تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
عجیب دور ہے یہ زندگی تباہ ہے یہاں صلہ وفا کا نہیں ظلم کا حساب نہیں لوگ اپنے دیئے گئے ووت کو امانت سجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ مگرووٹ دینے والے نادانوں کو سیاسی جرائم کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ ووٹ دے کر خود اپنے ہی جال میں ووٹر پھنس ٓگیا۔ سندھ میں گذشتہ 30 سالوں سے ایسا حشر برپا ہے کہ کہیں سانس لینے کی بھی لوگوں کو مہلت نہیں ہے۔اس صوبے پر ایک قیامت بپا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے۔
ہر شخص اپنے رب سے یہ گستاخانہ سوال کرتا ہے کہ ” اے ہمارے اللہ! دونوں جہانوں کے خالق و پالنہار!!! کیا ہمارے اعمال اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ تو نے ہم پر حکمرانوں کا عذاب نازل کیا ہوا ہے؟“ کہیں رحم دلی اور ہمدردی کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔ہر جانب ایک لوٹ سی لگی ہے ۔با عزت بے عزت ہوئے جا رہے ہیں اور کم ظرف با عزت ہوئے جا رہے ہیں۔سول سوسائٹی اور سیکولرزم کے نام پر جہاں دین و اخلاقیات کا دور دور پتہ نہیں ہے۔ہر جانب قتل و غارت اور اور مالِ مفت پر دلِ بے رحم قابض ہوتا چلا جا رہا ہے۔
محنت کش جو سب سے زیادہ رزقِ حلال کماتا ہے ۔ اُس کے لہو کی یہاں کوئی قیمت نہیں ہے ۔شرفا بے بس اور لاچارہیں۔اس ملک کے حکمران دہشت گردوں کے ہم نوا ہیں۔ کیونکہ ان کے اقتدار کو ہر چہار جابنین سے خطرات نے گھیرا ہوا ہے۔ ان کی کیفیت یہ ہے ”گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل“ بلدیہ کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں11 ستمبر2012 ،کو جو آگ لگائی گئی تھی ، اس نے کراچی کے تقریباََ 250،خاندانوں پر قیامت صُغرا بپا کر دی تھی۔ جس کی زدمیںقریباََ دھائی ہزار نفوس آگئے ا ور 258 ،جیتے جاگتے انسانوں کو بھتہ مافیہ حکمرانوں کی حوس دولت کی آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا۔اور اس کے بعد ڈراموں پر ڈرامے کھیلے گئے۔
جس میں اقتدار مافیہ کے سندھ میں تمام کے تمام ہی مہرے برابر کے شریک تھے، بڑے مہروں نے بڑی چالیں اور چھوٹے مہروں نے چھوٹی چالیں چلیں۔یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں ایوانِ وزیر اعظم کے مہرے بھی متحرک دیکھے گئے۔اس کے بعد لہو میں لتھڑے ہاتھوں نے دستانے پہن لئے اور ہر جانب سے جھوٹا وا ویلاایسا شروع کیا گیا کہ کان پڑی آواز تک سُنائی نہ دیتی تھی۔JIT،رپورٹ سے لگتا ہے مجرم بے گناہ ٹہرے اور متاثرہ لوگ مجرم ٹہرا دیئے گئے۔اور جیل کی سلاخوں کےپچھے انہیں دھکیل کر کہانی کایہ باب ہی ہمیشہ کیلئے بند کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔مگر جرم کو ہمیشہ کے لئے چھُپا لینا بعض اوقات نہایت مشکل امر بن جاتا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ کون اس قیامتِ صُغرا ءکے ڈھانے والے تھے؟(جے آئی ٹی (JIT,جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، جس میں ایس پی صدر ڈیویژن،آئی ایس آئی، آئی بی،پاکستان رینجرزاور ایف آئی اے کے ادارے کے لوگ شامل تھے ۔جسکی مرتنب کر دہ رپورٹ کو رینجرز نے 6 ، فروری2015 ,، کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا۔جو انکشافات سے بھری رپورٹ تھی ۔ اُس رپورٹ نے پاکستان کے ہر فرد کے رونگٹے کھڑے کر دیئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کے ضلع جنوبی سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں ملزم محمد رضوان قریشی ولد اقبال الدین قریشی کو جو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کا کارکن ہے
کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔اس نے ,22جون 2013،کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو بیان دیتے ہوئے بلدیہ ٹاﺅن کی فیکٹری میں لگائی جانے وا لی آگ کا اعترافِ جرم کیا۔بتایا جاتا ہے کہ یہ آگ کسی حادثے کے نتیجہ میں نہیں لگی تھی۔ بلکہ فیکٹری کو مجرمانہ کاروائی کے نتجے میں نذر ِآتش کیا کیا گیا تھا۔ملزم رضوان قریشی ،کے ایم سی میں سینیٹری ملازم ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اگست ،2012 ، میںپارٹی کے اعلیٰ عہدیداران نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے فیکٹری انٹر پرائزز کے مالکان سے 20 ، کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا اور پارٹی عہدیداران کی ہدایت پر اصغر بیگ نے فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگنے کا ذکر اپنے بھائی ماجد سے کیادونوں بھائی فیکٹری مالکان سے بھتہ لینے پہنچ۔ گئے اور ان سے بیس کروڑ روپے بھتے کا مطالبہ کیا
جس کے بعد فیکٹری مالکان میںسے ایک کو (بلدیہ ٹاﺅں کے سیکٹر لے گئے جہان سیکٹر انچارج نے اپنی جماعت کے بڑے عہدیداران سے ملاقات کرائی تاہم ان عہدیداران نے معاملے سے لاتعلقی ظاہر کی۔جس پر اصغر بیگ اور ماجد کی ان عہدیداران سے تلخ کلامی ہوئی اور وہ واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔)چند دنوں کے بعد اصغر بیگ کی جگہ رحمان بھولا کو ذمہ داری سونپ دی گئی اس کے بعد ان عہدیداران نے اعلیٰ عہدیداران کے حکم پر رحمان بھولا کو ہدایت دی کہ وہ فیکٹری مالکان سے بھتہ وصول کرے جس پر رحمان بھولا نے فیکٹری مالکان سے 20، کروڑ روپے بھتہ مانگا اور نہ دینے پر 11 ستمبر 2012 ،کو رحمان بھولانے اپنے دیگر نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ مل کر فیکٹری میں کیمیکل پھینک کرفیکٹری کو آگ لگا دی
واقعے کے اگلے روز سی آئی دی نے بلدیہ میں چھاپہ مار کر اصغر بیگ اور اس کے بھائی کو گرفتار کر لیا ۔رضوان قریشی نے اپنے دیگر انکشافات میں یہ بات بھی بتائی کہ پارٹی کے دباﺅ پر فیکٹری مالکان نے یہ بیان دیا کہ ماجد کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جس پر سی آئی ڈی نے ماجد کو چھوڑ دیا۔اس کے علاوہ ملزم نے صحیح یا غلط ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو اور اس کے اعلیٰ کے اہلکاروں کے کارناموں سمیت بہت سارے لوگوں کی ٹارگیٹ کلنگ کی منصوبہ بندی کا بھی اعتراف کیا ہے۔مگر ایم کیو ایم کی پوری قیاد تاس معاملے سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ شد و مد کے ساتھکر رہی ہے۔دوسری جانب اکژر حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ رضوان قریشی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جا رہا ہے
وہ کہاں ہے؟ کیا اُسے رہا کر دیا ہے؟ اور کئی لوگ جے آئی ٹی رپورت پر بھی اپنے شکوک کا اظہار کر رہے ہیں سابق وزیر صنعت نے واقعے کے اگلے دن تھانے پہنچے اور فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ جس پر فیکٹری مالکان نے سندھ ہا ئی کورٹ سے ضمانت کرائی۔ مگر سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت کے دباﺅ پرمالکان کی ضمانت منسوخ کرا دی گئی۔سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کی مداخلت پر ان فیکٹری مالکان کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ سے کروادی گئی۔ تاہم سندھ کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت کی مداخلت پر راجہ پرویز اشرف اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئے۔لیکن ساتھ ہی وزیر اعظم کے فرنٹ مین نے فیکٹری مالکان سے مقدمہ ختم کرانے کے نام پر 15، کروڑ روپے وصول کرلئے۔
ذہن یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے لوگوں کے ساتھ موت کا اس قدر بھیانک کھیل سکتی ہے۔آج داعش کی جانب سے اردن کے ایک پائلٹ کے آگ میں جلا دیئے جانے پر ساری دنیا داعش والوں کی مذمت کرنے میں لگی ہوئی ہے اور ایسے قبیح فعل کی مذمت ہونی بھی چاہئے۔ مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس معاملے پر لوگوں نے اپنی جانیں بچائیں اور معاملے پر سیاست کرتے رہے۔کوئی ہے ان 258، سوخٹہ لاشوں کے لواحقین کو انصاف دلانے ولا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس معاملے کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک معمولی کارکن کے قتل پرتو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔مگر ان مظلوموں کے خاندانوں کے انصاف کی راہ میں حکومت میں ہوتے ہوئے ان مظلو۲موں کی داد رسی بھر پور انادز میں کیوں نہ کی گئی؟۔ اور آج تک ان مظلوموں کے خاندانوں کو انصاف کیوں نہیں ملا؟زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہے۔
مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ آج پاکستان کے تمام میڈیا اور اخبارات نے اس واقعے پر کھل کر بات کرنے کی کم از کم جر اءت تو کیپاکستان لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے ووٹ کی قیمت سوختہ لاشیں ہیں؟؟؟مجھ سمیت ہر لکھاری جمہوریت کے حق میں بولتا نہیں تھکتا ہے مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت کے یہی ثمرات ہیں؟کہ محنت کش محنت کرتے تھک جائے اور سیاست کی سیج پر چڑھ کر ایک گند کا کیڑا سب کو مات دے جائے ۔عوام کی جھونپڑی سے بارش کا پانی ٹپکتا رہے اور معمولی سیاسی کاکن جس کے پاس کل تک روٹی کے بھی لالے تھے۔ اپنے سیاسی بڑوں کے اقتدار میں آنے کے بعد دنوں ،سالوںمیں کروڑ پتی بن جائے اور پاکستان سے بھاگ کر دوبئی جیسے علاقوں میں کروڑوں ،اربوں کا بزنس کرنا شروع کر دے اور کہے ہے
کسی میں ہمت کہ ہمیں پکڑے! جب تک سیاست سے دہشت گردی اور لا قا نونیت ختم نہیں کی جائے لوگ جمہوریت کو مذاق کے سوائے کچھ نام نہیں دیں گے۔آج بھی ملک میں جمہور کی آواز کو ہر طاقت کامنبع دبانے میں مصروف ہے اور سیاسی مافیائیں اپنے پریشر کے ذریعے نظام کی خرابی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔آج کا نام نہاد سیاست دان اپنے خلاف سچ سُننے کی ہمت ہی نہیں رکھتا ہے۔کیونکہ سچ کی کڑواہٹ بڑی دیر تک بر قرار رہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور سابق صدر زرداری سے ووٹر پوچھتے ہیں، ہمارے ہی ووٹ سے ہماے ہی نصیب سوختگی لکھ دی گئی ہے؟
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com