راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ دشمنوں کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان پہلے مضبوط تھا اب ناقابل تسخیر ہے۔
جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے غیر روایتی جنگ کا شکار ہے جبکہ قوم اور فوج نے اس کا بھر پور دفاع کیا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ جنگ ستمبر ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہے، شہدا کی بدولت آزاد اور باوقار ملک میں رہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دن پاکستان کی قومی تاریخ کا تابناک دن بن چکا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے کہا کہ چند سال پہلے ہم روزانہ کی بنیاد پردہشت گردی کاشکار تھے تاہم 2 سال قبل شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب میں اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب کی کامیابی تینوں مسلح افواج کے درمیان باہمی تعاون کا نتیجہ ہے، جس میں 19 ہزار آپریشنز کے ذریعے فوجی جوانوں نے دہشت گردی پر قابو پایا۔
انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قومی سلامتی کی خاطر کسی بھی حد تک جائیں گے۔
آرمی چیف نے قوم پر واضح کیا کہ ملک کولاحق اندرونی اور بیرونی خطرات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوانین اور نظام کی کمزوریوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض عناصر افواج پاکستان کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ رواں رکھے جانے والے ہندوستانی فورسز کے غیر انسانی سلوک کی نشاندہی کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ آزادی کا حق مانگنے والے کشمیری بدترین ریاستی ظلم کاشکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘کشمیر ہماری شہہ رگ ہے، پاکستان تحریک آزادی کی حمایت جاری رکھے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سی پیک پورے خطے کی خوشحالی میں مددگار ثابت ہوگا اور کسی طاقت کو سی پیک کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔
انھوں نے پاکستان کے دشمنوں پر واضح کیا کہ ‘دوستی نبھانا بھی جانتے ہیں اور دشمنی کا قرض اتارنا بھی آتا ہے’۔
اس سے قبل پاک فوج کے چاق و چوبند دستے کی پریڈ کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یادگار شہداء پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔
تقریب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیردفاع خواجہ آصف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت دیگر اعلیٰ عسکری اور سول قیادت موجود تھی۔
اس کے علاوہ تقریب میں فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔