قدر ت نے ہمارے وطن کو ایسے ایسے انمول تحفے دے رکھے ہیں جنہیں دنیا کی کئی قومیں صرف خوابوں میں ہی دیکھ سکتی ہیں ۔ وہ ہمارے پہاڑ ی سلسلے ہوں یا میدانی علاقے۔ وہ ہماری معدنیات ہوں یا کھیت۔ وہ ہمارے صحرا ہوں یا ریگستان۔ وہ ہمارے جنگل ہوں یا باغات ۔ اور ان سب سے بڑھ کر گہرے پانی کی بندرگاہیں تو دنیا میں ایک خاص اور اعلی ترین مقام کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ ہمارے پاس گوادر جیسی بندرگاہ تو قدرت کا ایسا تحفہ ہے جس پر لکھیں تو شاہد قلم کی سیاہی ختم ہو جائے جس پر بولیں تو شاہد الفاظ ہی ختم ہو جائیں۔ قارئیں کرام ! جس طرح ایک گھر کے سسٹم کو چلانے کے لئے معقول آمدن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک ملک کے نظام کو چلانے کے لئے بھیبڑے بجٹ کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ دنیا کے ہر ملک کا معاشی انحصار بھی ملککی پیداوار اور بر آمدات پر ہوا کرتا ہے ۔ ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پیداوار اور برآمدات زیادہ سے زیادہ ہوں تاکہ وہ معاشی طور پر مضبوط ہو اور اس کی قوم خوشحال ہواور وہ اپنی مضبوط اکانمی کی بنیاد پر دنیا میں باعزت و با وقار ملک کے طور پر جانا جائے۔ ہم بھی دنیا میں اس وقت با عزت اور با وقار قوم کے طور پر جانے جائیں گئے جب ہماری معیشت مضبوط ہو گی ۔ ایک گھر میں اگر پانچ افراد ہوں اور پانچوں ہی کام کاج کرنے والے ہوں تو اس گھرانے کی معاشی حالت بمقابلے ایک ایسے گھرانے( جہاں پانچ میں سے محض ایک یا دو باروزگار ہوں) کہ بہت بہتر ہوگی ۔ وہ گھرانا بہتر معاشی پوزیشن کی وجہ سے اپنے آس پاس غریب غربا کی مدد بھی کر سکے گا ۔ صدقہ خیرات بھی با آسانی کر سکے گا۔ اس گھرانے میں بسنے والے اچھا کھا بھی سکیں گئے اچھا پہن بھی سکیں گئے۔ اور اس اعتبار سے پڑوسیوں کے دیگر گھرانوں کی نسبت زیادہ پر کشش بھی ہو گا۔اگر اسی مثال کو ملکی و قومی سطح پر دیکھا جائے اور ہم انفرادی سوچ سے ہٹ کر اپنے وطن پاکستان کو ہی اپنا ایک گھر سمجھنا شروع کر دیں اوراس میں بسنے والے لگ بھگ بیس کروڑ افراد ا پنے آپ کو ایک ہی گھر یعنی پاکستان کے مقیم و مالک سمجھیں اور یہ لوگ آپس میں بہن بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں ۔ آپس میں لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کریں۔ اپنے دیگر بھائیوں کی جیبیں پھاڑنے سے گریز کرتے ہوئے خود بھی گھر کی معاشی حالت کی بہتری کے لئے کردار اداکریں تو آج ہم دنیا کے غریب ترین ممالک کی لسٹ سے نکل کر مضبوط و خوشحال ملکوں کی فہرست میں نمایاں ہوں۔ہمارے بیرونی قرضے بھی ختم ہو جائیں اور ہم معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں کہ د نیا قرضوں کے لئے ہمارے پاس آئے ۔آج ہمارے ملک میں دہشت گردی بھی نہ ہو اور بیرونی دشمن ہماری طرف مالی آنکھ سے بھی نہ دیکھ پائے۔ یہ سب کچھ نا ممکن نہیں مگر یہ سب کچھ ممکن اس وقت ہو گا
جب ہمارے وطن کو ایک مخلص رہبر مل جائے ۔ جو انفرادی بہتری کے خواب دیکھنے کے بجائے اجتماعی بہتری و خوشحالی کو اپنا نصب العین بنائے ۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر موجود ہمارے رہبر اجتماعی بہتری کا نعرہ لگاتے تو ہیں مگر عملی طور پر انفرادی بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اگر یہ لوگ اجتماعی بہتری چاہتے ہوں تو اپنی قوم کو سب سے پہلے ایجوکیٹ کریں۔ میٹرو بسیں اور فلائی اوور بنا کر اگلے الیکشن کی تیاری کے بجائے سب سے پہلے ملک کے ہر کونے میں سکول تعمیر کریں اور سکولو ں میں ایسا نصاب متعارف کروائیں جس کو پڑھنے والا طالب علم انفرادیت، لسانیت ، فرقہ واریت کے بجائے یکسانیت اور اجتماعیت کی بات کرے۔ جس کو پڑھنے والا لڑائی جھگڑوں کے بجائے امن کی بات کرے ۔ جس کو پڑھنے والا حرام کے بجائے حلال کا نوالہ منہ میں ڈالے اور ڈالنے کی بات کرے۔ جس کو پڑھنے والا نفرتوں کے بجائے محبت کی بات کرے ۔ جس کو پڑھنے والا دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے خود محنت مشقت کرے ۔ جس کو پڑھنے والا بندوقوں کے بجائے کمپیوٹر، قلم اور کتاب کی بات کرے ۔جس کو پڑھنے والا اپنے ملک کی بہتر ی کے لئے ا پنی آمدن سے جائز ٹیکس ثواب سمجھ کر ادا کرے ۔خیر ٹیکس سے یاد آیا دنیا کے کئی ممالک بالخصوص یورپ میں لوگ ٹیکس دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے دیا جانا والا ٹیکس ان ہی کی بہتری پر استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی اپنے اقدامات سے ثابت کرنا پڑے گا کہ عوام کے ٹیکس کا وہ درست استعمال کر رہے ہیں تو لوگ اس سے زیادہ بھی ٹیکس دینے میں دقت محسوس نہیں کریں گئے ۔ قارئیں کرام ! ہمیں کیسے رہبر کی ضرورت ہے؟ اس پر آئندہ کی تحریر بھی اپنے خیالات گوش گزار کروں گا ۔ آج میں اپنے موضوع کی طر ف ہی رہتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ دنیا میں ایک با وقار اور با عزت مقام حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنی معیشت کو بہتر کرنا پڑے گا اور جیسے کہ در ج بالا لائنوں میں آپ کو گوش گزار کر چکا ہوں کہ معیشت کی بہتری کے لئے ہمیں اپنی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا ۔ پیدوار میں اضافہ اور برآمدات دو مختلف موضوع ہیں۔ پیداوار میں اضافہ کے لئے ہمیں اپنی انڈسٹری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کی ضرور ت ہے ۔ توانائی یعنی بجلی گیس ہو گی تو انڈسٹری چلے گی اور ہماری پروڈکٹس تیار ہونگی ۔اسی طرح برآمدات کے لئے ہمیں فعال تجارتی و خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو پاکستان کے امیج کو دنیا میں بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں پاکستان کی پروڈکٹس کو متعارف کروانے میں کردارا دا کرے ۔ قارین کرام! گوادر کی شکل میں قدر ت نے ہمیں ایک عظیم تحفے سے نوازا ہے ۔گوادر جہاں چائینہ کی میڈل ایسٹ ، افریقہ اور یورپ میں تجارت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو گا وہاں پاکستان کو بھی معاشی اعتبار سے نئی بلندیوں کی طر ف لے جانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ چائینہ کی گوادر کے ذریعے کی جانے والی تجارت سے بلاشبہ ٹیکس،چارجز کی مد میں خطیر رقم ہر سال ہمارے بجٹ کا حصہ بنے گی لیکن وہاں پر ہمیں خود پاکستان کو انڈسٹریل زون بنا نے کی ضرورت ہے ۔ ہمارا دشمن کبھی نہیں چاہتا کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں اور ہماری خوشحالی کے ضامن ہمارے عظیم منصوبے چائینہ پاکستان اکنامک کورے ڈور کو ناکام بنانے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرے گا۔ ہمیں علاقائی ازم یا صوبائی ازم سے نکل کر وفاق ازم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وفاق کو بھی فیڈریشن کی مضبوطی کے لئے چھوٹے صوبوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اپنی قوم کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بیرونی طاقت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے ہمارے نوجوانوں کو غلط سمت میں نہ لے جاسکے ۔ ہمیں قوم کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کو بتانا پڑے گا کہ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ ڈالی ہے اب پاکستان امن اور بھائی چارے کی جانب گامزن ہے اور پاکستان معاشی اعتبار سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لئے بہترین جگہ ہے جہاں پر سرمایہ کاروں کے لئے کسی قسم کا خطرہ نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپریشن ضرب عضب سے حاصل ہونے والے خوش آئند اور تاریخی نتائج کو ضائع ہونے سے بھی بچانا ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کرتے ہوئے ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی بیرونی یا اندرونی ہاتھ پاکستان کے امن سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے اور پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔آمیں