تحریر: لقمان اسد
مگر اس طرح کی تمام تر توقعات افواہوں اور اندازوں کے برعکس جنرل راحیل شریف نے ایسا کوئی بھی اقدام نہ اُٹھایا اور وہ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف عمل رہے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں دیئے گئے اپنے احتجاجی دھرنوں کے دوران جب آرمی ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تو اس ملاقات کے بعد اپوزیشن رہنمائوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا اسمبلی فورم پر میاں نواز شریف کو ان ملاقاتوں کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا اور یہاں تک کہا گیا کہ میاں نوازشریف ایک سیاسی معاملہ میں جنرل راحیل شریف کو درمیان میں کیو لے آئے۔
اسی طرح جنرل راحیل شریف نے امریکہ کا دورہ کیا تو اس پر بھی سیاسی رہنما اعتراض کرتے نظر آئے پاکستانی سینٹ کے ایوان نمائندگان نے سینٹ میں یہ مطالبہ بھی رکھا کہ جنرل راحیل شریف دورہ امریکہ کے حوالے سے سیاسی قیادتوں کو اعتماد میں لیں اورباقاعدہ بریفنگ دے کر اپنے دورہ امریکہ کے مقاصد کو واضح کریں بعض مواقع پر جس طرح سیاسی اور جمہوری قیادتوں کو ملکی ترجیحات کے پیش نظر غیر ممالک کے دورے کرنا پڑتے ہیں اسی طرح دفاعی ضرورتوں اور دفاعی تعلقات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے فوجی سربراہان کو بھی دنیا کے مختلف ممالک کے ضروری دورہ پر جانا پڑتا ہے سیاسی قیادتوں کی طرف سے ہربات پر واویلہ اور شکوک وشبہات کا بے تکا اظہار قطعاً کسی طور بھی موزوں اور مناسب طرز عمل نہیں۔
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے جاری تھے تو حکمران جماعت کے وزیر اور مشیر بڑا شور مچاتے رہتے کہ انہی احتجاجی دھرنوں کے باعث ملک مسائل میں دھنستا جارہا ہے،ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے اور کسی بھی ملک کا سربراہ پاکستان آنے کو تیار نہیں لیکن اب ان احتجاجی دھرنوں کو ختم ہوئے دو ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے ابھی تک تو ملکی معیشت میں کوئی انقلاب برپا یہ حکومت نہیں کرسکی بلکہ پٹرول کے بدترین بحران کا سامنا بھی پاکستانی قوم ان دھرنوں کے خاتمہ کے بعد کرچکی ہے حکومت کی ان پئے درپئے ناکامیوں کے سبب پاکستانی عوام کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت نے دھرنوں کو جواز بناکر یہ سب ڈرامہ رچایا ہوا تھا اور ن لیگ کے یہ الزامات سیاسی شعبدہ بازی کے ماسوا کچھ نہ تھے۔ تب انہی احتجاجی دھرنوں کے دوران جب چینی صدر اپنے ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق ہمارے فطری حریف اور ازلی دشمن ہندوستان کے دورہ پر جانے والے تھے تو سوچی سمجھی باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ن لیگی حکومت نے دھرنوں کو مؤرد الزام ٹھہرا کر اپنی سفارتی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی غرض سے یہ پروپیگنڈہ مہم چلائی کہ چینی صدر نے دراصل پاکستان آنا تھا لیکن دھرنوں کے باعث وہ پاکستان کا دورہ ملتوی کرکے انڈیا جا رہے ہیں۔
موجودہ جمہوری حکومت کی سفارتی ناکامی کی ایک تازہ مثال امریکی صدر باراک اوبامہ کا حالیہ دورہ بھارت بھی ہے۔9/11کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لین اتحادی بنا اور اس جنگ میں 55ہزار پاکستانی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 100بلین ڈالر کا نقصان بھی پاکستان اس جنگ میں برداشت کرچکا ہے مگر ان سب قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوبامہ ہندوستان کا دورہ کرکے واپس امریکہ لوٹ گئے حالانکہ اب نا تو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے جاری تھے اور نہ ہی شہروں کو بند کرنے والے کسی سی یا ڈی پلان کا سامنا حکومت کو تھا بغور ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت حال یہی سامنے آتی ہے۔
یہ سب ن لیگ کی موجودہ جمہوری حکومت کی ناکام منصوبہ بندی اور کمزوری سفارتکاری کا نتیجہ ہے جسکی نشاندہی حال ہی میں مستعفی ہونے والے گورنر چوہدری محمد سرور نے بھی کی۔یہاں بھی جنرل راحیل شریف کو کریڈٹ جاتا ہے ایک تجربہ کار وزیراعظم کے مقابلہ میں انہوںنے اس مشکل اور کڑے وقت میں چین کے حوالے سے بھی ملکی تعلقات کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھا اور ایک ہفتہ قبل انہوں نے چین کادورہ کرکے پاکستان اور چین کے دو طرفہ تعلقات اور عظیم دوستی کے رشتہ کی تقویت اور مضبوطی کی نئی امیدیں قائم کیں۔یوم پاکستان کی وہ تقریب جومسلسل سات برس سے ملک میں جمہوری حکومتوں کے قیام کے باوجود تعطل کی شکار رہی اور گزشتہ سات برس سے جس تقریب کا انعقاد ممکن نہیں بنایا جاسکا اب یوم پاکستان کی یہ پرعزم اور پروقار تقریب 23مارچ کو جنرل راحیل شریف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہورہی ہے 23مارچ کو افواج پاکستان کی مشترکہ پریڈکا فیصلہ کیا گیا ہے اور یوم پاکستان کی اس تقریب اور افواج پاکستان کی مشترکہ پریڈ میں چینی صدر ژی جن ینگ کی بطور چیف گیسٹ شمولیت بھی متوقع ہے۔جنرل راحیل شریف ایک مدبر اور باحوصلہ جرنیل ہیں سیاسی راہنمائوں کی بے جاطنز کو بھی انہوں نے ذاتی عناد میں شامل نہیں کیا۔
خندہ پیشانی سے سب افواہوں اور بلاجواز گمانوں کو وہ یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ملک وقوم کیلئے کامیابی کے ساتھ اپنے تیز تر سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ 27دسمبر کو سانحہ پشاور جیسے پیش آنیوالے المناک اور عظیم انسانی المیہ کو کو نظرانداز کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساتویں برسی کے موقع پر اجتماع عام میں سابق صدر آصف علی زرداری نے جنرل ریٹائر پرویز مشرف کے حوالے سے افواج پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا انہوںنے فرمایا فوج بتائے اگر مشرف اس کا نمائندہ ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی اس کا مقابلہ کرے گی ایک المیہ ہمارے سیاسی راہنمائوں کا یہ بھی رہا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کو چھپانے کی خاطر اپنے”منہ”سے بڑی بات کرتے اور جھوٹی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں بجائے اسکے کہ وہ خود اپنی اصلاح پر توجہ دیں۔
تحریر: لقمان اسد