تحریر: شاہد شکیل
بہت سے مریضوں کے لئے جنرل اینستھیزیا نعمت کی بجائے ز حمت ہے کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ بے ہوشی میں دورانِ آپریشن ان کی موت نہ واقع ہو جائے اور کئی دن اس تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں آپریشن کروایا جائے یا نہیں حالانکہ آپریشن سے قبل انیستھیٹسٹ مریض سے نہایت اہم سوالات کرتے ہیں کہ کیا اس سے قبل آپ کا آپریشن ہوا ہے ، کس شے سے الرجی ہے، کسی بیماری میں مبتلا تو نہیں ، سموکنگ کرتے ہیں ،کون سی ادویہ زیر استعمال ہیں ،الکوحل یا منشیات کے عادی تو نہیں وغیرہ وغیرہ اور سرجری سے قبل بے ہوشی کی دوا کب تک اثر کرے گی یا آپریشن میں کتنا وقت صَرف ہو گا ،کب دوبارہ ہوش میں آئیں گے، گلے میں خراش ہو گی ، سماعت پر بھی معمولی اثر پڑے گااور ایسی باتیں سن کر اکثر لوگ پریشان ہو نے کے علاوہ خدشات میں پڑجاتے ہیں کہ اگر آپریشن کامیاب نہ ہوا یا دوا کی مقدار زیادہ ہو گئی یا میں دوبارہ ہوش میں نہ آسکا توکیا ہوگا ؟۔
عام حالات میں اگر کہیں ایکسیڈینٹ ہو جائے تو مریض کو ہوسپیٹل پہنچانے اور ضروری و اہم چیک اپ کے فوراً بعد آپریشن کیا جاتا ہے لیکن اگر کسی صحت مند انسان کو اچانک جسمانی تکلیف پہنچے مثلاً گردے،جگر یا کسی اعضاء کا آپریشن لازمی ہو تو ڈاکٹر اوپر بیان کی گئی ابتدائی باتوں سے مریض کو تفصیلاً آگاہ کرتے اور مخصوص کاغذات پر دستخط کرواتے ہیں تاکہ مریض اپنے ہوش وحواس میں تمام باتوں کو سمجھ اور جان سکے نہ کہ کشمکش میں مبتلا رہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جنرل اینستھیزیا کانام سنتے ہی کئی افراد شدید خوف میں مبتلا ہو جاتے اور اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے ظاہر بات ہے ہر انسان کے اندر خوف پایا جاتا ہے وہ کسی قسم کا کیوں نہ ہو اور خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ کئی افراد آپریشن سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوتے جتنا یہ سن کر جان نکل جاتی ہے کہ بے ہوش کیا جائے گا رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین مردوں کے مقابے میں زیادہ ہمت سے کام لیتی ہیں انہیں نہ تو بے ہوشی یا اسکے بعد آپریشن تھیٹر میں کیا ہو گا
قطعاً تشویش میں مبتلا نہیں ہوتیں جبکہ مَردوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ان کے آس پاس ہو لیکن ان کی خواہش پوری نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہوسپیٹل اور علاج و معالجے کی ریگولیشن کے خلاف ہے اور اس بات پر اکثر حضرات ڈاکٹروں سے جھگڑا بھی مول لیتے ہیں کہ اگر میں ہوش میں نہ آیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا مرنے سے قبل کم از کم مجھے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ تو رہنے دیا جائے اور ڈاکٹرز مسکراتے ہوئے انہیں تسلیاں دیتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے دورِجدید میں اینستھیزیا پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے کیونکہ مخصوص تربیت اور نئی ادویہ کی بدولت آج انسانی زندگی بچانے کے نناوے فیصد چانس پیدا ہو چکے ہیںگزشتہ دو دہائیوں میں مغربی ممالک میں اموات میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کئی ترقی پذیر ممالک میں غیر تربیت یافتہ ڈاکٹرز مریضوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ناقص انتظام کے سبب دورانِ آپریشن کئی افراد کی اموات ہو جاتی ہیں۔
حالانکہ ڈاکٹرز اور انیستھیٹسٹ کا اہم فریضہ ہوتا ہے کہ مریض کو آپریشن سے قبل اور خاص طور پر بے ہوش کرنے سے متعلق تمام باتیں تفصیلاً بتائی جائیں اور آپریشن کے بعد اس وقت تک اسسٹنٹ ڈاکٹر مریض کے قریب رہے جب تک اسے مکمل ہوش نہیں آجاتا۔ ماہرین کا کہنا ہے آج کل بے ہوشی کی ادویہ تقریباً سو فیصد محفوظ ہیں دس میلین جنرل اینستھیزیا میں صرف ستر افراد کی اموات کے چانس ہوتے ہیںاور زیادہ تر دورانِ آپریشن ڈاکٹرز کی کسی غلطی سے پیش آتے ہیں نہ کہ بے ہوشی کی دوا سے جب تک سرجن مکمل طور پر جنرل اینستھیزیا سے مطمئن نہیں ہوتے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جاتا،ڈاکٹرز کا کہنا ہے انسان کے اندرونی اعضاء میں انفیکشن ہونے اور ادویہ سے علاج ناممکن ہو تو آپریشن لازمی ہوتا ہے تاکہ انفیکٹڈ اورگان کو کاٹا جائے یا باہر نکال لیا جاتا ہے۔
کئی سال پہلے مریض انیستھیزیا کے باوجود دوران آپریشن تکلیف محسوس کیا کرتے تھے لیکن دور جدید میں ہر انسان بے ہوشی کی دوا پر یقین رکھتا ہے لیکن ڈاکٹرز پر نہیں کیونکہ میڈیا میں آئے دن کوئی نہ کوئی خبر نشر کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر پیٹ میں بلیڈ بھول گیا کٹر بھول گیا حتیٰ کہ نیپکن تک نظر نہیں آیا اور چند ماہ بعد دوبارہ پیٹ کھولنا پڑا۔ اٹھارہ سو چوالیس میں بے ہوشی کا تجربہ ایک ڈینٹسٹ نے اپنے اوپر آزمایا اپنے صحت مند دانت کو بغیر تکلیف کے نکالنے کیلئے مسوڑھے میں بے ہوشی کا انجیکشن لگایا مسو ڑھا سُن ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں سے دانت نکال لیا ۔ دوسال بعد بوسٹن میں ایک مریض کی گردن کا آپریشن کیا گیا پہلی بار اسفنج میں بے ہوشی کی دوا بھگو کر اسے بے ہوش کرنے کے بعد آپریشن کیا گیا آپریشن کامیاب ہوا اور مریض کا کہنا تھا دوران آپریشن اسے کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور یوں جنرل اینیستھیزیا سے سرجری میں انقلاب آگیا،آج کے ترقی یافتہ دور میں آپریشن سے قبل سفینٹا، پروپوفول اور کیورونیم استعمال کی جاتی ہے جو تکلیف سے سے نجات دلاتی اور پٹھوں کو جکڑنے سے محفوظ رکھتی ہے علاوہ ازیں بینزو ڈائیزاپام کا بھی بہت اہم کردار ہے
بالترتیب میڈیسن کے استعمال اور آکسیجن کی فراہمی سے مریض خود بخود آنکھیں موند لیتا اور چند سیکنڈ بعد دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے ایسا بھی ہو تا ہے دوران آپریشن مریض اچانک آنکھیں کھول لیتا ہے ، کئی افراد ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر چیخنا چلانا بھی شروع کرتے ہیں اگر انہیں دوبارہ بے ہوش نہ کیا جائے تو آپریشن جاری نہیں رکھا جا سکتا ایسے واقعات میں اکثر ادویہ یا ڈاکٹر کا قصور نہیں ہوتا بلکہ آپریٹنگ مشینوں میں نقص پیدا ہونے سے ہوتا ہے حالانکہ تھیٹر میں مانیٹر مریض کے تمام اورگان کے فنکشن بتا رہا ہوتا ہے کہ نبض چل رہی ہے بلڈ پریشر نارمل ہے اور مریض گہری نیند میں ہے۔
لیکن کبھی الیکٹرانک سسٹم یا ہوا کے دباؤ کے سبب مشینیں درست فنکشن نہیں کرتیں جس سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے لیکن ایسے واقعات ایک ہزار میں دو افراد کے ساتھ ہی پیش آتے ہیں بعد از آپریشن مریض کو کچھ دیر کیلئے آپریشن تھیٹر سے منسلک کمرے میں منتقل کیا جاتا ہے اورجب تک مریض کو ہوش نہیں آتا ایک ڈاکٹر یا سپیشل نرس مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر اسے مخصوص وارڈ یا کمرے میں پہنچا دیا جاتا ہے۔نئی تحقیق کے مطابق آج کل میڈیسن اور خاص طور پر آپریشن سے قبل اور بعد میں مریض کے زندہ رہنے کے نناوے فیصد چانس ہوتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے کئی افراد بے ہوش ہونے سے اور کئی آپریشن کا نام سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن ہم اپنا فرض ذمہ داری سے سر انجام دیتے ہیں اور آخر دم تک کوشش ہوتی ہے کہ مریض کو کسی بھی قیمت پر بچایا لیا جائے۔
تحریر: شاہد شکیل