تحریر : بدر سرحدی
دوستو ایک تو میں کئی دنوں سے بیمار، دوسرے شدید سردی، تیسرے مجھ جیسے لوگوں کے لئے اللہ تبارک تعالے ٰ نے سرد موسم میں، اپنی طرف سے گیس جیسی نعمت عطا کی مگر درمیاں میں جابر و عیار قسم کے لوگوں نے مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی اس پر قبضہ کر لیا ،زرہ غور کریں١٤ ،١٨،اور ٢٢ ویلر ٹرالر اسی گیس سے عیاشی کر رہے ہیں تیل سستا کر کے حکمران ڈھول بجاتے ہیں ہم نے پٹرولیم مصنوعات میں دو مرتبہ کمی کی ،اور اب ٢٠١٤ کہ آخری دن دونوں ایونوں کے مشترکہ اجلاس سے وزیر آعظم نے خطاب کرتے ہوئے خصوصی طور پر تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کا اعلان کیا اور کہا کہ آج تیل کی قیمت کم کرنے پر حکومت کو ٦٨، ١رب کا نقصان ہوگا (یہ جو نقصان کی بات ہے یہ عوام کی سمجھ باہر ،نقصان تو تب ہو کہ حکومت نے تیل ٩٠ روپئے لیٹر خریدا اور ٧٨روپئے لیٹر عوام کو دے رہی اس طرح ١٢، روپئے لیٹر حکومت کو نقصان ہو أ مگر ایسا نہیں. …) لیکن عوام تک ٤٠٠ ،ارب کی ریلیف دے رہے ہیں اب یہ ماہرین اقتصادیات و معشیات ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ نقصان کیسے اور کیونکر ہوگا ….!یہ اس لئے برداشت کیا کہ عوام کو ریلیف ملے۔
اب سوال ہے عوام کو ریلیف کا …یہ کیسی ریلیف اور کس عوام کو یہ ریلیف ملے گی پہلے تو اُس عوام کی نشاندہی کی جاتی جو اِس ریلیف سے مستفید ہونگے ، کیا یہ عوام جن کے پاس چھت نہیں جن کی تعداد کروڑوں میں ہے اور کوڑے دانوں میں اپنا رزق تلاش کرتے دیکھے جاتے ہیں یا بحریہ ٹاؤن ،ڈیفنس اور ایسی بستیوں کے مکین …..میاں نواز شریف وزیر آعظم پاکستان سے التماس ہے براہ کرم گشتری اُس عوام کی تعریف و تشریح کریں جن تک ٤٠٠ ،ارب کی ریلیف دی گئی ہے …موضوع کوئی تھا مگر یہ گیس اور پٹرولیم مصنوعات خوامخواہ بیچ میں آگئے ،نہیں خوا مخواہ نہیں آئے یہ بھی آج کا ایسا ہی سلگتا مسلہ جس سے کروڑوں عوام متاثر ہو رہے ہیں،اور میں تو آج بہت متاثر ہوں کہ چند برس بعد انیسویں میں جانے کی بجائے اب ہی انیسویں صدی میں واپس پہنچ گیا ہوں۔
جبکہ دنیا تو تیزی سے ٢١ویں صدی….! ،چند برس قبل سیلاب کے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ جو ٹرانسپورٹ کا سیلاب آیا یہ ختم نہیں ہوگا ،کیوں ؟کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے وہ کام کیا جو اگلے پچاس برسوں میں بھی نہ ہوتا،بنکوں کے منہ کھول دئے اور لوگوں نے دھڑا دھڑ قرضے کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کاریں خریدنا شروع کی ،ساتھ یہ منصوبہ بھی بنایا کہ قدرتی گیس کے مزید زرائع تلاش کرنے کی بجائے موجود گیس پر چھوٹی بڑی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کو گیس پر منتقل کر دیا ، برسات میں اگنے والی خود رو کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ قدم قدم پر گیس پمپ کھل گئے ….اور پھر اس عرصہ میں ٹرانسپورٹر نے خوب کمائی کی تیل کی گرانی کو جواز بنا کر ہر قسم کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ کیا۔
خصوصا ٹیوٹا قسم کی مسافر گاڑیوں میں گیس سلنڈروں کے دھماکوں سے مسافرں کے مارے جانے کی خبریں بھی آتی رہیں ،مستزاد یہ کہ جو گیس گھر کے چولہوں میں اگلے سو برس میں جلنا تھی ان دس برسوں میں پھونک دی گئی اور ٢٠١٤ میں عوام ایندھن کے لئے پریشان ، گھروں میںچولہے گیس سے محروم ہوگئے ہیںاور اِس یخ موسم میں کانگڑی نما گیس ہیٹر سے بھی محروم جب چولہے کے لئے گیس نہیں تو ہیٹر کے لئے ،اور میں تو ابھی سے انیسویں صدی میں ،لکڑیاں جلا کر خود کو اس سردی سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں دنیا کہاں سے کہا ں پہنچ گئی مگر پاکستانی عوام واپس تاریک دور میں پہنچ رہے ہیں ،گیس مافیا نے جب دیکھا۔
انہوں نے بھی عوام کی کھال کھینچنے کے ایل پی جی گیس کی قیمتیں محض چند دنوں میں ١١٥ سے ٢٣٠روہئے سے بھی زیادہ بڑھا دیں رکشا ڈرائیوروں نے مرغا بن کر لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جبکہ وہ براہ راست متاثر نہیں تھا وہ توکرائے میں اضافہ کر کے عوام سے وصول کرتا ،تو بھی اُس کے مرغا بننے سے حکوت کے کانوں پر جوں رینگی اور وہ حرکت میں آئی یہی گیس ١٥٠ روپئے کلو مقرر ہوئی کہ یہ عوامی جمہوری حکومت ہے ….!یہی گیس مشرف دور میں ٤٢ ،٤٥ روپئے کلو تھی کہ بدترین آمریتی دور کہا جاتا ہے …. .! اخباری اطلاعات کچھ اور ہوتی ہیں جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں ،اخباری رپورٹر کسی حوالہ سے یہ شوشہ چھوڑ دیتا ہے کہ گیس کی قیمت میں اضافہ متوقع ہے اسی خبر پر دکان دار دس بیس کا اضافہ کر دیتا ہے اُسے کوئی خوف و خطرہ نہیں کہ مجھے کوئی پوچھے گا کیوںکہ اُسے یہ علم ہے کہ بڑے لیڈر خودلو ٹ مار میںاس حد تک مصروف ہیںکہ وہ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں دے سکتے،وزیر آعظم نے یہ تو کہا کہ آلو بیس روپء کلو ہیں ،جبکہ مئی ١٣ ،میں ٨٠،روپئے کلوتھے مگر وزیر آعظم کویہ علم نہیں ہوسکا کہ محض دسمبر کے چند دنوں میں ایل پی جی گیس ١١٥،سے ٢٣٠ ،روپئے کلو سے بھی آگے نکل گئی ،کیوں۔
اس وقت ضروری ہے کہ جب تک ملک میں گیس کے نئے زرائع سے استفادہ ممکن نہیں ٹرانسپورٹ کو گیس کی فراہمی ممنوع قرار دی جائے ،اب لاہور میں١٥ ،کمپنیاں لوکل ٹرانسپورٹ چلا رہی ہیں ،جن میں ٩٠ فیصد گیس پر چل رہی عوام کو گیس ملے نہ ملے ان بسوں کو گیس بہر حال ملے،جناب اُس عوام کے لئے بھی سوچیں جو خط افلاس سے بہت نیچے چلے گئے ہیں …. !
تحریر : بدر سرحدی