اسلام آباد(رپورٹ ؛اصغر علی مبارک سے)عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان 28مئی کو متوقع ھے اس بار 55 دن کا انتخابی شیڈول جاری تیار ھو چکا ھے حکومتی اور اپوزیشن کے نگران سیٹ اپ کے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی کیا جاۓ گا الیکشن کمیشن حکام نے بتایا ماضی میں 48 دن کا انتخابی شیڈول جاری کیا جاتا رہا ہے، لیکن آئندہ عام انتخابات کے شیڈول میں 7 روز زیادہ دیئے جائیں گے۔الیکشن کمیشن حکام کے مطابق انتخابی دن سے 28 دن قبل امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی جائے گی، امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے 21 کی بجائے 28 دن دیئے جائیں گے، جبکہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی انتخابی روز سے 28 روز قبل شروع ہوجائے گی۔.الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے آئندہ عام انتخابات کے لیے ڈسٹرک ریٹرنگ افسران (ڈی آر اوز) اور ریٹرنگ افسران (آر اوز) کے لیے ماتحت عدالتوں کے جوڈیشل افسران کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ھے ۔ مذکورہ خدمات حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے متعلقہ ہائی کورٹس کو ڈسٹرکٹ اور سیشن جج صاحبان، ایڈیشنل سیشن جج صاحبان، سینئر سول جج صاحبان، سول جج صاحبان کے لیے خطوط لکھ دیے ہیں۔گزشتہ برس مئی میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا اور خیبرپختونخوا میں ای سی پی کے فیلڈ اسٹاف کے درمیان ملاقات میں تجویز دی گئی تھی کہ 2018 کے عام انتخابات کے لیے ڈی آر اوز اور آر اوز کے لیے جوڈیشل افسران کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔الیکشن کمیشن حکام کے مطابق آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو 31 جولائی تک ہر صورت انتخابات کرانا ہوں گے، 55 دنوں پر مشتمل انتخابی شیڈول کا اعلان پولنگ ڈے سے 60 روز قبل متوقع ہے، آئندہ عام انتخابات کے لیے 25 سے 31 جولائی کے درمیان کی تاریخ رکھی جائے گی جبکہ عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان رواں ماہ کے آخری ہفتے میں متوقع ہے۔مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے تناظر میں حلقہ بندیوں سے چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی تیاری کی جارہی ہے۔حالیہ مردم شماری کے ابتدائی اعداد وشمار کے مطابق ہونے والی حلقہ بندیوں میں کل 272 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے پنجاب کی نشتیں 148 سے کم ہو کر 141 ہو جائیں گی، جس کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ صوبے کے 15 اضلاع میں نشستوں میں کمی یا زیادتی کی صورت میں نظر آئے گا۔پنجاب میں 7 نشستوں کے نقصان کے باوجود لاہور کی نشتیں 13 سے بڑھ کر 14 ہوجائیں گی جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی نشستیں 2 سے بڑھ کر 3 ہوجائیں گی۔لاہور کی موجودہ آبادی 1 کروڑ 11 لاکھ 20 ہزار ہے، جس کے مطابق لاہور کا حصہ 14.26 فیصد ہے، جو واضح طور پر ایک نشست ہے۔اسی طرح مظفر گڑھ کی آبادی 43 لاکھ 20 ہزار ہے، جس کا کل آبادی میں حصہ 5.54 فیصد ہے، جو واضح طور پر ایک اضافی نشست کے برابر ہے جبکہ ضلع کی نشستوں کو 5 سے بڑھا کر 6 کیا جائے گا۔ڈیرہ غازی خان میں قومی اسمبلی کی موجودہ نشستوں کی تعداد 3 ہے جبکہ اس کی آبادی 28 لاکھ 70 ہزار اور اس کا حصہ 3.68 فیصد ہے، لہٰذا حلقہ بندیوں میں اس کی نشست بھی بڑھ کر 3 کے بجائے 4 ہو جائیں گی۔راجنپور (2) کی آبادی 19 لاکھ 90 ہزار ہے اور اس کا حصہ 2.55 فیصد ہے جو ایک اضافی نشست کے لیے اہل ہے۔پنجاب کے جن اضلاع کی نئی حلقہ بندیوں میں ایک ایک نشست کم ہوگی ان میں اٹک، گجرانوالہ، حافظ آباد، نارووال، قصور، شیخوپورہ، فیصل آباد، جھنگ، ساہیوال، اوکاڑہ اور پاک پتن شامل ہیں۔اٹک کا حصہ 2.41 فیصد ہے جبکہ آبادی کا کل تناسب 18 لاکھ 80 ہزار ہے اور اس کی نشستیں 3 سے کم ہو کر 2 کردی جائیں گی، اسی طرح گجرانوالہ کی آبادی 50 لاکھ ہے جبکہ آبادی میں اس کا حصہ 6.42 ہے، تاہم اس کی موجودہ نشستوں کی تعداد 7 ہے جو نئی حلقہ بندیوں میں کم ہو کر 6 رہ جائے گی۔حافظ آباد بھی نئی حلقہ بندیوں میں اپنی ایک نشست کھو دے گا اور اس کی 11 لاکھ 50 ہزار آبادی میں 2 کے بجائے ایک نشست رہ جائے گی۔ارووال کی آبادی 17 لاکھ ہے اور اس کا حصہ 2.19 فیصد ہے جبکہ نئی حلقہ بندیوں میں موجودہ 3 نشستوں میں سے ایک نشست کم کردی جائے گی، اسی طرح قصور کی آبادی 34 لاکھ ہے اور اس کا حصہ 4.43 فیصد ہے، تاہم اسے بھی اپنی 5 نشستوں میں سے ایک نشست کو کھونا پڑے گا۔آخری حلقہ بندیوں میں شیخوپورہ میں قومی اسمبلی کی 7 نشستیں تھی لیکن ننکانہ صاحب کا نیا ضلع اس سے الگ کردیا گیا، جس کے بعد ایک ضلع کی آبادی 34 لاکھ 50 ہزار اور ایک کی 13 لاکھ 50 ہزار ہے، تاہم نئی حلقہ بندیوں میں شیخوپورہ کی 4 اور ننکانہ صاحب کی 2 نشستیں ہوجائیں گی۔اسی طرح کا معاملہ جھنگ اور چنیوٹ اضلاع کے ساتھ بھی ہے، جو گزشتہ حلقہ بندیوں تک ایک تھے اور ان کی نشستوں کی تعداد 6 تھی، تاہم موجودہ حصہ میں جھنگ کا 27 لاکھ 40 ہزار آبادی کے ساتھ 3.52 فیصد حصہ ہے جبکہ چنیوٹ کا 13 لاکھ 60 ہزار آبادی کے ساتھ 1.76 فیصد ہے۔لہٰذا انتخابی رولز 2017 کے راؤنڈ آف فارمولے کے تحت جھنگ 4 نشستوں کا اہل ہے تاہم سخت مقابلے کے بعد 3 نشستیں حاصل کرسکے گا اور باقی کی 2 نشستیں چنیوٹ کے حصے میں آئیں گی اور جھنگ کو اپنی ایک نشست کھونی پڑے گی۔ساہیوال کی آبادی کی بات کی جائے تو اس کی کل آبادی 25 لاکھ 10 ہزار ہے اور اس کا حصہ 3.22 فیصد ہے جبکہ اس کی چار نشستوں میں سے ایک کم کردی جائے گی، اسی طرح اوکاڑہ میں اس وقت نشستوں کی تعداد 5 ہے لیکن حالیہ مردم شماری میں اس کی آبادی 30 لاکھ اور اس کا حصہ 3.89 فیصد ہے، تاہم نئی حلقہ بندیوں میں اس کی نشستوں کی تعداد 4 رہ جائے گی۔پاک پتن کی کل آبادی 18 لاکھ 20 ہزار ہے اور اس کا حصہ 2.33 فیصد ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی تین نشستوں میں سے ایک کھو دے گا، اسی طرح فیصل آباد کی بھی نشتیں 11 سے کم ہو کر 10 رہ جائیں گی جبکہ اس کی آبادی 1 کروڑ 90 ہزار اور حصہ 7.87 فیصد ہے۔نئی حلقہ بندیوں میں پنجاب کے علاوہ جن دیگر صوبوں کے شہروں کو فائدہ ہوگا ان میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی ہے، جس کے 6 اضلاع کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے اور اس کا کل حصہ 20.58 فیصد ہے، جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اس کی نشستوں کو 20 سے بڑھا کر 21 کیا جائے گا۔سندھ کے دیگر اضلاع میں شکار پور کی موجودہ نشستوں کی تعداد 2 ہے اور اس کا حصہ 1.57 فیصد ہے اور امکان ہے کہ یہ اپنی نشستوں کی تعداد برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔خیبر پختونخوا میں پشاور کی موجودہ نشستوں کی تعداد 4 ہے جبکہ اس میں ایک نشست کے اضافے کا امکان ہے، پشاور صوبے میں 39 فیصد حصہ رکھتا ہے۔….