تحریر: سید انور محمود
تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد سو دنوں میں نوازشریف کو اہم فیصلہ کرنا تھا اور وہ تھا کہ تین اہم عسکری عہدوں کی تقرری جس میں آرمی چیف ،نیول چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف کےعہدے شامل تھے۔ سب سے اہم آرمی چیف کے عہدے کے اُمیدوار تھے ، لیفٹینینٹ جنرل ہارون اسلم، لیفٹینینٹ جنرل راشد محمود، لیفٹینینٹ جنرل راحیل شریف، لیفٹننٹ جنرل طارق خان، لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام۔اس سے پہلے نواز شریف تھوڑے یا زیادہ عرصے چھ جنرلوں یعنی جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ وزیر اعظم کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ نواز شریف کا پس منظر یہ تھا کہ ان چھ جنرلوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی نواز شریف کے تعلقات اچھے نہ رہے۔
جنرل مرزا اسلم بیگ اور نواز شریف کا صرف نوماہ کا ساتھ رہا تاہم خلیج کی جنگ کے دوران نواز شریف نے محسوس کیا کہ جنرل بیگ اُن کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں تو جنرل بیگ کی ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیا گیا۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ سے نواز شریف کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے اور جب اُنکی غیرطبیعی موت واقع ہوئی تو زہر دینے کا الزام اُنکی کابینہ کے وزیر چوہدری نثار پر آیا۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے 1993ء میں اُسوقت کے صدرغلام اسحاق خان اوروزیراعظم نواز شریف کے اختلافات ختم نہ ہونے پر دونوں کو گھر بھیج دیا تھا۔
اکتوبر 1998ء میں جنرل جہانگیر کرامت نے نیول وار کالج میں خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ریاستی ڈھانچے کے استحکام کے لیے ترکی کی طرز پر نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نواز شریف حکومت اس تجویز سے یہ سمجھی کہ جنرل صاحب کے ارادے ٹھیک نہیں۔ چنانچہ اُن سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف اور اپنے قریبی ساتھی چوہدری نثار کے مشورے پر سنیارٹی کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو 1998ء میں آرمی چیف کا عہدہ دیا تھا۔ اختلاف کے باعث جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کرکے نواز شریف کو پہلے سولہویں صدی کے اٹک کے قلعہ میں رکھا اور پھر تھوڑے دن بعد سعودی عرب روانہ کردیا۔ نواز شریف اورجنرل اشفاق پرویز کیانی کا ساتھ بہت تھوڑے عرصہ رہا ، کیونکہ جنرل کیانی تو پہلے ہی پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرف سے تین سال کی توسیع لے چکے تھے، جس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی، اسلیے اُنکا اور نواز شریف کا ساتھ بغیر کسی اختلاف کے گذر گیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے 27 نومبر 2013ء کو جنرل راحیل شریف کو ملک کی بری فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا اور جنرل راشد محمود کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین تعینات کیا۔ جنرل راحیل شریف1971ء کی پاک بھارت جنگ میں نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر شبیرشریف شہید کے چھوٹے بھائی ہیں اور آرمی چیف بنتے وقت وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر سنیارٹی کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو بری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
اس مرتبہ انہوں نے صرف اپنے گھر والوں سے جس میں بیگم کلثوم نواز بھی شامل تھیں مشورہ کیا ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف کی تقرری میں بھی نواز شریف نے اپنی ذاتی پسند کو ترجیح دی۔ جنرل راحیل شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ لی جو چھ سال تک پاکستان کے بری فوج کے سربراہ رہنے کے بعد 28 نومبر 2013ء کو ریٹائر ہوئے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے لیے اصل چیلنج نئے آرمی چیف کی تقرری کوسمجھا جارہا تھا۔ اس کی وجہ ماضی میں بطور وزیر اعظم اپنے دونوں ادوار میں نوازشریف کی بری فوج کے سربراہان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی تھی۔
مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال تک طالبان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کا کھیل رچایا۔ کراچی ایئرپورٹ پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعداتوار 15 جون 2014ء کو افواج پاکستان نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن“ضرب عضب” کا آغاز کیا۔ آپریشن ضرب عضب میں اب تک مختلف کارروائیوں کےدوران 2800 کے قریب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیاجاچکا ہے، جبکہ آپریشن میں سیکیورٹی فورسز کے350 سے زیادہ افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔ اس سے پہلے 4ستمبر 2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بدامنی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو مرکزی کردار دینے کی تجویز پیش کی۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں فوری طور پر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔ دونوں آپریشن کامیابی کے ساتھ جاری ہیں، شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں آپریشن ضرب عضب انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے اورمسلح افواج نے تقریبا 95 فیصد علاقہ دہشت گردوں سے خالی کرا لیاہے۔ بڈھ بیر ایئر بیس کے سانحے کی وجہ سے ناقدین دعویٰ کرتے ہیں کہ ضرب عضب آپریشن ناکام ہو چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ جنرل راحیل شریف اس تمام آپریشن کی خود نگرانی کررہے ہیں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ رینجرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، لیکن اگر آپ ایک عام شہری سے بات کرینگے تو وہ یہ ہی کہے گا کہ حالات پہلے سے بہتر ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں کامیابیاں جاری ہیں اورفوج کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے، بلکہ عوام کی جانب سے جنرل راحیل شریف اور مسلح افواج کو خراج تحسین بھی پیش کیا جارہا ہے۔ یہ اس آپریشن کا ہی نتیجہ ہے کہ اب کراچی میں بھی امن و امان تیزی سے بحال ہو رہا ہے اور بہت حد تک جرائم پر قابو پالیاگیا ہے۔ اس درمیان جنرل راحیل شریف کی حمایت میں پوسٹر اور بینرز لگنے شروع ہوگے۔ ابھی جبکہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے اُنکی ملازمت میں توسیع کی مانگ کی جانے لگی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقبولیت پر خوشی ہے، لوگ اپنے سپہ سالار سے پیار کرتے ہیں، اس میں کسی کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
خورشید شاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں آرمی چیف کے پوسٹر اور بینرز کے لگنے پر گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ عوام صرف اور صرف محبت میں پوسٹر لگارہے ہیں ( یہ بات اور ہے کہ خورشید شاہ کے رہنما آصف زرداری تو گھبراکر ملک ہی چھوڑ کر چلے گئے)۔ سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف بہت اچھا کام کر رہے ہیں، جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے، فوجی قیادت بدلی تو سارا کیا دھرا ختم ہوجائے گا، سسٹم تبدیل ہوا تو سب صفر ہوجائے گا ۔ خوشی ہے کہ آرمی چیف کی پاکستان میں شہرت ہے، ایک آدمی تو ایسا ہے جو پاکستان میں مشہور ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ “موجودہ آرمی چیف ایک پروفیشنل سپاہی ہیں اور ڈیڑھ سال کے عرصے میں انھوں نے ان تھک محنت کی وجہ سے صرف فوج میں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں عزت کمائی ہے”۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کراچی کے حالات میں بہتری دیکھنے کے بعد فوج سے مطالبہ کرڈالا کہ آپریشن ضرب عضب کے دائرہ کو پنجاب تک وسیع کیا جائے۔
15 ستمبر کو گارڈین لندن میں جان بونی نے ایک مضمون “پاکستانی میڈیا اور صحافیوں پرآرمی کا سخت دباؤ” لکھا۔ جان بونی کے مطابق “پاکستان کے صحافی آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی طالبان کے خلاف کاروائی کرنے پر جنرل راحیل شریف کو ایک مقبول شخصیت بنا دیا ہے۔ جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ اُن کی یہ ذمہ داری ہے کہ”عوام تک درست اطلاعات پہنچائی جائیں”۔ ہم میڈیا کو یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کرو یا فلاں خبر کو سنسر کردو۔
انہوں نے کہاعوام پاکستان آرمی کے کاموں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ( آرمی کی وجہ سے) حالات میں بہتری آرہی ہے۔ڈان کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر کا کہنا ہے کہ “ایسامشکل نظر آتا ہے کہ راحیل شریف کو ملازمت میں توسیع ملے کیونکہ اس سے آرمی کے اندر غم و غصہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن حد سے زیادہ اعتماد بھی ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کا سبب بن سکتا ہے”۔ عباس ناصر کہتے ہیں کہ میرا خدشہ ہے یہ صرف یکطرفہ تعریف ہے اور ہمارے جرنیل خوش فہمی کا شکار ہو کر کسی مہم جوئی میں ملوث نہ ہوجائیں۔ اگر آپ کو مسلسل یہ بتایا جائے کہ آپ عظیم اور عظیم تر ہیں تو جلد ہی آپ کو اس بات کا یقین بھی ہو جاتا ہے”۔
کیا جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں؟ اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز(سی آر ایس ایس ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گُل کا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کہنا ہے کہ “یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ خود جنرل راحیل شریف پر بھی منحصر ہو گا کہ وہ اپنے پیشرو جنرل کیانی کی طرح توسیع لینا چاہیں گے یا نہیں”۔
امتیاز گل کا مزیدکہنا تھا کہ سول حکومت کی کوتاہ اندیشیوں اور بے عملی کی وجہ سے فوج کو بہت سے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا پڑے ہیں: “جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہو یا کراچی میں امن وامان کے قیام کا مسئلہ، سیلاب متاثرین ہوں یا بے گھر افراد فوج ہر طرف غیر معمولی طور پر سر گرم ہے اور یہ بات یقیناﹰ سول حکومت کے حق میں نہیں جاتی “۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر اس وقت فوج اور سول حکومت کے درمیان اس لیے کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا کہ سول حکومت نے خود کو فوج کے تابع کیا ہوا ہے۔ انتظار کیجیے کہ تمغوں اور شہیدوں والے گھرانے کے جنر ل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کےلیے کیا فیصلہ کرتے ہیں، ہنوز دلی دور است۔
تحریر: سید انور محمود