زندگی میں آدمی دل بہلانے کو کوئی نہ کوئی مشغلہ اختیار کر لیتا ہے۔ کسی کےلیے ویڈیو گیمز تو کسی کو ٹکٹ جمع کرنے کا شوق، کوئی پرانی تصاویر کا شوقین تو کسی کو جانوروں سے پیار، کسی کو باڈی بلڈنگ کا خبط تو کسی کے دن رات فیس بک کی نذر۔ ان تمام چیزوں میں جو شوق زندگی اور فطرت کے قریب ترین ہے وہ ہے باغبانی۔ آپ اسے شوق کہہ لیجیے، جُزوقتی کام یا پیشہ، مالی بننا آدمی کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے؛ صرف دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ زندگی کے نشیب و فراز زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں کاشت کرکے سمجھ میں آجاتے ہیں۔
مالی بھی ایک اچھے استاد کی طرح مستقبل کو دیکھ کر کام کرتا ہے۔ جہاں آپ کو بنجر زمین اور چند مردہ بیج نظر آتے ہیں وہیں اسے پھلوں سے لدے باغ اور اناج سے بھرپور لہلہاتے کھیت دکھتے ہیں۔ صوفیاء کی طرح اسے بھی ’’موجودہ حالات‘‘ ہمت چھوڑ دینے پر راغب نہیں کرسکتے۔ اسے گھپ اندھیرے میں بھی اجالا دکھائی دیتا ہے اور مشائخ کی طرح اسے بھی سینچنے کا فن آتا ہے۔ یہ بھی ایک ایک بیج کی کسی اچھے استاد کی مانند دیکھ بھال کرتا ہے۔ مٹی ڈالتا ہے، پانی دیتا ہے، روشنی ٹھیک سے پہنچے یہ ممکن بناتا ہے، کھاد ڈالتا ہے اور پھر توکل کرتا ہے۔ اللہ جیسے انسانوں کےلیے ہدایت کے راستے کھولتا ہے ایسے ہی یہ بیج بھی حکم ملتے ہی نامساعد حالات کے باوجود زمین کا سینہ پھاڑ کر نکل پڑتے ہیں۔
پتوں کے نکلنے سے شاخیں اور تنا بننے تک اور ایک ناتواں پودے سے مضبوط تناور درخت بننے تک، یہ مالی والدین کی طرح ان پودوں کو ہر چیز سے بچاتا ہے۔ بیمار ہو جائیں تو دوائی کا چھڑکاؤ کرتا ہے، رخ یا سمت بدل جائے تو کسی لکڑی کے ساتھ باندھ دیتا ہے (جیسا ہم اپنے بچوں کو کسی اللہ والے کی مجلس میں لے جاتے ہیں کہ رُخ سیدھا رہے)۔
جس طرح سوال کا کوئی وقت مقرر نہیں، یہ ہر وقت دماغ میں آتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح مالی کے باغیچے میں خودرو پودے اگتے رہتے ہیں۔ جواب کا وقت متعین ہے، یہ علم کا وہ رزق ہے جو اپنے وقت پر آکر رہتا ہے۔ اور جب علم آتا ہے تو نیک و بد میں کیا، کافر و مومن تک میں امتیاز نہیں کرتا۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑا پیار ہے، وہ اسے فائدہ پہنچانے کےلیے کسی نہ کسی کو ذریعہ بنا ہی دیتا ہے۔ مالی بھی مقررہ وقت پر ساری خودرو جڑی بوٹیاں کاٹ کر زمین ہموار کر دیتا ہے کہ اس کے بعد جو رہے وہ بھی دلیل پر، اور جو نہ رہے وہ بھی دلیل پر۔ مالی اپنے خیالات میں کسی صاحب کشف کی طرح وہ لمحات بھی جی لیتا ہے جو واقع بھی نہیں ہوئے ہوتے۔
مالی کو بھی پتا ہوتا ہے کہ کون سے پودوں کی آج کے معاشرے میں ضرورت ہے اور کس کی نہیں۔ وہ بھی دیکھتا ہے کہ یکساں ماحول میں یکساں وسائل و سہولیات کے ساتھ کوئی کانٹا بنا، کوئی کیکر تو کوئی گلاب۔ کوئی گنا بن گیا کہ کامل مٹھاس، کاٹ دو، توڑ دو، چوس لو یا مشین کے پاٹوں میں پیس ڈالو، سوائے مٹھاس کے کچھ نہیں نکلے گا۔ تو کوئی گلاب جو ساتھ میں لگے کانٹوں کو بھی معطر کردے۔ کوئی ایسا جو پکا کے کھا سکنے کے قابل نکلا تو کسی نے لکڑی کے طور پر اپنا آپ پیش کر دیا کہ جیسے ڈھال لیجیے، حضور کی مرضی۔ اور کوئی جان دے کر جلنے کے قابل ہوا کہ دوسروں کو روشنی و حرارت تو پہنچے۔ اور کچھ پودے صرف اس قابل ہیں کہ انہیں گملے میں سجا کر کسی کو تحفے میں دے دیا جائے۔
مالی کی محنت، جذبے اور مستقل مزاجی کو داد اس کےسینچے ہوئے درخت ضرور دیتے ہیں۔ وہ معاشرے سے بہت کم لے کر بہت کچھ دیتے ہیں۔ ان کا ہر ہر انگ قابل نفع ہو جاتا ہے۔ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، وہ نقل مکانی نہیں کرتے۔ سچ کی طرح اپنی زمین پر گڑے اور کھڑے رہتے ہیں۔ جھوٹ کی کتنی ہی آندھیاں چلیں، سرخرو وہی ہوتے ہیں۔
جس درخت کو جتنا پھل ملے وہ اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے۔ ہر درخت کو اپنی ہر شاخ اور اس سے لگے پھل کا پتا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کتنے گھونسلے بنے اور کتنی زندگیاں اس کے سائے تلے پروان چڑھیں۔ اگر شیخ کو یہی پتا نہ ہو کہ اس کے سالک میں کتنے پھل اور کتنے کانٹے لگے تو وہ مرشد ہی کیونکر ہوا؟ اسے چاہیے کہ باغبانی چھوڑ کر گُلی ڈنڈا کھیلے۔ اور مرید کو بھی سوچنا ہی چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں سے کہاں کہاں، کس کس کو بار کر رہا ہے۔
انسان کو برداشت درختوں سے سیکھنی چاہیے کہ جو اسے کاٹ رہا ہوتا ہے وہ اُسے بھی چھاؤں دیتا ہے، مگر مالی کی نظر پڑگئی تو کاٹنے والے کی خیر نہیں۔
آئیے، ہم سب اپنا اپنا مالی ڈھونڈتے ہیں۔ ہر بیج کا ایک مالی ہے اور ہر مالی کسی کا درخت۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ باتیں آپ کی سمجھ میں آجائیں۔
اتنا کرو کہ سیپ فراہم کرو ہمیں
قطرے بنیں گے کیسے گہر ہم پہ چھوڑ دو