لاہور( مانیٹرنگ ڈیسک) مسئلہ کشمیر، بھارتی ریاستی دہشتگردی نے خود ہی اس مسئلے کو اتنی ہوا دی کہ بڑے بڑے رہنماء و ملک ،قائد اعظم محمد علی جناح کے 2 قومی نظریئے کو ماننے پر مجبور ہوگئے، نا مانا تو صرف عربوں نے، ایک جانب مسئلہ کشمیر کے بعد متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امارات کا سب سے بڑا ایوارڈ دے دیا گیا بلکہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے گاندھی کے ڈاک ٹکٹ بھی پورے یو اے سی میں جاری کیے گئے اور فاشٹ مودی کو امارات کی مساجد کے دورے کرائے گئے، یہ وقت کشمیریوں اور امت مسلمہ کے زخموں ہر نمک چھڑکنے سے کم نہ تھا، دوسری جانب سے امت مسلمہ کا ٹھیکہ دار بننے والے سعودی عرب کی جانب سے بھی مسئلہ کشمیر پر کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اُٹھایا گیا، قدم تو دور کی بات سعودی شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے ایک لفظ تک نہیں کہا گیا، امت مسلمہ سمیت پاکستان کا بچہ بچہ اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ سعودی عرب میدان میں آئے اور کشمیریوں کے حوالے سے ٹھوس رد عمل دے لیکن ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد پاکستان کی صحافتی برادری کی جانب سے عربوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، خاص طور پر پاکستانی صحافیوں اور قوم کی جانب سے اسلامی اتحاد کے نام پر بننے والی فورس کی سربراہی جو کہ پاکستان کے پاس سے اس سے بھی راحیل شریف کے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے، اسی حوالے سے سینئر صحافی ہارون الرشید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پیغام چھوڑا ہے اور امت مسلمہ کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے، ہارون الرشید کا اپنے پیغام میں کہنا ہے کہ ’’ کھیل ختم ہوا۔ لوٹ آئیں جنرل راحیل شریف صاحب، سعودی کی کل اوقات اب یہ ہے کہ اسرائیل کے حلیفوں میں سے ایک حلیف ہے۔ ا نا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
ایک اور پیغام میں ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ ’’دنیا کی واحد مشرک قوم کےسربراہ نریندر موددی کو تمغہ دینے کا فیصلہ اس قدر احمقانہ ہے ک امارات حکومت کی آنے والی ہزار نسلیں بھی اس کا قرض چکا نہ سکیں۔گی۔‘‘ایک اور پیغام میں ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ ’’ ایران ہمارا پرجوش دوست نہیں۔۔۔۔ اور بھارت کا ہے ۔اس کے بوجو کشمیر پہ اس کا موقف جرآت مندانہ ہے ، عربوں کا نہیں؟ اس لیے کہ ایران اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ عرب امریکہ سے پوچھ کر۔ وسائل اہم ہوتے ہیںمگر سب کچھ نہیں‘‘ْ۔