تحریر: ایم سرور صدیقی
ایک بڑی بڑی مونچھوں ولا شخص تیز رفتار سائیکل چلائے جا رہا تھا کہ ایک عورت سے ٹکر ہوگئی ۔۔۔عورت نے کہا اتنی بڑی بڑی مونچھیں رکھ کر بھی سائیکل دھیان سے نہیں چلا سکتے۔۔۔ بی بی!اس نے جل کر کہا یہ مونچھیں ہیں کوئی بریک نہیں۔۔۔ اس لطیفے کا حالات سے کوئی تال میل ہو نہ ہو لیکن مونچھوں کے باعث چند فی صد لوگوں کو امید سی ہوگئی ہے یعنی امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی پاکستان میں جب بھی جمہوریت آتی ہے اس کے ساتھ ہی کچھ مایوس سیاستدان مارشل لاء کی پیش گوئیاں شروع کر دیتے ہیں کئی اچھے بھلے لوگوں کو سوتے جاگتے بوٹوںکی دھمک سنائی دیتی ہے کسی کو فوجی بوٹوں کی چاپ۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں۔
آنکھیں ملتے ہیں لیکن منظرنامہ جوں کا توں ہوتا ہے، کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوتا آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو روزانہ حکومت کو رخصت، میاں نواز شریف کو گھر بھیج کر سوتے ہیں لیکن شزمندہ ہونے کی جائے صبح سے شام تک پھر حکومت جانے کی پیش گوئیاں کرتے تھکتے نہیں ہیں پانامہ لیکس کے انکشافات سے کئی لوگوں کی امید بندھ گئی ہے اپنے شیخ رشیدکا کہناہے نوازشریف حکومت عید تک نہیں جاتی نظرآتی بہرحال حکومتی ایوانوںمیں ایک کہرام سا مچاہواہے اس صورت ِ حال میں اب تو میاں نوازشریف بھی خاصے نروس نظر آرہے ہیں کوئی جمہوری استحکام کی باتیں کررہاہے تو کوئی مارشل لاء کی پیش گوئی۔ ملک میں جمہوریت اورمارشل لاء کے آتے جاتے ادوار بارے ۔۔لیکن ایک حیرت انگیز انکشاف ہواہے پاکستان میں اب تلک مونچھوںوالے جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا کلین شیو جمہوریت کے حامی نکلے۔
برصغیر میں تومونچھ مردانگی کی علامت سمجھی جاتی ہے ،علاقائی تہذیب و تمدن اور معاشرہ میں مونچھوں والا بارعب شخصیت سمجھا جاتاہے آپ نے سناہوگا مغربی پاکستان کے ایک سابق گورنرنواب آف باغ کی مونچھوںمیں ایک خاص قسم کا سحر تھا ان کی بارعب شخصیت سے بیشتر ملنے والے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ایک پنجابی فلم کا یہ گانا ایک دور میں بہت مشہور ہوا۔
مونچھاں نیویاں کر کے ٹرنا
گل نئیں مرداں والی
جناب ِ عالی
بہرحال بات ہورہی تھی۔۔۔ مونچھوں والے جرنیلوں کی جنہوں نے جمہوریت کی بساط الٹ کررکھ دی اور دس بارہ سال کسی کو چوں چراں تک نہ کرنے دی۔آج کل عسکری حلقوںمیں مذاق کے پیرائے میں ایک سنجیدہ اطلاع برقی پیغام کے ذریعے گردش کر رہی ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاء لگائے گئے سب کے سب آرمی چیفس مونچھوں والے تھے مثلاً فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان،جنرل(ر) ضیاء الحق،اور جنرل (ر) پرویز مشرف جبکہ جتنے آرمی چیف کلین شیو تھے سب نے جمہوریت کو سپورٹ کیا جن میں جنرل (ر) یحی ٰ خان، جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ، جنرل (ر) آصف نواز جنجوعہ، جنرل (ر)جہانگیر کرامت اور جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی شامل ہیں جبکہ ایک دلچسپ پہلویہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بھی مونچھیں ہیں ۔ یہ بھی شنید ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان مختلف معاملات پر ایسے ایشو سامنے آ چکے ہیں۔
کچھ کہی ان کہی کہانیاں بھی ہیںجس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے” سیاسی سیانوں” کا کہنا ہے لیکن اپنے سخت فیصلوں میں مونچھوںکا تو کوئی رول نہیں مگرسابقہ روایات کو نظرانداز کرنا بھی خاصا مشکل ہے یہ باتیں یقینا ایسے لوگ تواتر سے کرتے ہیں جن کی جمہوریت کے دوران دال کم ہی گلتی ہے ویسے بھی پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں کسی بھی وقت ،کچھ بھی ہو سکتاہے ان حالات میں”اب تلک مونچھوںوالے جرنیلوںنے مارشل لاء لگایا کلین شیو جمہوریت کے حامی نکلے والی بات ”نے کئی وزیروں،مشیروںکی نیندحرام کرکے رکھ دی ہوگی ماضی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔
اس وقت پاکستان کو جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے ،جتنے بھی چیلنجز درپیش ہیں سب کے سب فوجی ڈکٹیٹروں کی بے رحم پالیسیوںکا منطقی انجام ہے لیکن ان کو مطلق احساس تک نہیں کہ ان کی نادانیوں نے ملک کو کس آگ میں جھونک دیا۔ جنرل راحیل شریف نے تو کئی بار جمہوریت کے حق میں بیانات دئیے ہیں جو یقینا موجودہ حکومت کیلئے حوصلہ افزا بات ہے جمہوری حکومت سے ان کے تعلقات خاصے خوشگوار نظرآرہے ہیں ان کی فیملی کے دو شہیدوں کو مادر ِ وطن کی حفاظت کے اعتراف میں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ملنا پوری قوم کیلئے باعث ِ فخرہے ۔۔۔وہ یقینا ملک وقوم کیلئے بہتر سوچتے ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی ،اقتصادی حالات،جغرافیائی صورت ِ حال، بھارت میں انتہا ء پسند سیاستدانوں کا بڑھتاہو ا اثرورسوخ، بھارت،اسرائیل،امریکہ گٹھ جوڑ اور عالمی بے چینی کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا اب پاکستان کسی بھی صورت میں دوبارہ آمریت کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے آرمی چیف مونچھوں والے یاکلین شیو غالب خیال یہ ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر خوبیوں، خامیوں اور خرابیوں کے باوجود یونہی چلتی رہے گی۔
مارشل لاء نہیں آئے گا اس کی خواہش رکھنے والے آئے روز دھواں دھار بیانات دے کر اپنے دل کا غبار نکالتے رہیں گے ان کی حسرت دل ہی دل میں رہنے کی سوفی صد امیدہے کیونکہ اب اقتدارکی تمام مقتدرقوتیںاس بات پرمتفق نظر آتی ہیں کہ جمہوریت چلنی چاہیے جمہوریت کا تسلسل ہی ہمارے موجودہ مسائل کا حل ہے بری سے بری جمہوریت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے ۔اس مقولے پریقین کرنے میںہی عافیت ہے جمہوریت برقراررہی تو سیاستدانوںکا احتساب ایک مستقل عمل اور فطری اندازمیںجاری رہے گا اوریہ اس وقت پاکستان کیلئے انتہائی ناگزیرہے ۔ہم اس کوشش میں کامیاب ہوئے تو افواہیں، اندیشے،سازشیں سب دم توڑ جائیں کی ۔پاکستان جمہوریت کی بدولت معرض ِ وجودمیں آیا اور جمہوریت کے ذریعے ہی ترقی کرسکتاہے اس ضمن میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں اب حالات اس ڈگر،اس نہج ،اس دوراہے پر آتے جارہے ہیں جس نے سیاست کرنی ہے اسے جمہوریت پر ایمان لاناہوگا، قوم تہیہ کرلے کہ کوئی شارٹ کٹ،کسی چور دروازے یا کسی بھی اندازکی غیر جمہوری کوشش سے اقتدار میں آنے والوں قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی جائے تو بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرلے تو پھر آرمی چیف مونچھوںوالاہویا کلین شیو کیافرق پڑتاہے؟ یہ کتنی عجیب بات ہے۔
ترقی صرف حکمران خاندانوںتک ہی محدودہوکررہ گئی ہے عوام کے حصہ میں صرف بدنصیبی ہی آرہی ہے انہیں صاف پانی پینے کو میسر نہیں ۔ بنیادی سہولتیں بھی عوام کے نصیب میں نہیں ہسپتالوں میں دوا نہیں ملتی اور حکمرانوںکا معدہ خراب ہوجائے تو جہازبھرکر غیرممالک چلے جاتے ہیںلیکن اگر سیاستدانوںکا یہی چلن اور لوٹ مارکی کہانیاں منظر ِ عام پر آتی رہیں تو کہیں لوگ مارشل لاء کی دعائیں مانگنا نہ شروع کردیں ایسا ہوا تو یہ سیاست، جمہوریت کیلئے نیک شگون نہ ہو گا۔
تحریر: ایم سرور صدیقی