تحریر: شاہ بانو میر
جس کو جان و دل سے بڑھ کر چاہا ہوـ جس کی فکر اولاد سے زیادہ کی ہوـ جس کیلیۓ دعائیں والدین سے زیادہ کی ہوںـ جس کی خوشحالی اپنے گھر کی خوشحالی سے زیادہ مانگی ہوـ جس کا سکون امن اپنے گھر اپنی ذات سے زیادہ مانگا ہوـ وہ مسکرائے تو یہ کیسے ہو سکتا کہ میرے ہونٹ ساکت رہیں ـ کئی سالوں سے اگست کے مہینے میں خصوصا 14 اگست کو لوگ رسومات نبھاتے اور میں کڑہتی کہ یہ لوگ کس بات پے پردہ ڈال کر جھوٹا کھیل کھیل رہےـ الحمد للہ ربّ العالمین 2015 کا ہنستا مسکراتا سال میرے پاکستان کیلیۓ خوشخبریاں خوشیاں کامیابیاں اور عروج لے کر طلوع ہوا ہےـ طاقتور عیار دشمن پیسے کو پانی کی طرح بہا کر اپنی طرف سے حد سے زیادہ نقصان پہنچا چکے جب دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ آپکو برباد کر چکا آپ مر گئے اُس وقت اللہ پاک اپنی تدبیر کرتا ہے اور بار بار قرآن پاک میں فرمان ہے کہ اللہ بہترین معمار ہے اللہ کی ترکیب سب سے زیادہ کارگر ہےـ
یہی کچھ بزدل دشمنوں کے ساتھ ہوا سپر ڈوپر پاورز نےپاکستان کے نئے نقشے جاری کر دیے اور اپنی مرضی سے حصے بُخرے کر دیے اس عظیم الشان مملکت الہیٰ کے ـ لیکن وہ تھک گیا ہمیں نقصان پہنچا پہنچا کر اکتا گیا نئے سے نئی گھٹیا ترکیب لڑا کر لیکن وہ اگر اسلام کا قرآن کا مطالعہ کرتا تو ایک بات اس پر واضح ہوتی کہ اللہ پاک کہتے ہیں کہ شب قدر میں اس قرآن کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیںـ تو جب اُسی رات کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس کا مقدر تو اسی وقت آسمان پر طے ہوچکا تھا کہ قرآن پاک کی طرح اسلام کی طرح شریعتِ اسلامیہ کی طرح بار بار نقصانات پہنچائے جائیں گےـ طاقتور دولتمند مکار دشمن اپنی مکاریاں کرے گا اور آسمان پر بیٹھا ربّ سوہنا جہاں اس دشمن کی تمام تدبیریں ختم ہوں گی وہاں سے اس ملک کی سلامتی کی حکمتِ عملی کا آغاز کر کے اس کو منہ کی کھلائے گاـ
دس سال سے طویل عرصہ گزر گیا اس ملک کی اینٹ سے اینٹ حقیقی معنوں میں بجا دی گئی لیکن اس قوم کو اس کے ارادوں کو اس کے جزبہ ایمانی کو کہاں شکست دی جا سکتی ہےـ بے ضمیر بکاؤ غدار چور لُٹیرے غاصب جب قانون کی جکڑ میں آئے تو دیکھئے محسوس کیجیۓ یہی وہ پاکستان ہے 2914 والا لیکن کیا آج عوام کے مایوس چہرے ہیں؟ کیا آج تارکینِ وطن اپنے محل نما گھروں میں بے سکونی محسوس کر رہے کہ وہ تو دنیا بھر کی عیش و عشرت کریں اور ان کے ہم وطن دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں یہ ایسی حساس سوچیں ہیں جو اکثر وطن سے دور ہجرت کر کے آنے والے سوچتے اور دل مسوس کر کے رہ جاتےـ اللہ پاک نے نجانے ان اٹھے ہوئے ہاتھوں میں سے کس کی دعا کو سنا اور بار بار ہماری پُکار تھی پروردگارِ بحر و بر پھر بھیج دے کوئی عُمر یہ جملہ دعا بن گیاـ
سیاست دانوں سے مایوس قوم ایک بار پھر قدرت کی فیاضی پر کھِل اٹھی ـ جب ایک سیاسی نام اپنی سچائی سادگی اور خلوصِ نیت سے قوم میں جگمگانے لگاـ لیکن قدرت قرآن پاک میں بیان کردی گئی کہ بہت انعام و اکرام اللہ پاک جن کو عطا کرتا دراصل وہ ان کی آزمائش وہ عاجزی میں تحمل میں اور برابری میں رہیں انصاف کے اصولوں کے عین مطابق تو اللہ پاک انعامات کی مُدت اور وسعت بڑہا دیتا لیکن جہاں خناس ذہن میں یہ سمائے کہ میں نجانے کونسا افلاطون ہوں اور یہ جو کچھ آج میرے پاس ہے وہ سب کا سب میری ذاتی محنت اور ہُنر کا ثمر ہے تو بس اسی نقطہ زوال پے مقدر تاریک ہو جاتے اور عطا کی ہوئی نعمت کس انداز میں پل بھر میں چھین لی جاتی ہےـ
یہ قرآن پاک میں تو آپ کو کئی سبق آموز واقعات ملتے ہیں لیکن جو قرآن پاک نہیں کھولتے ان کے سامنے موجودہ حالات اور وہ رہنما ہے جو آسمان کی رفعتوں پر تھا اور جس کو کچھ غلطیوں اور ناتجربہ کار دوستوں اور دوستوں کی غلطیوں کو نظرانداز کر کے اور وہی غلطیاں دوسروں سے ہوئی تو انہیں سزا دے کر زوال پزیر ہوتے ہم دیکھ رہے اصل میں یہ ایک طرف تو قدرت کی سزا کہی جا سکتی ہے اور دوسری جانباس جانباز کی آمد کی مُنادی کہہ سکتے ہیں کہ جس نے محسوس کیا کہ اس کے ادارے کو ہر وقت اس ملک کی سلامتی اس ملک کی قدرتی آفات پر نگہبانی اور اندرونی سیاسی گندگی کی وجہ سے پھیلنے والی سڑاند میں دھکیلا جا رہا ہے جب ہر شعبے میں اس کے ادارے کی آمد ہی حل ٹھہری تو پھر اس بہادر جانباز نے فیصلہ کیا کہ کچھ عرصہ کیلئے ہی سہی لیکن سول حکومت کا ساتھ اس انداز میں دیا جائے کہ ملک کے کمزور اداروں اور دفاعی طاقت کو مضبوط کیا جائےـ سیاستدانوں کے وہی روایتی سیاسی لین دین کبھی اس ملک کے کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکے ـ دلیر جانباز آیا بلاتامل سب ملزموں کو مجرموں تک مکمل احتساب کر کے واصلِ جہنم کیاـ
چیخ و پکار ہوئی پاکستان کو ختم کر دینے کی بزدلانہ کمزور دہائیاں دی گئیں لیکن اس بار ملک دشمنی کے تمام ریکارڈ فوج کے ہاتھ میں تھے اور اس فوج کے سر پر شیر دل جنرل راحیل نیا پاکستان بنانے کیلیۓ مُضر بضد کھڑا تھا وہ کسی کو خاطر میں نہیں لایا اور سول حکومت ہمیشہ کی طرح،کمزور لڑکھڑاتے پاکستان پر اپنی سیاسی اجارہ داری کے نام سے ہی مطمئین رہنا چاہتی تھیـ چائنہ کاریڈور نے کسی اور کو کیا دلاسہ دیا نہیں نہیں پتہ صرف اپنی خوشی جانتی ہوں گوادر بلوچستان سے بھاگتے دہشت گرد پاکستان کو آزاد ہوتا دکھا رہےـ شمالی جنوبی وزیرستان خوف کے پنجوں سے آزاد ہو کر نئے انداز میں جینا چاہتا ہےـ پہاڑ مزید بلند و بالا ہو گئے دشمنوں کے انخلاء سے اندرونِ ملک ہر صوبے ہر شہر میں جاری آپریشن نے بیس ہزار گندے وجود ختم کر دیے اور کراچی کو پُرانا ہنستا کھیلتا شہر بنا دیاـ
غنڈہ راج ختم ہوتا دیکھ کر غنڈے جو اس قبیل کے سردار تھے زیرِ زمین بھاگ گئے ـ بغیر یہ سوچے وہ تو سیاسی حب الوطنی اور مسلسل انتشار پھیلانے کا فارمولہ “” مہاجر “”” کوکتے تھے ـ سب غدار سب چور سب لُٹیرے کراچی کو لوٹ کر فوج کو آنکھیں دکھا کر اپنی اوقات جاننے کے بعد اس پاک زمین سے ناپاک وجود لے کر چلے گئے یہی وجوہات ہیں جو ایک ہستی کے مضبوط اعصاب ناقابل شکست ارادوِں سے ممکن ہوا ـ ورنہ ملک تو یہی ہے لوگ بھی وہی ہیںـ صرف معدود تعداد میں غاصب بھاگ گئےـ اور مُلک پے چھائے گہرے مایوسی کے تاریک بادل دوووور کہیں کھو گئے ـ میرا ملک سیاہ بدلیوں کی اوٹ سے ہنستا مُسکراتا کھِلکھلاتا ابھرنے لگا جیسے چودھیوں کا خوبصورت میٹھی ٹھنڈی روشنی سے بنے ہالے والا چاند روم روم اس بار اگست میں جشنِ آزادی منانا چاہتا ہےـ
اسی طرح جس طرح زندہ ُپرامید قومیں مناتی ہیں اور عرصہ دراز کے بعد دل چاہ رہا ہے کہ ہر سمت سے گونج آئے پکار آئے
دل دل پاکستان
جاں جاں پاکستان
کامیاب چمکتا دمکتا ہر پاکستانی کی آس امید اور محفوظ مستقبل کا تابندہ نشان جشن ِآزادی اہل وطن کو حقیقی دلی مسرت کے ساتھ مباااااااااااااااااااااااااارک مبااااااااااااااااااااااااک پاکستان اللہ پاک نے جنرل راحیل کی صورت کامیاب سپہ سالار اسلام
مانند عمر بھیج دیا دعائیں قبول ہوئیں
تحریر: شاہ بانو میر