تحریر: لقمان اسد
سانحہ پشاور نے دلوں کو گھائل کر دینے والے زخموں سے ہمیں چور کیا تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف ان کٹھن حالات میں بلاشبہ اُمید کی ایک ایسی اُجلی اور شفاف کرن بن کر سامنے آئے کہ قوم کی تمام تر اُمیدوں اور اُمنگوں کا وہ اب محور و مرکز ہیں تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کو ایک پیج پر لانے کا وہ سبب بنے اور تمام سیاسی لیڈر شپ کو باور کرایا کہ اب بڑے فیصلوں کا وقت ہے ذاتی انائوں سے ہٹ کر اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنے اور آگے بڑھنے کا تقاضا حالات ہم سب سے کرتے ہیں۔
سانحہ پشاور کے روز ہی جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا قصد کیا دارالخلافہ کابل پہنچے افغان صدر سے ملاقات کی اشرف غنی جو افغانستان کے نو منتخب صدر ہیں اُنہیں اپنے اور اپنی قوم کے جذبات سے آگاہ کیا یقینا اپنی قوم کا مقدمہ جس طرح اُس روز اُنہوں نے افغانستان جاکر لڑا ہوگا اُس کڑے وقت میں اُن سے بہتر انداز میں وہاں جاکر موجودہ مقتدر حلقے لڑنے سے رہے نئے افغان صدر کے سامنے لازمی طور پر یہ بات بھی جنرل راحیل شریف نے رکھی ہو گی کہ سانحہ پشاور پوری پاکستانی قوم کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں اب قوم سمیت اُن کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا اور آئندہ کیلئے پاکستان کی طرف سے دوستی کا جواب دوستانہ انداز میں اور دشمنی کا جواب دشمنی کے انداز میں دیا جائے گا کوئی بھول میں نہ رہے پاکستان اپنے دشمنوں سے نمٹنا خوب جانتا ہے اُسی روز پھر افغانستان کے دورہ سے واپسی پر اُنہوں نے جی ایچ کیو حملہ میں ملوث مجرموں کے ڈیٹھ وارنٹ پر دستخط بھی کئے اور اب جوکہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے جنرل راحیل شریف اس بات کو ذہن میں بٹھا چکے اور اس امر کا حقیقی ادراک بھی کر چکے تھے۔
کہ کڑے وقت کا تقاضا یقینا کڑے اور بڑے فیصلے ہوا کرتے ہیں وزیر اعظم نواز شریف سے فوجی عدالتوں کے قیام کی بات اُنہوں نے کی جس پر وزیر اعظم نے سیاسی قیادتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے اُن کی شرکت اس لحاظ سے لازمی تھی کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق سیاسی قیادتوں کے تحفظات کا ہونا ایک یقینی بات تھی کل جماعتی کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے جس قدر تحفظات کا اظہار مختلف سیاسی رہنمائوں کی طرف سے سامنے آیا جنرل راحیل شریف نے اُن کے تمام تر اُن تحفظات کو نہ صرف دور کیا بلکہ یہ یقین دہانی بھی اُنہوں نے کرائی کہ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لانا قطعی طور پر افواج پاکستان کی خواہش نہیں بلکہ فوجی عدالتوں کا قیام ملکی حالات اور موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔
اُنہوں نے دوٹوک اور واضح الفاظ میں اس امر کاا عادہ بھی کیا کہ فوجی عدالتیں سیاسی مقاصد کیلئے ہر گز استعمال نہ ہوں گی جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائر منٹ کے بعد جب سے آرمی چیف کامنصب جنرل راحیل شریف نے سنبھالا ہے تب سے ملک میں کئی بار ایسے حالات پیدا ہوئے جب عوام کی اکثریت کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما اور تجزیہ نگار یہ تصور کئے ہوئے تھے کہ مارشل لاء کے آنے میں ابھی بس کچھ ہی دیر باقی ہے (جاری ہے )
تحریر: لقمان اسد