تحریر : شاہ بانو میر
صبح نور کے تڑکے جب فجر کے بعد آسمان کی سیاہی ظلمت کی صورت شکست تسلیم کرتے ہوئے سرکتی ہوئی بادلوں کی اوٹ چھپ رہی تھی اور نور کا ہالہ نمودار ہوتا ہوا تاریکی کو دور کرتا دکھائی دے رہا تھا – خوبصورت آسمان کا منظر بادلوں کی حسین اٹھکیلیاں ٹھنڈی پرسکون فرحت بخش ہوا – اور منظر پے منظر بدلتا آسمان رنگوں پے رنگ بدلتے بادل سبحان اللہ ایسے میں نجانے کیسے اس کے دل میں خواہش جاگی انہونی سی سوچ ابھری دور کہیں سے پرندوں کی چہچاہٹ کی حمد و ثنا ابھری تو سوچا اس نے کہ نہ توانسانوں کی طرح ان کے بس اسٹاپ ہیں کہ جہاں یہ وقت مقررہ پے اکٹھے ہوںاور جب یکجا ہو جائیں تو ایک ساتھ زقند بھر کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے کی کوشش کریں نہ ہی ان کے ائیر پورٹس ہیں کہ پرواز کے وقت پر سب مل جائیں پہنچ جائیں آخر یہ پرندے اکٹھے کہاں ہوتے ہیں کیسے یہ “” پر نما “” قطار بنتی ہے؟ کیسے یہ اکٹھے ہو کراتنے اتفاق سے ہر روز مقررہ وقت پر نکلتے ہیں
روزانہ بنی نوع انسان کو پیغام دیتےہیں کہ تم کاٹتے جوڑتے ہی رہنا مرتے دم تک اچانک ہی اس کی نگاہ آسمان کی وسعتوں پر اللہ کی قدرت کے مناظر سے ہٹ کر اس کی صناعی کی جانب اٹھتی ہے – ایک پرندہ فضا میں چھوٹے چھوٹے گول گول چکر کاٹتا ہوا آوازیں نکال کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کر رہا تھا – دوسری جانب سے ایک ساہ دھبہ نمودار ہوتا ہے وہ قریب آتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ اسی قبیل سے ہے اب دو پرندے باہم پرواز کر رہے ہیں – اتنے میں تیسرا ان کا ہم جنس تیسری جانب سے آتا دکھائی دیتا ہے – رفتہ رفتہ انتظار کرتے چکر کاٹتے پرندے جب مطلوبہ تعداد مکمل کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے آنے والا شائد ان کا سربراہ تھا
وہ رفتہ رفتہ آگے کی جانب بڑہتا ہے اس کی تقلید اس کے عقب میں موجود تمام پرندے کرتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر وہی طویل –پر–نما قطار بنتی چلی جاتی ہے اور اسی طرح چکر کاٹتے ہیںوہ اپنے کنبے کی تعداد مکمل پاتا ہے تب وہ ایک سمت رخ کرتا ہے اور یوں کئی سالوں سے ذہن میں ابھرنے والا یہ بظاہر معمولی سا سوال اپنے منطقی جواب کو پہنچا – ان کے اکٹھے ہونے کے دوران دیگر دواقسام کے پرندے ان کے قریب آئے لیکن وہ دوسری جانب مُڑ گئے جہاں شائد ان کا رہبر ان کیلئے پکار لگا رہا ہوگا – خوبصورت سبق جو ان کی فطرت میں قدرت نے ودیعت کر رکھا ہے
سوچیں غور کریں یہ پرندے چھوٹا سا وجود کوئی سکول کوئی ادارہ کوئی درسگاہ نہیں کس نے یہ انداز سکھایا؟ کس نے یوں ایک سے دو دو سے تین اور پھر پورا جھنڈ بننے تک انتظار ایک ساتھ سب کو لے کر اڑنا پھر سارا دن آسمان کی لا متناہی وسعتوں می پرواز کرتے ہوئے کوئی کہیں تو کوئی کہیں اور پھر ایک “” کوک “” پر سب اکٹھے ہو کر پرسکون واپس ایک ساتھ یہ اتفاق گٹھ جوڑ آفاقی دنیا تک رہنے والا ہے وجہ شائد یہی ہے کسی نے ڈالز نہیں کمانے پیٹ بھرنے کیلئے سارا دن دانا دنکا چنا اور دوسرے دن رب کے توکل پے پھر آغاز کر دیں گے – قناعت نے سادگی نے محدود ضروریات نے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک ساتھ جوڑ کر ایسے ہی رکھنا ہےسبحان اللہ ایک جسمانی ساخت ایک جیسی کوک ایک جیسی اڑان بھرنے کی طاقت ایک جتنی خوراک ایک جیسی جلد ایک جیسی پرواز یہ سبق ہے حضرت انسان کیلئے کہ اپنی سوچ اپنے مزاج اپنی روایات اپنے انداز کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنی
پھر کامیابی حاصل کرنی نسبتا آسان ہے – عدم مطابقت والی سوچ کے ساتھ کام کی کارکردگی قدرے کم ہو جاتی ہے – انسان کو بھی چاہیے کہ اپنے مزاج کو ٹٹولے پرکھے سوچے موازنہ کرے کسی کے ساتھ کام شروع سے پہلے وہاں موجود لوگوں کو اپنی ذہنی سطح سے ملائے پھرساتھ چلنے کا فیصلہ کرے غیر موافق رویئے کسی کیلئے بھی فائدہ مند نہیں مشاغل کام کا انداز سوچ کی جہتیں سکون کی مقدار بڑھ جاتی ہے
اگر ہم خیال لوگ ہوں کارکردگی کا رخ آسمان کی جانب اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے – گروپ مرضی کا ہو سوچ ایک ہو تو انسان زیادہ آسودگی محسوس کرتا ہے جیسے یہ سُچے کھرے بلند اڑان بھرتے پرندے انسانوں کو روزانہ پیغام دیتے ہیں لازوال کامیابی کا ہم جنس باہم پرواز
تحریر : شاہ بانو میر