اپریل 2016کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارے ہاں پانامہ۔پانامہ کا وِرد شروع ہوگیا اب یہ برس ختم ہونے کو ہے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا 5 رکنی بنچ بھی ابھی تک طے نہیں کر پایا کہ پانامہ دستاویزات میں منکشف ہوئی آف شور کمپنیاں جن کے مالک ہونے کا وزیر اعظم کے بیٹے اعتراف کرتے ہیں، مبینہ طور پر اس رقم سے قائم کی گئیں جو ان کے والد نے شاید ناجائز ذرائع سے اکٹھی کی ہوگی۔ ’’ناجائز ذرائع سے‘‘ جمع ہوئی اس رقم کو انہوں نے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا اور اپنے بیٹوں کے نام کردیا۔
اس ملک کے سب سے تجربہ کار اور حتمی منصف ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں کو مذکورہ بالا الزام کو درست ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد درکار ہیں یہ شواہد ان کے روبرو آبھی جائیں تو شریف خاندان کے وکلاء تابڑ توڑ جرح کے ذریعے انہیں کم از کم ناکافی ثابت کرنے میں اپنا پورا ہنر ضرور صرف کردیں گے ان کے مؤکلان نظربظاہر ’’اخلاقی طورپر‘‘ اپنا مقدمہ ہار کر بھی شاید قانون کی نظر میں مجرم نہیں ٹھہر پائیں گے۔
معاملہ لیکن محض شریف خاندان کے دفاع تک محدود نہیں ہے اس خاندان کے پاس خود کو معصوم ثابت کرنے کے لئے ایک معقول دکھنے والی کہانی بھی موجود ہے اس کہانی کا آغاز قیام پاکستان سے قبل کے کئی سالوں میں شروع ہوتا ہے جب امرتسر کے نواحی جاتی امراء سے چند بھائی لاہور منتقل ہوئے اور اپنے باہمی اتفاق اور محنت سے ایک کامیاب کاروباری ادارہ قائم کردیا 1970ء کی دہائی میں اس ادارے کو قومیا لیا گیا۔ خاندان کے محنتی سربراہ نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ دوبئی چلے گئے اور فیکٹری وغیرہ لگا لی اپنے وطن میں بھی انہوں نے ایسے راستے ڈھونڈے جو انہیں ریاست کی دسترس سے بچے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے منافع کمانے کے قابل بنائیں۔ شریف خاندان کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم کے بیٹوں نے اپنے مرحوم دادا سے تحفے یا ترکے میں ملی رقوم سے بیرون ملک جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی اس کہانی کو ثابت کرنے کے لئے بھی ٹھوس ثبوت درکار ہیں وہ جو ثبوت پیش کریں گے ان کی دھجیاں اُڑانے کے لئے تحریک انصاف کے پاس نعیم بخاری جیسے ذہین وتجربہ کار وکلاء موجود ہیں۔ عمران خان صاحب کو محض وکلاء کی معاونت ہی حاصل نہیں بااثر اور جی دار اینکر خواتین وحضرات کے ایک گروہ بھی ٹی وی سکرینوں کی بدولت شریف خاندان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے دل وجان سے تیار ہے۔ حتمی فیصلہ مگر سپریم کورٹ نے کرنا ہے عدل وانصاف کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے اپنا ذہن بنانے کے لئے وقت درکار ہے اس ضمن میں انتظار ہماری مجبوری ہے۔
صحافی مگر پانامہ-پانامہ کا ورد کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ انہیں پانامہ کے علاوہ بھی کئی موضوعات پر نگاہ رکھنا ہوگی بدقسمتی سے ان موضوعات پر توجہ نہ دیتے ہوئے ہم اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ چند معاملات کے حوالوں سے یہ غفلت تقریباً مجرمانہ بھی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔
چین یقینا اپنا یار ہے اور اس پر جان بھی نثار ہے یہ بات بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ 1980ء کی دہائی سے اپنی معیشت پر مکمل یکسائی کے ساتھ توجہ دیتے ہوئے چین نے حیران کن معجزات برپا کئے ہیں دنیا میں آبادی کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہوتے ہوئے اسے مگر اس بات کے بارے میں بھی شدید پریشانی لاحق ہے کہ چین میں ترقی کا عمل اس کے مشرقی صوبوں اور ساحلی شہروں تک محدود رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے سفر کو اب مغرب کی جانب بڑھنا ہوگا۔ سنکیانگ اس حوالے سے ایک اہم ترین صوبہ ہے۔ وہاں مصنوعات بنانے اور انہیں عالمی منڈی تک پہنچانے کے لئے کاشغر کوسڑک کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ سے ملانا ہوگا ہماری خوش بختی کہ موجودہ چینی قیادت اپنی روایتی یکسوئی کے ساتھ یہ سڑک جلدازجلد مکمل کرنے اور اسے جدید ترین بنانے کے ہدف کو حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔
چینی قیادت کے عزم اور ہمارے بھرپور تعاون کا مگر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ گوادر آئندہ آنے والے کچھ ہی سالوں میں ’’دوبئی‘‘ بن جائے گا۔ 2000ء کے آغاز کے ساتھ جنرل مشرف نے جب چینی قیادت کو گوادر بندرگاہ کو عالمی جہاز رانی کے قابل بنانے پر تیار کیا تو ان دنوں بھی گوادر کے ’’دوبئی‘‘بن جانے کی کہانیاں چلی تھیں راتوں ات کئی نوسرباز کمپنیاں قائم ہوگئیں جنہوں نے خوش نما اشتہارات کے ذریعے گوادر سے کہیں دور مقیم پاکستانیوں کو وہاں جائیدادیں خرید کر طویل المدت سرمایہ کاری پر مجبور کیا۔ لاکھوں میں خریدی زمینیں مگر یہ سرمایہ کار بالآخر کوڑیوں کے بھائو بیچنے کو مجبور ہوگئے تھے۔
گوادر کو ایک بارپھر ’’دوبئی‘‘ میں بدل جانے کے خواب بیچے جارہے ہیں۔ صحافیوں کا جو نظر بظاہر پانامہ دستاویزات کی بدولت ’’منکشف‘‘ ہوئی کرپشن کے بار ے میں ہمہ وقت سینہ کوبی میں مصروف ہیں- یہ فرض تھا کہ لوگوں کو ٹھوس حقائق کے ذریعے سمجھاتے کہ فی الوقت دور دور تک گوادر کے دوبئی بن جانے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ہم مگر خاموش رہے اور گوادر کو دوبئی بنتا دکھا کر بیچنے والے ایک بار پھر فوری منافع کے حصول کے لئے اپنی روایتی نوسربازیوں میں مصروف ہوگئے۔
گوادر اس وقت تک دوبئی بن ہی نہیں سکتا جب تک وہاں قابلِ استعمال پانی میسر نہ ہو، صدیوں سے اس علاقے میں لیکن زیرزمین پانی موجود نہیں پانی کے لئے تمام تر انحصار بارشوں پر ہوتا ہے جو عموماً تین سالوں میں ایک بار ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات بارشوں کے درمیان وقفہ سات سال تک پھیل جاتا ہے۔ بارشوں کے پانی کو وہاں بنائے ایک ذخیرہ میں جمع کیا جاتا ہے۔ انکرہ ڈیم اس ذخیرے کا نام ہے ان دنوں اس ڈیم کا پانی ختم ہوچکا ہے پانی کا ایک ٹینکر دوسرے مقامات سے لاکر 12000 سے 16000 روپے میں بیچا جاتا ہے یہ پانی نسلوں سے گوادر میں موجود آبادی کی ضرورت کے لئے بھی کافی نہیں یہ وہاں کے غریب خاندانوں کی دسترس سے کہیں باہر بھی ہے۔
گوادر کو پانی کی مستقل،وافر اور یقینی فراہمی
اپریل 2016کے آغاز کے ساتھ ہی ہمارے ہاں پانامہ۔پانامہ کا وِرد شروع ہوگیا اب یہ برس ختم ہونے کو ہے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا 5 رکنی بنچ بھی ابھی تک طے نہیں کر پایا کہ پانامہ دستاویزات میں منکشف ہوئی آف شور کمپنیاں جن کے مالک ہونے کا وزیر اعظم کے بیٹے اعتراف کرتے ہیں، مبینہ طور پر اس رقم سے قائم کی گئیں جو ان کے والد نے شاید ناجائز ذرائع سے اکٹھی کی ہوگی۔ ’’ناجائز ذرائع سے‘‘ جمع ہوئی اس رقم کو انہوں نے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا اور اپنے بیٹوں کے نام کردیا۔
اس ملک کے سب سے تجربہ کار اور حتمی منصف ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں کو مذکورہ بالا الزام کو درست ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد درکار ہیں یہ شواہد ان کے روبرو آبھی جائیں تو شریف خاندان کے وکلاء تابڑ توڑ جرح کے ذریعے انہیں کم از کم ناکافی ثابت کرنے میں اپنا پورا ہنر ضرور صرف کردیں گے ان کے مؤکلان نظربظاہر ’’اخلاقی طورپر‘‘ اپنا مقدمہ ہار کر بھی شاید قانون کی نظر میں مجرم نہیں ٹھہر پائیں گے۔
معاملہ لیکن محض شریف خاندان کے دفاع تک محدود نہیں ہے اس خاندان کے پاس خود کو معصوم ثابت کرنے کے لئے ایک معقول دکھنے والی کہانی بھی موجود ہے اس کہانی کا آغاز قیام پاکستان سے قبل کے کئی سالوں میں شروع ہوتا ہے جب امرتسر کے نواحی جاتی امراء سے چند بھائی لاہور منتقل ہوئے اور اپنے باہمی اتفاق اور محنت سے ایک کامیاب کاروباری ادارہ قائم کردیا 1970ء کی دہائی میں اس ادارے کو قومیا لیا گیا۔ خاندان کے محنتی سربراہ نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ دوبئی چلے گئے اور فیکٹری وغیرہ لگا لی اپنے وطن میں بھی انہوں نے ایسے راستے ڈھونڈے جو انہیں ریاست کی دسترس سے بچے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے منافع کمانے کے قابل بنائیں۔ شریف خاندان کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم کے بیٹوں نے اپنے مرحوم دادا سے تحفے یا ترکے میں ملی رقوم سے بیرون ملک جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی اس کہانی کو ثابت کرنے کے لئے بھی ٹھوس ثبوت درکار ہیں وہ جو ثبوت پیش کریں گے ان کی دھجیاں اُڑانے کے لئے تحریک انصاف کے پاس نعیم بخاری جیسے ذہین وتجربہ کار وکلاء موجود ہیں۔ عمران خان صاحب کو محض وکلاء کی معاونت ہی حاصل نہیں بااثر اور جی دار اینکر خواتین وحضرات کے ایک گروہ بھی ٹی وی سکرینوں کی بدولت شریف خاندان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے دل وجان سے تیار ہے۔ حتمی فیصلہ مگر سپریم کورٹ نے کرنا ہے عدل وانصاف کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے اپنا ذہن بنانے کے لئے وقت درکار ہے اس ضمن میں انتظار ہماری مجبوری ہے۔
صحافی مگر پانامہ-پانامہ کا ورد کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ انہیں پانامہ کے علاوہ بھی کئی موضوعات پر نگاہ رکھنا ہوگی بدقسمتی سے ان موضوعات پر توجہ نہ دیتے ہوئے ہم اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ چند معاملات کے حوالوں سے یہ غفلت تقریباً مجرمانہ بھی ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔
چین یقینا اپنا یار ہے اور اس پر جان بھی نثار ہے یہ بات بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ 1980ء کی دہائی سے اپنی معیشت پر مکمل یکسائی کے ساتھ توجہ دیتے ہوئے چین نے حیران کن معجزات برپا کئے ہیں دنیا میں آبادی کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہوتے ہوئے اسے مگر اس بات کے بارے میں بھی شدید پریشانی لاحق ہے کہ چین میں ترقی کا عمل اس کے مشرقی صوبوں اور ساحلی شہروں تک محدود رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے سفر کو اب مغرب کی جانب بڑھنا ہوگا۔ سنکیانگ اس حوالے سے ایک اہم ترین صوبہ ہے۔ وہاں مصنوعات بنانے اور انہیں عالمی منڈی تک پہنچانے کے لئے کاشغر کوسڑک کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ سے ملانا ہوگا ہماری خوش بختی کہ موجودہ چینی قیادت اپنی روایتی یکسوئی کے ساتھ یہ سڑک جلدازجلد مکمل کرنے اور اسے جدید ترین بنانے کے ہدف کو حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔
چینی قیادت کے عزم اور ہمارے بھرپور تعاون کا مگر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ گوادر آئندہ آنے والے کچھ ہی سالوں میں ’’دوبئی‘‘ بن جائے گا۔ 2000ء کے آغاز کے ساتھ جنرل مشرف نے جب چینی قیادت کو گوادر بندرگاہ کو عالمی جہاز رانی کے قابل بنانے پر تیار کیا تو ان دنوں بھی گوادر کے ’’دوبئی‘‘بن جانے کی کہانیاں چلی تھیں راتوں ات کئی نوسرباز کمپنیاں قائم ہوگئیں جنہوں نے خوش نما اشتہارات کے ذریعے گوادر سے کہیں دور مقیم پاکستانیوں کو وہاں جائیدادیں خرید کر طویل المدت سرمایہ کاری پر مجبور کیا۔ لاکھوں میں خریدی زمینیں مگر یہ سرمایہ کار بالآخر کوڑیوں کے بھائو بیچنے کو مجبور ہوگئے تھے۔
گوادر کو ایک بارپھر ’’دوبئی‘‘ میں بدل جانے کے خواب بیچے جارہے ہیں۔ صحافیوں کا جو نظر بظاہر پانامہ دستاویزات کی بدولت ’’منکشف‘‘ ہوئی کرپشن کے بار ے میں ہمہ وقت سینہ کوبی میں مصروف ہیں- یہ فرض تھا کہ لوگوں کو ٹھوس حقائق کے ذریعے سمجھاتے کہ فی الوقت دور دور تک گوادر کے دوبئی بن جانے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ہم مگر خاموش رہے اور گوادر کو دوبئی بنتا دکھا کر بیچنے والے ایک بار پھر فوری منافع کے حصول کے لئے اپنی روایتی نوسربازیوں میں مصروف ہوگئے۔
گوادر اس وقت تک دوبئی بن ہی نہیں سکتا جب تک وہاں قابلِ استعمال پانی میسر نہ ہو، صدیوں سے اس علاقے میں لیکن زیرزمین پانی موجود نہیں پانی کے لئے تمام تر انحصار بارشوں پر ہوتا ہے جو عموماً تین سالوں میں ایک بار ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات بارشوں کے درمیان وقفہ سات سال تک پھیل جاتا ہے۔ بارشوں کے پانی کو وہاں بنائے ایک ذخیرہ میں جمع کیا جاتا ہے۔ انکرہ ڈیم اس ذخیرے کا نام ہے ان دنوں اس ڈیم کا پانی ختم ہوچکا ہے پانی کا ایک ٹینکر دوسرے مقامات سے لاکر 12000 سے 16000 روپے میں بیچا جاتا ہے یہ پانی نسلوں سے گوادر میں موجود آبادی کی ضرورت کے لئے بھی کافی نہیں یہ وہاں کے غریب خاندانوں کی دسترس سے کہیں باہر بھی ہے۔
گوادر کو پانی کی مستقل،وافر اور یقینی فراہمی صاف پلانٹ کی تعمیر کے بغیر ممکن ہی نہیں ایسے پلانٹ کی تعمیر کے لئے کثیر سرمایہ درکار ہے یہ سرمایہ فراہم کرنے کو فی الوقت کوئی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار تیار نہیں چین نے بھی وہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا ایک بڑا منصوبہ سوچا تھا اس کو مگر اس لئے بھلادیا کیونکہ کوئلے کو بجلی میں تبدیل کرنے کے لئے بے تحاشہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو وہاں میسر نہیں پانی کی عدم دستیابی مقامی سرمایہ کاروں کو بھی مچھلی پکڑکر اسے بیچنے کے دھندے میں سرمایہ لگانے کی طرف راغب نہیں کررہی کیونکہ سمندر سے لائی مچھلی کو صاف پانی سے دھونا اور اس پانی سے بنی برف کے ذریعے محفوظ اور تازہ رکھنا پڑتا ہے حقائق سے لوگوں کو بے خبر رکھے ہوئے ہم مگر سی پیک کو گیم چینجر کہتے ہوئے،گوادرکو اپنے تئیں دوبئی بنا چکے ہیں۔ میڈیا میں ایک بار پھر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ گوادر ہائوسنگ سکیموں کے لئے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جارہی ہے اور ہم اس شورمچاتی نوسربازی کے بارے میں قطعاً خاموش ہیں۔
پلانٹ کی تعمیر کے بغیر ممکن ہی نہیں ایسے پلانٹ کی تعمیر کے لئے کثیر سرمایہ درکار ہے یہ سرمایہ فراہم کرنے کو فی الوقت کوئی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار تیار نہیں چین نے بھی وہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا ایک بڑا منصوبہ سوچا تھا اس کو مگر اس لئے بھلادیا کیونکہ کوئلے کو بجلی میں تبدیل کرنے کے لئے بے تحاشہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو وہاں میسر نہیں پانی کی عدم دستیابی مقامی سرمایہ کاروں کو بھی مچھلی پکڑکر اسے بیچنے کے دھندے میں سرمایہ لگانے کی طرف راغب نہیں کررہی کیونکہ سمندر سے لائی مچھلی کو صاف پانی سے دھونا اور اس پانی سے بنی برف کے ذریعے محفوظ اور تازہ رکھنا پڑتا ہے حقائق سے لوگوں کو بے خبر رکھے ہوئے ہم مگر سی پیک کو گیم چینجر کہتے ہوئے،گوادرکو اپنے تئیں دوبئی بنا چکے ہیں۔ میڈیا میں ایک بار پھر اشتہارات کی بھرمار ہے۔ گوادر ہائوسنگ سکیموں کے لئے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جارہی ہے اور ہم اس شورمچاتی نوسربازی کے بارے میں قطعاً خاموش ہیں۔