تحریر: شاہ بانو میر
رپورٹ: کچھ دن پہلے سنگاپور میں ایک ٹرک پکڑا گیا ہے جس کے اندر کارڈ بورڈ میں انتہائی سفاکیت سے بچوں کے منہ ٹیپ سے بند کر کے ان کو بیہوشی کے انجکشن لگا کر بند کیا گیا تھا. یہ بچے دنیا کے مختلف ملکوں سے اغوا کر کے بحری جہازوں کے ذریعہ لاۓ گے تھے اور ان کو سنگاپور میں لانے کے بعد ان کو جسموں سے انسانی اعضاء نکالنے کا کام کیا جانا تھا۔
ترقی پزیر ملکوں میں یہ مذموم کاروبار پوری شدت سے جاری ہے. پہلے تو لوگوں کو پیسے دے کر یہ کام کیا جاتا تھا لیکن جب لالچ بڑھا تو اب بچوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی آنکھیں، جگر اور گردے نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں. کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ایک اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی شہری اعضاء کی پیوندکاری کے لئے غریب ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پر بعض اوقات یہ اعضاء عطیہ کرنے والے کی مرضی کے بغیر بھی نکال لئے جاتے ہیں۔
ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس نقطے پر بھی سوچنا چاہے اور اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنا چاہے اور دیکھنا چاہیے کے کہیں یہ مذموم کام ہمارے ملک میں تو جاری نہیں. اس کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں اور گھر سے بلا ضرورت باہر نہ نکلنے دیں اور ان کے کھیلنے کے اوقات اس طرح سے ہوں کے آس پڑوس یا محلے کا کوئی شخص بچوں کے کھلتے وقت ان کی نگرانی کرتا رہے اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کا خصوصی خیال رکھا جاۓ تا کہ خدانخواستہ بعد میں کہیں پچھتانا نہ پڑے۔
دن دیہاڑے کہیں معصوم دس گیارہ سالہ بچیاں ہنسی مذاق کرتے سکول سے واپس جاتی ہیں یکایک ایک گاڑی رکتی ہے اس میں سے آن کی آن میں ایک قوی الحبثہ شخص برآمد ہوتا ہے اور کسی تنکے کی طرح دھان پان بچی کو اپنی شیطانی گرفت میں دبوچتا ہے اور خوف سے سفید چہرے لئے سُن کھڑی باقی بچیوں کے سامنے گاڑی یہ جا وہ جا ٬ کہیں موٹر سائیکل رکتی ہے اور پیچھے بیٹھا شیطان پلک جھپکتے میں بچی کو اغواء کرتا ہے اور لمحہ بھر میں غائب ٬ ملک کے مختلف علاقوں میں جیسے بچوں کا اغواء وبائی مرض بن کر بچوں کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے ٬ مرے پر صبر اللہ دے دیتا ہے کہ اسکی چیز تھی اس نے واپس لے لی٬ مگر جیتے جی گودڑیوں کے لعل کن شیطانوں کی گرفت میں روپوش ہو رہے ہیں٬ کونسے والدین ہیں جو تمام عمر انہیں یاد کر کے آہیں نہیں بھریں گے٬ پاکستان میں را کی موجودگی صرف دہشت گردی کی حد تک محدود نہیں ہے یہ بین القوامی غنڈہ گرد تنظیم ہر وہ کام پاکستان میں ضمیر فروشوں سے کرواتی ہے جو ملک میں ہیجان بپا کر کے حکومت اور عوام کے درمیان بد امنی پیدا کر سکیں۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے ان بچوں کے پیچھے بھی بین القوامی مافیا کی سرپرستی”” را”” کر رہی ہے ایسی سفاکی کہ انسانیت شرما جائے ٬ وقت کے فرعون پیسے کی بھاگ دوڑ میں نجانے کس قدر اور گھناؤنے اور مکروہ فعل سر انجام دیں گے٬ موت انہیں یاد نہیں ٬ حساب کتاب سے خود کو عاری سمجھنے والے عبرت ناک انجام سے بے خبراس دنیا میں فرعون بنے قیامت ڈھا رہے ہیں
اس بات سے قطع نظر کہ جس دن ان کی پکڑ ہوئی اس دن ساری چالیں ساری ہوشیاریاں دم توڑ جائیں گی۔
نازک کلیاں٬ پیارے پھول سے بچے فرشتے ہمارےبچے اپنے ہی ملک میں اپنوں کے ہاتھوں زندہ درگور مندرجہ بالا رپورٹ جب پڑہی اور تصویریں نظر سے گزریں تو صرف ایک ہی خیال آیا کہ انسانیت دنیا سے ختم ہوکر شیطانیت کو پھیلا رہی ہے٬ ماں کس طرح خود گیلے پے سو کر بچے کو سوکھے پر سلانے والی لمحہ لمحہ بچوں کو دیکھ دیکھ کر جینے والی ماں پے کیا گزرتی ہے جب اس کے بچے کو جبرا کوئی غنڈہ سرعام اٹھا لے جائے۔
کہیں جسمانی اعضاء کی خرید وفروخت کی خبریں توکہیں دیگر خوفناک مسائل ایسے میں ان بچوں کے والدین پےکیا گزرتی ہے یہ صرف وہ جانتے ہیں٬
حکومت وقت سے مطالبہ ہے ان والدین کا کہ جن کے جگر گوشے نا معلوم افراد کے ہاتھوں اپنوں سے دور کر دیے گئے کہ باقاعدہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پرآپریشن ضرب عضب قسم کا آپریشن کر کے ان بردہ فروشوں کو سر عام پھانسی کی سزا دی جائے تا کہ والدین کو خون کے آنسو رلانے والے نشان عبرت بن جائیں۔
اب دنیا میں وہ وقت آگیا ہے کہ جب شیطانی قوتوں کا خاتمہ حکومتوں نے ہی نہیں کرنا بلکہ عوام کو باشعور ہو کر اپنے ہی درمیان موجود ایسے بھیڑیا نما حیوانوں کا قلع قمع کرنا ہوگا جن کیلیۓ کسی کی اولاد کو یوں اٹھا لینا اور پھر اس کے جسمانی اعضاء کو فروخت کردینا گویا چیزوں کی خرید و فروخت ہے۔
قوم کو اس وقت کسی پر انحصار کرنے کی بجائے دفاع وطن کیلئے خود کو سپاہی سمجھنا چاہیے٬ اور ہر وقت چوکنا اور چوکس رہنا چاہیے ٬ بچے معصوم پھول جو گھروں میں پریشانیوں اور مسائل کے باوجود اپنے معصوم وجود سے خوشی کی علامت سمجھے جاتے ہیں٬ ایسے معصوموں کو نوچنے والوں کو ایسی سخت سزادی جائے کہ رہتی دنیا تک پھر کوئی شیطان کسی ماں سے اس کے جگرگوشےکو جدا کرنے کی جرآت نہ کرے۔
سیاستدانوں کو بڑے بڑے پروگرامز کرنے والوں کو یہ سانحہ نہ سنائی دیتا ہے اور نہ دکھائی دیتا ہے٬ اتنے گھمبیر مسئلے پرایسی بےحسی اور قابل جرم خاموشی بتا رہی ہے کہ ملک کی خیر خواہی کا دم بھرنے والے محض ضروریات کے غلام ہیں ٬ قومی مسائل سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ٬ ان سے نا امید ہوکر اپنے بچوں کی حفاظت اور ان کی زندگی کی ضمانت اللہ کے بعد اب صرف والدین کے ذمہ ہے جن کی زندگی ان بچوں کی مسکراہٹ میں نہاں ہے ٬ہمیں ہی ان کی حفاظت کرنی ہے کیونکہ یہ گوہر ہمارے ہیں۔
تحریر: شاہ بانو میر