایمبولینس دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا .. کچرا چننے والے کا تھیلا وہیں پڑا تھا ،،،جانے کیا سوچ کر اس نے تھیلا کھولا ،،،، تھیلے میں پلاسٹک کی بوتلیں اور کاغذ کے ٹکڑے وغیرہ تھے ، اس نے اپنی شعر و شاعری سے بھری ڈائری بھی اس کچرے میں شامل کر دی اور آگے بڑھ گیا ،
تحریر : انور جمال انور
03132441801